ہدایت کاری کا فیصلہ سنگِ میل ثابت ہوا

June 20, 2021

بات چیت : عالیہ کاشف عظیمی

شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کا کہنا ہے؎’’بے محنت پيہم کوئی جوہر نہیں کھلتا‘‘ اور سچ بھی یہی ہے کہ کام کی لگن اور محنت صحرا میں بھی گُل کِھلا دیتی ہے۔ ہمارے اطراف ایسے کئی افراد بستے ہیں، جنہوں نے نامساعد حالات میں جدوجہد کا آغاز کیا اور اب کام یابیاں، کام رانیاںان کے قدم چومتی ہیں۔ ان ہی افراد میں ایک نام علی سجاد شاہ کا بھی ہے، جنہیں سوشل میڈیا صارفین ’’ابو علیحہ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ والد کے انتقال کے بعد ان کی جگہ نائب قاصد بھرتی ہوئے ۔

بعد ازاں شعبۂ صحافت سے منسلک ہوگئےاور آج مقبول سوشل میڈیا بلاگر، طنز و مزاح نگار، مصنّف، فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر جانے جاتےہیں۔ وہ اپنی فلم ’’عارفہ‘‘ کے اسکرپٹ پر’’جانچ پڑتال‘‘ کے سلسلے میں271دِن تحویل میں بھی رہے۔ علی سجاد شاہ کے بارے میں اور بھی بہت کچھ جاننے کے لیے گزشتہ دِنوں ہم نے جنگ، سنڈے میگزین کے معروف سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے اُن سے خصوصی بات چیت کی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

س: خاندان، جائے پیدائش اور تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج:میرا تعلق سیّد فیملی سے ہے۔والد رزّاق حسین شاہ سرکاری ملازم تھے اور ان کا تعلق ایبٹ آباد سے تھا۔ والدہ نور فاطمہ کشمیری خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ میری جائے پیدایش اسلام آباد ہے۔ اِسی سرسبز شہر میں پَلا بڑھا اور تعلیم بھی حاصل کی۔ مَیں جب9ویں جماعت میں تھا، تو والد کا معدے کے سرطان کے باعث انتقال ہوگیا۔ بڑا بیٹا ہوں،لہٰذا اپنی ذمّے داریاں نبھانے کے لیے تعلیم ادھوری چھوڑ کر والد کی جگہ اسٹیبلشمینٹ ڈویژن میں بطور نائب قاصد بھرتی ہوگیا۔ دورانِ ملازمت میڑک اور انٹر کے امتحانات دئیے۔ بعدازاں، ماس کمیونی کیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ۔

س:کتنے بہن بھائی ہیں، آپ کا نمبر کون سا ہے، آپس میں کیسی دوستی ہے؟

ج: ہم پانچ بہن بھائی ہیں۔میرے بعد دو بہنیں اور پھر دوبھائی۔ بہنیں شادی شدہ ہیں،جب کہ ایک بھائی وسیم عباس صحافی اور دوسراعلی عباس ملازمت پیشہ ہے۔ ہم میں دوستی نہ ہونے کے برابر ہے۔دراصل مَیں دِن میں تین تین ملازمتیں کرتا تھا۔ صُبح سویرے اخبارات تقسیم کرنا، پھر نائب قاصد کی نوکری اور شام میں ایک دکان میں سیلز مین کے فرائض انجام دینا۔یوں ابتدائی زندگی روزی روٹی کمانے میں گزر گئی، تو اہلِ خانہ کے ساتھ رہنے کا زیادہ وقت ہی نہ مل سکا۔

س:بچپن میں شرارتی تھے یا مزاج میں سنجیدگی کا عُنصر غالب تھا؟

ج:بچپن میں خاصا پھڈّے باز تھا، لیکن ملازمت کے بعد مزاج تبدیل ہوگیا۔

س:پہلی ملازمت بطور نائب قاصد کی،پھر کرائم رپورٹر کے طور پر کام کیا، پھر یہ فیلڈ بھی چھوڑ دی، کیوں؟

