باپ: ایک تناور، چھتنا درخت

June 20, 2021

پیرزادہ شریف الحسن عثمانی، سکھر

دُنیا میں سب سے زیادہ قابلِ تکریم ہستی باپ کی ہے۔ حضرت محمّدﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جنّت ماؤں کے قدموں تلے ہے‘‘، تو جنّت جیسی عظیم نعمت، جس ہستی کے پاؤں کے نیچے ہے، باپ اُس کے سَر کا تاج، شوہر ہوتا ہے۔ حدیثِ مبارکہﷺ ہے’’اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ روا ہوتا، تو عورت کو حُکم ہوتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘ بے شک، باپ کا مقام و مرتبہ بہت بُلند اور قدرومنزلت کہیں زیادہ ہے، لیکن افسوس کہ ہم مَیں سے زیادہ ترافراد، خاص طور پر نوجوان نسل اس بات کا ادراک نہیں رکھتی۔ دیکھا گیا ہے کہ نوجوان نسل کی اکثریت اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے ہی اپنی زندگی کی رنگینیوں میں کھو کر والدین کو فراموش کر دیتی ہے۔

متعدّد افراد جو والدین اور ان کے حالات سے غفلت کے مرتکب ہیں، وہ اس ضمن میں طرح طرح کے عذر تراشتے ہیں۔ بعض وقت کی کمی کا رونا روتے ہیں کہ’’ہماری اپنی بھی فیملی ہے۔ روزگار اور مصروفیات ہیں، سیکڑوں مسئلے مسائل اور معاملات ہیں، لہٰذا ہم چاہ کر بھی وقت نہیں نکال پاتے۔‘‘ کچھ بچّے ماں باپ سے اس لیے کتراتے ہیں کہ کہیں اُن کی مالی اعانت نہ کرنی پڑ جائے۔ ان کا نکتۂ نظر یہ ہوتا ہے کہ ’’ٹھیک ہے، اچھی کمائی ہے، لیکن منہگائی کا دَور ہے۔ ایسے میں اپنے گھر کا خرچا، مکان کا کرایہ، بچّوں کی تعلیم اور دوا دارو کے بعد بچتا ہی کیا ہے، جو کسی کے لیے کچھ کر سکیں۔‘‘

بعض اس لیے گھبراتے ہیں کہ کسی بھاری ذمّے داری کا بوجھ نہ آن پڑےاور عموماً یہ جواز پیش کرتے ہیں،’’بھاگتی دوڑتی دُنیا میں ہم اپنی ہی ذمّے داریاں پوری نہیں کر پارہے، تو کسی کی کیا مدد سکتے ہیں۔‘‘آہ…ایسا سوچتے اور کہتے ہوئے اولاد کیوںبھول جاتی ہے کہ’’کسی‘‘ نے اپنا تن، مَن، دھن سب کچھ ان کی پرورش، نگہداشت، تعلیم و تربیت کی خاطر قربان کر دیا تھا۔ اپنی جوانی کی توانائیاں ان کا مستقبل سنوارنے کی دُھن میں صرف کیں، تو انہیں آرام و سُکون پہنچانے کی خاطر اپنا سُکھ چین بھی فراموش کردیا۔حتیٰ کہ اپنی جائز ضروریات، خواہشات اورتمناؤں تک کا گلا گھونٹاکہ اُن کی فرمایشیں پوری کی جاسکیں۔ اور وہ ’’کسی‘‘کوئی اور نہیں ،اُن کا باپ ہوتا ہے ۔

وہی باپ، جس کے سامنے کھڑے ہوکر جوان اولاد کہتی ہے’’ابّو!آپ نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے…؟‘‘اکثر کو تویہ بھی یاد نہیں رہتا کہ جس باپ کی سوچ آج انہیں فرسودہ دکھائی دیتی ہے، اُسی نے انہیں عقل و شعور کی راہوں سے روشناس کروایا تھا۔ وہی باپ، جس کے لیے آج اولاد کے پاس پَل دو پَل کی فرصت نہیں، وہ شدید تھکان کے باوجود رات رات بَھر جاگ کر انہیںبہلایا کرتا تھا۔ وہی باپ جس پر دو پیسے خرچتے آج دَم نکلتا ہے، کبھی اپنی ضروریات پسِ پشت ڈال کر بچّوں کے لیے کھلونے خرید لاتا تھا۔یہ وہی باپ ہے، جس نے اولاد کی محبّت میں خود کو فنا کر ڈالا۔ برسوں رات دن کام کرکے انہیں معاشرے میں کسی اچھے مقام تک پہنچنے کے قابل بنایا۔

