میرے والد... محمد قاسم منشی

June 20, 2021

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

ہمارے والد، محمد قاسم منشی کا تعلق بھارتی صوبہ گجرات کی ریاست جونا گڑھ سے ہے۔ یہ ایک عجیب حُسنِ اتفاق ہے کہ ہمارے والدین کی شادی بھی اُسی روز ہوئی، جس روز ملکہ برطانیہ، الزبتھ دوم کی شادی پرنس فلپ سے انجام پائی، یعنی 20نومبر 1947ء۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب تقسیمِ ہند کے ناقابلِ فراموش واقعے کو رونما ہوئے تین ماہ گزر چکے تھے اور مسلمانوں کا پاکستان کی جانب ہجرت کا سلسلہ جاری تھا۔ اُن ہی دنوں ہمارے والدین بھی ہجرت کے بعد پاکستان پہنچے اور کراچی کو اپنا مسکن بناکر نئے سرے سے زندگی کا آغاز کیا۔

والد صاحب قیامِ پاکستان سے قبل بی اے کرچکے تھے۔ بی ٹیک کراچی سے کیا۔ چوں کہ خاندانی پیشہ تعلیم و تعلم تھا، لہٰذا کراچی میں میری ویدر ٹاور کے قریب واقع پاکستان نیشنل اسکول میں بحیثیت ٹیچر ملازمت کا آغاز کیا۔ بعدازاں، مدرسہ اسلامیہ سیکنڈری اسکول کھارادر سے منسلک ہوگئے، جہاں 28 سال تک بحیثیت پرنسپل خدمات انجام دیتے رہے۔ انہیں اس اسکول سے ایک خاص لگائو تھا۔ اس وقت وہاںتقریباً 900 کے قریب طلبہ زیر تعلیم تھے۔ اپنی اَن تھک محنت اور خصوصی توجّہ کے باعث اسکول کا معیار تعلیم اس قدر بلند کردیا کہ بیش تر طلبہ میٹرک کے امتحانات میں نمایاں پوزیشن لینے لگے۔

رعب دار شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ، وہ علم وکمال کے حامل اور مردانہ وجاہت کا مرقّع بھی تھے۔ سرخ و سفید رنگت پر چھے فٹ سے نکلتا قد۔ غصّے میں چہرے کی سرخی مزید بڑھ جاتی۔ بلند قد وکاٹھ کے ساتھ اُن کی گرج دار آواز افسرانہ شان کو مزید نمایاں کرتی۔ علی الصباح اسکول پہنچتے ہی سب سے پہلے پوری بلڈنگ کا رائونڈ لگاتے۔ اس موقعے پر اُن کے ہاتھ میں ایک چھڑی ضرور ہوتی، جو کسی بھی بدنظمی، بے قاعدگی اور خلافِ ضابطہ حرکت پر بےتکلف استعمال میں لانے پر کوئی تامّل نہ کرتے۔ سخت نظم و ضبط کے قائل تھے، طلبہ کو زیورِ علم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی شخصیت کو نکھارنے کے لیے بھی خصوصی توجّہ دیتے، تاکہ عملی زندگی میں انہیں کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اپنے چیدہ چیدہ طالب علموں کی قائدانہ صلاحیت کو بھی ابھارتے۔ ان ہی خصوصیات کی وجہ سے وہ طلبہ میں بے حد مقبول تھے۔ ان سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت سے طلبہ نمایاں مقام تک پہنچے۔ 1981ء میں جب ریٹائرمنٹ کا وقت آیا، تو ’’میمن ایجوکیشن بورڈ‘‘ نے اُن کی خدمات پر الوداعی استقبالیہ تقریب منعقد کی۔ تقریب کی صدارت اُس وقت کے میئر، عبدالستار افغانی نےکی اور اس میں کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ اس موقعے پر بھرائی ہوئی آواز میں تقریر کرتے ہوئے انہوںنے کہا، ’’آج میرے ایک اسٹوڈنٹ نے مجھ سے نصیحت کرنے کی درخواست کی، تو میں یہ عرض کرتا چلوں کہ جانے والا نصیحت نہیں، بلکہ وصیت کیا کرتا ہے۔‘‘

آج بھی جب مجھے اُن کے یہ الفاظ یاد آتے ہیں، تو دل خون ہوجاتا ہے اور میں ماضی کی خُوب صُورت وادیوں میں گُم ہوجاتا ہوں۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے والد کو فنونِ لطیفہ کا عاشق پایا، وہ نہ صرف مصوّری کے شوقین تھے، بلکہ شاعری سے بھی خوب شغف رکھتے۔ انہیںعلّامہ اقبال کے سیکڑوں اشعار ازبر تھے۔ خاص طور یہ شعر تو بار بار سنایا کرتے؎یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی.....سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی ۔