ج:اصل میں کچھ وجوہ کی بنا پر ایک رشتے دارنے مجھ پر جھوٹا مقدمہ درج کروا دیا تھا۔مَیں تقریباً دوہفتے جیل رہا،جہاں پولیس والوں کی زبانی پتا چلا کہ ایس ایچ او نے کرائم رپورٹر کی دھمکیوں سے ڈرکر مقدمہ درج کردیا تھا۔بہرحال، رہائی کے بعد سرکاری ملازمت سے چُھٹیاں لے کر ایک اخبار میں ٹرینی رپورٹر کا کام شروع کیا اور دوسال بعد کرائم رپورٹر بن گیا۔ مَیں نے 12برس رپورٹنگ کی۔

اس دوران 9اُردو اور3انگریزی اخبارات میں کام کیا، مگر جب زندگی مہربان ہونے لگی، تو پتا چلا کہ والدہ سرطان میں مبتلا ہوگئی ہیں۔ڈاکٹرز کے مطابق ان کے پاس ایک سے ڈیڑھ سال کا وقت تھا، لہٰذا ماں کی خدمت اور دیکھ بھال کے لیے صحافت چھوڑ دی۔

س: آپ معروف سوشل میڈیا بلاگر ہیں،یہ’’ابو علیحہ کمیونٹی‘‘ بنانے کا خیال کیوں آیا، گروپ میں کتنے ممبرز ہیں، ایڈمن میں کون کون ہے؟

ج:والدہ کی بیماری نے مجھے بہت ڈیپریس کردیا تھا، لہٰذامیرے اندر کا جو غبار تھا، وہ سارا بلاگنگ کے ذریعے نکلنے لگا اور مَیں نے’’ابو علیحہ‘‘ کے نام سے سوشل میڈیا پر لکھنا شروع کردیا۔البتہ ’’ابو علیحہ کمیونٹی‘‘گروپ دوستوں نے بنایا تھا،جس کےفی الوقت17ہزار ممبرز ہیں، جن میں سے80فی صد کا تعلق کراچی سے ہے۔ان ہی ممبرز میں سے کچھ دوست اور پڑھی لکھی خواتین گروپ آپریٹ کررہے ہیں۔

س:آپ عموماً اپنی پوسٹس میں سیاسی و معاشرتی مسائل اور کبھی کبھار فنونِ لطیفہ پر بات کرتے ہیں، سیاست ،خصوصاً موجودہ حکومت سے متعلق لب و لہجہ طنز بَھرا ہی ہوتا ہے، کیوں؟

ج:عرصہ ہوا مَیں نے بلاگنگ اور آرٹیکلز لکھنا چھوڑ دئیے ہیں، اب ٹوئیٹس کرتا ہوں یا فیس بُک پوسٹس شیئر کرتا ہوں، تو اندر کا سارا غبار ان ہی کے ذریعے نکل رہا ہے۔مَیں لگی لپٹی بات نہیں کرسکتا، جو درست لگتا ہے، وہ کہہ دیتا ہوں،خواہ ردِّعمل کیسا ہی کیوں نہ آئے۔

س:نثر نگاری کے ساتھ شاعری بھی کرتے ہیں،لگتا ہے بہت چوٹ کھائے ہوئے ہیں،کیا ایسا ہی ہے؟

ج: مجھے لکھاری ہونے کا دعویٰ نہیں، مَیں تو ’’عامی‘‘ہوں،مگر یہ حقیقت ہے کہ شاعری تب ہی نازل ہوتی ہے، جب چوٹ کھائی ہو۔میرے ساتھ جو کچھ ہوا، اُس پر اپنی کتابوں میں تفصیلاً لکھ چُکا ہوں، البتہ کس نے کیا؟ یہ نہیں بتاسکتا۔

