میرے پیارے ابو... سید ولی الدین

June 20, 2021

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

میرے ابّو 1930ء میں حیدرآباد دکن (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ 1947ء میں تقسیمِ ہند کے بعد اپنے ایک دیرینہ دوست، احمد رشدی کے ساتھ پاکستان ہجرت کی۔ ان کے اس دوست نے ہجرت کے بعد پلے بیک سنگر کی حیثیت سے نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر میں بے مثال شہرت حاصل کی۔ ابّو اور احمد رشدی صرف تَن کے کپڑوں کے ساتھ بڑی مشکلات اور صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے کراچی پہنچے۔ پھر طویل جدوجہد اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے بعد سٹی کورٹ، کراچی میں ملازم ہوگئے۔

ابتدائی چند برس انتہائی کٹھن گزرے۔ جب زندگی میں کچھ سکون میسّر آیا، تو چند عزیزوں کی پیش رفت سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ ہماری والدہ اپنی چار بہنوں اور ایک بھائی میں سب سے بڑی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ شادی کے پہلے ہی دن سے ابّو نے ایک بُردبار مرد کی طرح گھر کی ذمّے داریاں سنبھال لی تھیں۔ کھڑے ناک نقشے اور کسرتی جسم کے مالک ہونے کی وجہ سے انہیں اُن کے قریبی دوست، اُس وقت کے مشہور اداکار، سدھیر سے تشبیہ دیتے تھے۔

میرے ابّو انتہائی شریف النّفس، دوسروں کے کام آنے والے، اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حامل انسان تھے۔ خاندان میں کسی کے بھی بیاہ شادی کے موقعے پر بھرپور تعاون کرتے۔ دفتری اوقات میںلنچ کے وقت کبھی اکیلے کھانا نہیں کھاتے تھے، ہوٹل کے باہر ٹہلتے رہتے اور جب تک دوچار افراد کو کھانے میں شریک نہ کرلیتے، کھانا نہکھاتے۔

خاندان میں کسی کی بیماری کی اطلاع ملتی، تو سب سے پہلے عیادت کو جاتے، اس موقعے پر بسکٹ کے کئی پیکٹ‘ فروٹ جوسز اور دیگر لوازمات لے جانا نہ بھولتے۔ مذہبی تہواروں کے موقعے پر اہلِ محلّہ اور خاندان کے افراد کو مدعو کرتے، مہمانوں کی تواضع کے لیے رات ہی سے کھیر اور دیگر لوازمات کی تیاریوں میں بڑے خلوص کے ساتھ مصروف رہتے۔

سردیوں کے آمد کے ساتھ ہی گھیکوار کا حلوہ کافی مقدار میں اہتمام کے ساتھ تیارکرواتے اور خصوصاً جوڑوں کے امراض میں مبتلا مریضوں کو تحفتاً پیش کرتے۔ آج بھی جب میں اپنی یادوں کے دریچوں میں جھانکتی ہوں، تو ابّو کے ساتھ گزرے لمحات شدّت سے یاد آتے ہیں۔ بچپن میں ایک دفعہ انہوںنے مجھے اپنی دُھلی ہوئی بنیان نچوڑنے کے لیے دی۔ مَیں اس وقت بہت چھوٹی تھی، میں نے اپنے ننّھے منّے ہاتھوں سے اسے نچوڑنے کے بہت کوشش کی، لیکن کام یاب نہ ہوسکی۔

ابّو نے اپنے مضبوط ہاتھوں سے اسے نچوڑا، تو سارا پانی نچڑ گیا۔ جب عُمر ڈھلنے کے ساتھ ابّو بیمار اور کم زور ہوگئے اور میں نوجوانی کے عالم میں پہنچ گئی، تو ایک روز مَیں نے اُن سے ازراہِ مذاق کہا کہ ’’ابّو! ذرا یہ بنیان نچوڑ دیں۔‘‘ انہوںنے بیماری کی حالت میں بنیان نچوڑنے کی کوشش کی، لیکن کم زوری کی وجہ سے نچوڑ نہ سکے۔ پھر میں نے اُن سے بنیان لے کر نچوڑی، تو سارا پانی نچڑگیا۔ مَیں نے ابّو کی طرف نظر ڈالی، تو وہ دھیرے دھیرے مسکرا رہے تھے۔

عید کی آمد کے ساتھ ہی ابّو سے فرمائشی سلسلہ شروع ہوجاتا۔ ہم شاپنگ کی لسٹ بناکر ابّو کے ہاتھ میں دے دیتے، تو وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ لسٹ ہاتھ میں لیتے، اسے بڑے غور سے چیک کرتے، پھر کہتے کہ ’’اچھی طرح سوچ کر لسٹ بنائو، کوئی چیز رہ نہ جائے۔‘‘ پھر چاند رات کو مجھ سمیت سب کی لسٹس کے مطابق فرمائشیں پوری کردیتے۔

جگر کے عارضے کے سبب ابّو کو اپنے آخری ایّام اسپتال میں گزارنے پڑے۔ وہ مردانہ وارڈ میں داخل تھے، جس کی وجہ سے میں اُن کی عیادت کے لیے اسپتال نہ جاسکی۔ ابّو بے قراری کے عالم میں ہر آنے جانے والے سے پوچھتے کہ ’’سیما کیوں نہیں آئی؟‘‘ آخر ابّو کے مسلسل اصرار پر میں اپنے ماموں کے ساتھ اسپتال پہنچی، تو مجھے دیکھتے ہی شکایتی انداز میں کہنے لگے ’’محترمہ! آپ کو فرصت مل گئی۔‘‘ میں ابّو کے گلے لگ کر رونے لگی، تو انہوںنے محبت و شفقت بھرے لہجے میںکہا ’’اب تم یہاں سے جانا نہیں۔‘‘

میںنے کہا ’’ابّو میں آپ کے پاس مردانہ وارڈ میں کیسے رہ سکتی ہوں؟‘‘ یہ سُن کر انہوںنے اپنے ہاتھ سے بستر پر جگہ بناتے ہوئے کہا ’’تم یہاں آرام کرلینا۔‘‘ کچھ دن بعد ابّو کا اسپتال میں انتقال ہوگیا۔ اُن کے انتقال کے بعد ایسا محسوس ہوا، جیسے ایک گھنے، سرسبز، تناور درخت کا سایہ ہمارے سَروں سے اٹھ گیاہے۔

بلاشبہ، اسی سایہ دار درخت نے ہمیںزمانے کے گرم و سرد سے بچا کر رکھا ہوا تھا۔ آج بھی گھر کے دروازے پر کوئی رکشا رکنے کے آواز آتی ہے، تو دل بے اختیار ابّو کی یاد سے مضمحل ہوجاتا ہے کہ ابّو اب دروازے پر دستک دیںگے، اُن کے کھنکھارنے کی مخصوص آواز آئے گی اور پھر دل کش مسکراہٹ کے ساتھ سامنے آکھڑے ہوںگے۔

کاش! میں اُن کے سینے سے لگ کر آنسوئوں کا نذرانہ پیش کرسکوں، اُن کی محبت اور یادوں کا دیپ آج بھی میرے دل میں روشن ہے۔ میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر بیٹی کو میرے ابّو جیسا شفقت کا سائبان اور محبت کرنے والا باپ عطا فرمائے۔ اےپاک پروردگار! میرے ابّو کو بھی اسی طرح ابدی راحت اور سکون عطا فرما،جس طرح انہوں نے ہمیں زندگی میں فراہم کیا۔ (سیما اشفاق، کراچی)