یہاں میں ایک تصوف کی بات واضح کرتا چلوں تو بیجا نہ ہوگا کہ قوتِ توجّہ جس کا استعمال مشائخین اپنے مریدوں کی تربیت کےلیے استعمال کرتے ہیں، خاص طور پر اس لیے کے ان کا قلب جاری ہو، یہ درحقیقت اسی فیضانِ نظر کا نام ہے، جس کا اقبال نے اپنے شعر میں ذکر کیا ہے۔ اسی طرح ایک ہم درد استاد اپنے طالب علم کو یا شفیق باپ اپنے بیٹے کو ہمہ تن یک سوئی سے پڑھاتا ہے، تو اس پر اس علم کے اسرار وَا ہوتے ہیں، جو عام پڑھنے والوں کو سمجھ میں نہیں آتے۔

یہی وہ راز ہے مشائخین کے قلوب جاری کرنے کا۔ بچپن میں اکثر مجھے آرٹس کاؤنسل آف پاکستان لے جاتے، وہاں آرٹ گیلری کی دیواروں میں آراستہ مختلف فن پارے نمائش کے لیے رکھے ہوتے تھے۔ مجھے وہ خاص طور پر تجریدی آرٹ کے بارے میں بتاتے کہ اسے کیسے سمجھا جائے۔ موسیقی کے بھی دل دادہ تھے، ہلکی پھلکی موسیقی کے ساتھ کلاسیکل موسیقی میں ملکہ ترنّم نورجہاں، فریدہ خانم اور اقبال بانو کی گائیکی کو بہت پسند فرماتے۔ مزاج میں حد درجے نفاست تھی، بیش تر وقت عطر بیز و خوشبو ریز رہتے۔ انہیں پرندوں کے پالنے کا بھی شوق تھا، حالاںکہ ہمارا گھر کچھ زیادہ وسیع نہیں تھا، مگر اس کے باوجود Australian Birds یعنی Parakeet پالتے۔ پھولوں سے اس قدر لگائو تھا کہ صحن میں کئی طرح کے گلاب اور اور موتیا کے پودے لگا رکھے تھے، جن کی بڑی باقاعدگی اور نفاست سے آب یاری کرتے۔

ہمارے والد محمد قاسم منشی، تین زبانوں انگریزی، اردو اور گجراتی پر عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے میٹرک کے لیے گجراتی زبان کی ٹیکسٹ بُک بھی لکھی۔ کچھ عرصے عبداللہ ہارون کالج، لیاری میں گجراتی زبان بھی پڑھاتے رہے۔ اُن دنوں معروف شاعر، فیض احمد فیض وہاں کے پرنسپل ہوا کرتے تھے۔ اس کالج میں داخلے کے بعد مجھے بھی فیض صاحب سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا۔ زندگی میں مَیں نے پہلے پہل ابنِ عربیؒ کا نام اُن ہی کی زبان سے سُنا، وہ شاہ ولی اللہ ؒ کی کتابوں کے عاشق تھے۔ میں جب چھٹی یا ساتویں جماعت میں تھا، تو اُس وقت مجھے شاہ صاحبؒ کی کتابیں مثلاً انفاس العارفین، ہمعات اور فیوض الحرمین جیسی کتابیں مطالعے کے لیے لاتے۔

میں بھی اکثر ان کتابوں کی ورق گردانی کرتا۔ اس وقت تو کیا سمجھ میں آتی، لیکن ایک بے نام سی لذت ذہن میں رہ گئی، جس کا مزہ آج بھی باقی ہے۔ جب کبھی شاعری کے موضوع یا اردو کے کسی لفظ پر بات ہوتی، تب اُن کی علمیت کا احساس ہوتا، یعنی وہ لفظ کہاں سے اردو زبان میں آیا اور کہاں سے نکلا، ان سے یہ چیزیں سیکھنے کا بارہا موقع ملا۔ بلاشبہ ان ہی کی کوششوں اور دعائوں سے میرا میڈیکل کالج میںداخلہ ہوا اور میں نے ایم بی بی ایس امتیازی نمبرز سے پاس کیا۔ یقیناً یہ ان ہی کی جوتیوں کی برکت ہے کہ آج ہم کچھ لکھ پڑھ لیتے ہیں۔

گھر میں اکثر ہم ان کے رعب کی وجہ سے سہمے سہمے سے رہتے کہ نہ جانے کب موڈ خراب ہوجائے۔ جب وہ کسی سے خوش ہوتے، تو اسے آسمان پر پہنچادیتے اور ناراض ہوتے تو آناًفاناً اوجِ ثریا سے زمین پردے مارتے۔ الغرض، اُن کی زندگی کی کھٹ میٹھی کیفیت آج بھی دل میں خوشیاں بکھیر دیتی ہے۔ آج بھی جب ہم چار پانچ دہائی قبل کی زندگی یاد کرتے ہیں، تو اُن کی پُروقار شخصیت نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے، جن خوشی سے کِھل کِھلاتے چہرے سے گھر میں باغ و بہار کی سی کیفیت چھاجاتی تھی۔ اب تو ہمارے دل کو ڈھارس دینے کے لیے میرتقی میر کا یہ شعر ہی رہ گیا ہے کہ ؎وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں.....اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں۔ (ڈاکٹر محمد جاوید ایم ڈی، واشنگٹن، امریکا)