س:علی سجاد شاہ سے ابو علیحہ بننے کے سفر کا آغاز کیسے ہوا؟

ج:علی سجاد شاہ اپنی فیملی کو سپورٹ کررہا تھا، ان کی زندگیاں سنوار رہا تھا کہ اچانک ہی ’’ابو علیحہ‘‘ کا کردار سامنے آگیا۔ اصل میں یہ کردار مَیں نے علی سجاد شاہ کے خوابوں کی تکمیل کے لیے تخلیق کیا تھا۔یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مَیں علی سجاد شاہ بائے برتھ ہوں،جب کہ ابو علیحہ وہ ہے، جو مَیں بننا چاہتا تھا، چاہتا ہوں اور چاہنے کی کوشش کررہا ہوں۔

س: اس کردار کے لیے ابو علیحہ ہی کا نام کیوں چُنا؟

ج:’’علیحہ‘‘میری بیٹی کا نام ہے، جو بہت کم گو اور شرمیلی ہے۔ اُسے اعتماد دینے کی کوشش کرتا ہوں، مگر کام یاب نہیں ہو پاتا۔ یہ نام اس لیےچُنا کہ جب وہ بڑی ہو، تو اُسے ادراک ہو کہ مَیں اپنے باپ کے لیے اتنی اہم ہوں کہ جب اُس نے چاہا کہ وہ جانا جائے تو اُس نے میرے نام سے جانے جانا بہتر سمجھا۔

س:پہلی فلم ’’عارفہ‘‘ سے متعلق بھی کچھ یادیں شئیر کریں؟

ج:مَیں ایک آرٹ فلم بنانا چاہ رہا تھا، جس کے لیے کئی پروڈکشن ہاؤسز کے چکر لگائے اور مختلف نوعیت کے تجربات بھی حاصل کیے۔ بہرحال، دوستوں کے ساتھ مل کرفلم’’عارفہ‘‘پر کام شروع کیا،لیکن جب کاسٹنگ کی باری آئی، تو سب ساتھ چھوڑ گئے۔ حتیٰ کہ ڈائریکٹر بھی۔ہمّت ہارنے کی بجائےمَیں نے خود اس فلم کی ہدایت کاری کا فیصلہ کیا ،جو زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا ۔

س:اپنی فلموں کے رائٹر، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر خود ہی ہیں، تو کیا آپ کسی اور پر اعتماد نہیں کرتے؟

ج:مَیں نے آج تک اپنی کوئی فلم پروڈیوس نہیں کی۔ فلم’’عارفہ‘‘سیّد ایاز حسین نے پروڈیوس کی تھی۔چوں کہ بعض وجوہ کی بنا پر فلم بین کردی گئی اور مجھے بھی تحویل میں لے لیا گیا، تو مَیں نے اپنے سارے رائٹس پروڈیوسر کو دے دئیے۔بعد ازاں یہ فلم’’تیور‘‘ کے نام سے ریلیز ہوئی۔ ’’کتکشا‘‘،شینو گئی‘‘ اور ’’گرو چیلا‘‘ بھی مَیں نے پروڈیوس نہیں کیں۔البتہ فلمOnce Upon A Time In Karachi پر کچھ پیسے لگائے،جب کہ چوتھی فلم’’ لاک ڈاؤن‘‘کا25فی صد پارٹنر ہوں۔

س:آپ نےمقامی ، قومی اور بین الاقوامی خبریں نشر کرنے کے لیے ویب چینل، ’’حق نیوز‘‘ لانچ کیا۔ اس پلیٹ فارم سے اپنی نوعیت کا ایک منفرد ٹاک شو شروع ہوا، لیکن8اقساط کے بعد اسے روک دیا گیا، تو اس حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟

ج: یہ ویب چینل لانچ کرنے کا مقصد لوگوں تک سچائی پہنچانا تھا،جس کے لیے ایک ٹاک شو کا اہتمام کیا گیا، لیکن مجھے اس شو کی وجہ سے اس قدر مسائل کا سامنا کرنا پڑا کہ اب یہی کہتا ہوں کہ سوشل میڈیا پر اتنا ہی سچ بولیں کہ گھر واپس لوٹ سکیں۔

س:بَھرپور زندگی گزارتے گزارتے اچانک غائب ہوگئے۔ اس حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں ہوئیں، کسی نے کہا ،لین دین کے معاملے میں خود غائب ہونے کا شوشا چھوڑا، تو کسی نے سوشل میڈیا پر متنازع پوسٹس گم شدگی کی وجہ قرار دیں ، سچ کیا ہے؟