مانا کہ باپ کے احسانات کا بدلہ چُکانا اولاد کے بس کی بات نہیں، لیکن والد کی رضا اور خوش نودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہنا تو اولاد کا فرض بنتا ہی ہے۔ والد کی ضروریات کا خیال رکھنا اولاد پر واجب ہے اور یہی ربّ العزّت کا فرمان ہے۔ قرآنِ پاک میں حکم دیاگیا ہے ،’’اور تیرے ربّ نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو۔ اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آؤ۔

اگر وہ یعنی ماں باپ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ان کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو )،اُن سے کبھی ’’اُف‘‘ بھی مت کہنا اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے خُوب ادب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جُھکے رہنا۔ اور یوں دُعا کر تے رہنا،’’اے ہمارے پروردگار ! تو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے(صرف ظاہر داری نہیں، دِل سے ان کا احترام کرنا)۔‘‘ تمہارا ربّ تمہارے دِل کی بات خُوب جانتا ہے اور اگر تم سعادت مندر ہو، تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں کثرت سے معاف کرنے والا ہے۔ ‘‘(سورۃ بنی اسرائیل )۔

حضرت علیؓ نے فرمایا،’’اگر والدین کی بے ادبی میں ’’اُف“ سے بھی کوئی کم درجہ ہوتا، تو اللہ جلَّ شانہُ اسے بھی حرام فرمادیتے۔‘‘اس واضح حکم اورفرمان کے خلاف جانے والوں کو اگر بدنصیب نہ کہا جائےتو اور کیا کہا جائے۔ آپﷺ کا ارشادِ پاک ہے کہ’’اللہ کا راضی ہونا، ماں باپ کے راضی ہونے میں ہےاور اللہ کا ناراض ہونا ماں باپ کے ناراض ہونے میں ہے۔‘‘(روایت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ)۔اگر اس کے بعد بھی کوئی ماں باپ کی دل شکنی و دِل آزاری کا باعث بنے تو پھر اس کی بدبختی میں کیا شبہ باقی رہ جاتا ہے۔

اکیلا باپ کئی بچّوں کو پال پوس کر کسی قابل بنا دیتا ہے، لیکن یہی قابل اولاد مل جُل کر بھی ایک باپ کی ذمّے داریاں نبھانے سے قاصر رہتی ہے۔اگر کسی مالی پریشانی کی صُورت حصّہ ڈالنے کی نوبت آجائے، تو سب کی ایک ہی آرزو ہوتی ہے کہ میرا حصّہ سب سے کم ہو۔سیدنا جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا’’ اللہ کے رسولﷺ! میرے پاس مال اور اولاد دونوں ہیں، اور میرے والد میرا مال ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم اور تمہارا مال دونوں تمہارے والد کے ہیں“۔ (سنن ابنِ ماجہ)اس کے باوجود اگر کوئی باپ کی ناقدری کرتا ہے، تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم نے اپنے مذہب کی تعلیمات سے دُوری کی روش اپنا لی ہے۔ ہم اپنے بچّوں کے دُنیاوی معاملات سدھارنے پر تو خُوب توجّہ دیتے ہیں، لیکن آخرت کے حوالے سے ضروری تعلیم و تربیت سے غافل رہتے ہیں۔حضور پاکﷺ کا ارشاد ہے،’’باپ جنّت کا درمیانی دروازہ ہے۔ اگر تم چاہو، تو اس دروازے کو ضایع کردو یا اس کی حفاظت کرو۔‘‘

ایسا نہیں ہے کہ پورے معاشرے میں یہی چلن عام ہے۔ اِسی زمانے اور معاشرے میں ایسی اولاد بھی موجود ہے، جووالدین کے حقوق پہچانتی ہے، ان کے احسانات کا شعور رکھتی ہے،جو اپنے بیوی بچّوں کے ساتھ ماں باپ کی ذمّے داریاں پوری کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے، جنہیں یہ احساس رہتا ہے کہ ماں باپ کا ساتھ بہت مختصر ہوتا ہے، اس لیے جتنی زیادہ ان کی خدمت کر لی جائے، دُعائیںلے لی جائیں، اُتنا ہی اچھاہے۔ بے شک، خوش نصیب ہے وہ اولاد ،جس کے والدین حیات ہیں اور اس سے راضی ہیں اور بد قسمت ہیں، وہ لوگ جو اپنے ماں باپ کے ہوتے ہوئے بھی ان کی دُعاؤں سے محروم ہیں۔