ج:فلم ’’عارفہ‘‘ کا مرکزی خیال سانحۂ اورنگی ٹاؤن سے ماخوذ تھا۔ ایک معروف اینکر، جو رمضان شو کی میزبانی بھی کرتے ہیں، اُن سے میری اور رضا علی عابدی کی اکثر نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔ کسی طرح اُن اینکر کے ہاتھ فلم کا اسکرپٹ آگیااور انہوں نے اپنے شو میں مجھ پر الزامات کی بوچھاڑ کردی،جس کے بعدمجھےتحویل میں لے لیاگیا۔بعد ازاں ،فلم کے اسکرپٹ پر تو کلیئرنس مل گئی، لیکن’’ حق نیوز‘‘چینل کے شوز گلے پڑ گئے اور مجھے’’اینٹی ریاست سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ‘‘قرار دے کر 271دِن قید رکھا گیا۔ مَیں کسی کے پیسے لے کر نہیںبھاگا تھا اور مجھ پر لگائے گئے سارے الزامات بے بنیاد ہیں۔

س:پروڈکشن سے وابستہ ہیں،پاکستان میں سینما گھر بند ہیں، پھر ویسے ہی لوگوں کا سینما کی طرف آنے کا رجحان بھی کم ہے، تو فلم انڈسٹری کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟

ج:دیکھیں،سینما گھر شروع ہی سےمڈل اور لوئر مڈل کلاس کی تفریح کا ذریعہ رہے ہیں، مگر اب ٹکٹس اس قدر منہگے کردئیے گئے ہیں کہ عام لوگ سینما کا رُخ ہی نہیں کرسکتے۔ حکومت کوٹکٹس سستے کرنے سمیت ٹیکس بھی ختم کرنا پڑے گااورشائقین کو پاپ کارن اور کولڈڈرنکس بھی فراہم کرنا ہوںگی، تاکہ سینماؤں کی رونقیں بحال ہوسکیں،ورنہ فلم انڈسٹری کا مستقبل تاریک سے تاریک ہی ہوتا چلا جائے گا۔

س:کیا وجہ ہے کہ ہماری فلم انڈسٹری ماضی کی طرح پَھل پھول نہیں رہی، حالاں کہ کافی کوششیں بھی جاری ہیں؟

ج: دیکھیں،پہلے ہماری فلم انڈسٹری کا کسی سے مقابلہ نہیں تھا، اب متعدّد آن لائن پلیٹ فارمزہیں۔ پھرہمارے پُرانے فلم سازجب سےڈیجیٹل میڈیا پر آئے ہیںاور Multiplex Audienceکے لیے فلمیں بنانے لگے ہیں، تواُن کی پروڈکشنز کا وہ معیارنہیں ،جو ہونا چاہیے ۔ ہمارے فلم میکرز کو اگر آن لائن اسٹریمنگ پر آنا ہے، تو اپنی پروڈکشن کوالٹی بہتر کرنی ہوگی۔ مَیں ڈائریکٹرز سے یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ ہمارے پاس باصلاحیت فن کاروں کی کمی نہیں، بس انسٹا گرام پر فالورز کی تعداد دیکھ کر سلیکشن کرنا چھوڑ دیں اورنئے چہرے متعارف کروائیں۔

س: وقتی طور پر سینما گھربند ہیں، تو حکومتی سطح پر فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟

ج:صرف سینما گھر ہی نہیں، تقریباً تمام ہی اہم شعبے بند ہیں۔ مجھے لگتا ہے، موجودہ حکومت کو عام آدمی کی مشکلات کااحساس ہی نہیں ہے۔ اپنی نالائقی کی وجہ سے ہر شعبے کی بینڈ بجادی ہے۔بہرکیف، سینما انڈسٹری کی بحالی کے لیے میری کوشش ہے کہ کوئی ایسا گروپ بنائوں، جو سال میں کم از کم 50فلمیں بنائے۔ پاکستانی سینماؤں کو اس وقت 5 کروڑ روپے کی ایک فلم نہیں چاہیے، بلکہ ایک ایک کروڑکی 5فلمیں چاہئیں،جو ہر ہفتے ریلیز بھی ہوں ۔

اداکار سلیم معراج کے ساتھ خوش گوار موڈ میں

س: دُنیا بَھر میں آن ڈیمانڈ اسٹریمنگ کلچر کے اضافے کو مدِّنظر رکھتے ہوئے پاکستان نے بھی پہلا ’’اُردو او ٹی ٹی پلیٹ فارم‘‘ لانچ کیا ہے، سُنا ہے،آپ بھی اپنی فلم’’گرو چیلا‘‘ اسی پلیٹ فارم سے ریلیز کررہے ہیں؟

ج: پاکستان میں فی الوقت چار سے پانچ پلیٹ فارمزہیں،جن میں بوفے بڑا پلیٹ فارم ہےاور ہم اپنی فلم اسی پلیٹ فارم سے ریلیز کررہے ہیں اوراس فلم کی خاص بات یہ ہے کہ اسے موبائل فون پر بھی دیکھا جاسکے گا ۔

س: کیا مستقبل میں کوئی ڈراما بھی پروڈیوس کرنے کا ارادہ ہے؟

ج:قطعاً نہیں کہ میرا جنون صرف فلم سازی ہے۔

س:ایک چینل سے شو کی میزبانی بھی کی، جسے شائقین سے پذیرائی بھی ملی، پھر چھوڑ کیوں دیا اور اگر اب کسی شو کی آفر ہوگی، تو قبول کرلیں گے؟

ج: جی بالکل، مجھے اس چینل سے دو شوز کی آفر ملی، جن میں سے ایک شو مَیں نے خود کیا اور دوسرا علی معین سے لکھوایا۔ دونوں ہی خاصے مقبول ہوئے،لیکن میرے لیے ٹائم دینا مشکل ہو گیا تھا، اس لیے چھوڑ دیا اور آئندہ بھی اسی وجہ سےکسی شو کی میزبانی قبول کرنا ممکن نہیں۔

س:کتنی کتابیں لکھ چُکے ہیں اور کتنی فلمیں ریلیز کے لیے تیارہیں؟

ج:’’مَیں اب تک 7کتابیں لکھ چُکا ہوں، جن میں’’ خمیازہ ساحل کا‘‘، ’’ خیالِ یار باقی رہے‘‘،’’ ہجر کی تمہید‘‘،’’ علی کی عین‘‘،’’حاصل پور‘‘،’’ چلاں کلاں‘‘ اور’’ ککڑی‘‘ (جاوید اقبال کی کہانی، جو تین حصّوں پر مشتمل ہے)شامل ہیں۔رہی بات فلموں کی تو اس وقت شینو گئی(پشتو لفظ ،جس کا مطلب سبزآنکھوں والی لڑکی ہے)، ونس اپان اےٹائم ان کراچی اور لاک ڈاؤن ریلیز کے لیے تیار ہیں۔

س:یکے بعد دیگرے ناولز شایع ہورہے ہیں، تو لکھنے کے لیے باقاعدہ پلان بناتے ہیں یا پھر جب موڈ ہوتا ہے، تب لکھتے ہیں؟

ج:میرے ساتھ ماضی میں جو معاملات ہوئے، اُن کی وجہ سےمجھے نیند نہیں آتی۔مَیں بمشکل تین سےچار گھنٹے ہی سوپاتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میرازیادہ وقت لکھنے لکھانے میں گزر جاتا ہے۔

س:چند دِن قبل اپنے بارے میں ایک پوسٹ شیئر کی کہ ’’مَیں باقاعدہ طور پر کسی فلم اسکول سے تعلیم یافتہ نہیں اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے فلم سازی، اسکرپٹ رائٹنگ وغیرہ کے کئی چینلز سبسکرائب کر رکھے ہیں‘‘، تو کیا اس طرح فلم سازی سیکھی جاسکتی ہے؟

ج:اصل مَیں جب بھی کوئی نیا کام شروع کرتا ہوں، تو اس پر ریسرچ کے لیے گوگل اور یوٹیوب کی مدد حاصل کرتا ہوں۔مجھے اس بات کا رتّی برابردُکھ نہیں کہ میرے پاس ڈگری نہیں ،کیوں کہ تجربہ بہت ہے۔ مَیں اپنی ہر فلم یہ سیکھ کر مکمل کرتا ہوں کہ مجھے کیا نہیں آتا۔

س:لاک ڈاؤن کا وقت کیسے گزرا؟

ج:ڈیپریشن میں کہ میری فلمیں ریلیز کے لیے تیار تھیں۔ ویسےلاک ڈائون میں، مَیں نے فلم’’لاک ڈائون ‘‘لکھی بھی تھی۔

س:کیا بڑھاپے سے ڈر لگتا ہے؟

ج:خان صاحب کہتے ہیں، ’’تبدیلی آ نہیں رہی ، آگئی ہے‘‘، تو میرا بڑھاپا آنہیں رہا، آچُکا ہے۔ مَیں ادھیڑ عُمر آدمی ہوں، جسے بڑھاپے سے ڈر نہیں لگتا۔

س:اپنا احتساب کرتے ہیں؟ اگر ہاں، تو خود کو کیسا پایا؟

ج:جب جب احتساب کیا،خود کو گھٹیا ،مطلبی شخص ہی پایا، لیکن مَیں اسے Justify نہیں کرتا۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مجھے سوسائٹی نے جیسا ڈیل کیا، مَیں ویسا ہی بن گیا ہوں۔

س:شوبز انڈسٹری سے وابستہ افراد چاہے اداکار ہوں یا گلوکار یا پھر ڈائریکٹر، پروڈیوسر وغیرہ عموماً فلاحی امور میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں،کیا آپ کا بھی کوئی پلان ہے؟

ج: ہمارے مُلک میں جس طرح بعض سیاست دانوں، فن کاروں اور گلوکاروں نے فلاحی سرگرمیوںکے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنایا ہے، تو یہ دیکھ کرشدیددُکھ ہی ہوتا ہے،لہٰذا اگر اللہ نے اس قابل کیا، تو یہ کام خاموشی سے کروں گا۔

س: کوئی ایسا کام، جسے کرکے احساس ہوا ہو کہ کاش پہلے ہی کرلیتا؟

ج:کاش! مَیں صحافت کے بجائے فلم سازی شروع کرلیتا۔

س: اگر کبھی موٹی ویشنل اسپیکر بننے کا موقع ملے تو لوگوں کو کس حوالے سے موٹی ویٹ کریں گے؟

ج:کبھی نہیں چاہوں گا کہ موٹی ویشنل اسپیکر بنوں۔ البتہ میرے ایک دوست کا کہنا ہے’’ابو علیحہ موٹی ویشنل اسپیکر نہیں ،موٹی ویشن ہے۔‘‘ تو میرا ماننا ہے، باتوں سے نہ بتائیں کہ کام یاب کیسے ہوا جاتا ہے، عملی طور پر کر دکھائیں۔

س: سال 2021ء میں بھی ’’عورت مارچ‘‘ پر خاصے اعتراضات سامنے آئے، اس سے متعلق کیا کہیں گے؟

ج:مَیں حقیقتاً فیمینسٹ ہوں۔ مگر یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں فیمنیسٹ کی اصطلاح بہت غلط طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ جہاں تک عورت مارچ کی بات ہے ،تو اس کے ایجنڈے اور آرگنائزرز سے متعلق میری معلومات صفر ہیں، اس لیے کوئی رائے نہیں دے سکتا۔ ہاں، مَیں خواتین کے حقوق کا بڑا عَلم بردار ہوں ۔

س: زندگی سے کیا سیکھا؟

ج:اب تک تو یہی سیکھا کہ آپ کے ہونے، نہ ہونے سے کسی کوکوئی فرق نہیں پڑتا۔ سو، اپنا وقت گزاریں نہیں، بلکہ جئیں۔

س: جو چاہا، پالیا یا کوئی خواہش آج بھی تشنہ ہے؟

ج:مجھے کسی کے ساتھ کی خواہش تھی، جو پوری نہ ہوسکی، اب طلب سے بے نیاز ہوچُکا ہوں۔

س: اپنے عشق سے متعلق بھی کچھ بتائیں؟

ج:میرا عشق روٹھا نہیں تھا، بلکہ مجھے دھتکار دیا گیا تھا۔ چوں کہ پہل بھی انہوں نے کی تھی ،تو چھوڑ جانے کا حق بھی اُن ہی کا بنتا تھا۔ بس ایک ہلکا سا درد ہے، جو زندگی بَھر ساتھ رہے گا۔

س:تنہائی پسند ہیں یا ہجوم میں گِھرے رہنا اچھا لگتا ہے؟

ج: مَیں کلاسک لونر "Classic Loner" ہوں، اگر غلطی سے چار لوگوں میں بیٹھ جائوں، تو پھر میں ہی نمایاں ہوتا ہوں اور اس محفل میں قہقہوں کا باعث بننے کی کوشش کرتا ہوں۔

س:کس بات پر غصّہ آتا ہے؟ اور ردِعمل کیا ہوتا ہے؟

ج:مجھے غلط بات پر غصّہ آتا ہے اور بہت ہی بُرا ردِّعمل ظاہر کرتا ہوں۔ لیکن اب اس عادت پر قابو پانے کی کوشش کررہا ہوں۔

س: زیادہ تر دِل کی سُنتے ہیں یا پھر دماغ کی؟

ج: دِل کی سُنتا اور کرتا بھی دِل ہی کی ہوں۔

س:ستارہ کون سا ہے، سال گِرہ مناتے ہیں؟

ج:مَیں 31جولائی1979 ءمیں پیدا ہوا تو میرا برج اسد ہے۔ عام سا مڈل کلاس بندہ ہوں، اس لیےسال گِرہ نہیں مناتا۔ البتہ جب قید سے رہائی پائی، تو تین دِن بعد میری سال گِرہ تھی، جو بھائیوں نے منائی تھی۔

س: اپنی نظر میں ایک اچھے لکھاری ہیں یاشاعر ؟

ج:مَیں اپنی نظر میں اچھا لکھاری ہوں، نہ شاعر۔ میرا ماننا ہے کہ تخلیق کار کو خود اپنے بارے میں کبھی کوئی رائے نہیں دینی چاہیے ۔

س: زندگی میں دوست زیادہ بنائے یا دشمن؟

ج: مَیں روزانہ دوست بناتا ہوں، میرا کوئی دشمن نہیں ہے۔

س: کوئی ایسا دوست ،جس نے آگے بڑھ کر غیر متوقع طور پر آپ کی مدد کی ہو؟

ج:دوستوں نے ہمیشہ میری غیر متوقع طور پر مدد کی۔یہی دیکھ لیں کہ مَیں چندسال پہلے اس عزم سے گھر سے 7ہزار روپے لے کر کراچی آیا تھاکہ کچھ بن کردکھائوں گا اور اب6فلمیں بنا چُکا ہے،جب کہ ایک ہاررکامیڈی فلم’’اودھم پٹخ‘‘ کی بھی شوٹنگ تقریباً مکمل ہوچُکی ہے۔

س:کون کون سے ادیب، شاعر اور فلم ساز پسند ہیں؟

ج: شاعروں میں فیض احمد فیض،Charles Bukowski، جون ایلیا اور غالب میرے مرشد ہیں۔ ادیبوں میں میلان کنڈیرا، Haruki Murakami، Orhan Pamuk،مستنصر حسین تارڑ، اختررضا سلیمی اور شمس الرحمٰن فاروقی،جب کہ فلم میکرز میں سرفہرست بنگالی فلم ساز ستیا جیت ہیں۔

س: کسی سیاسی شخصیت سے متاثر ہیں،اگر ہیں تو کیوں؟

ج:کسی بھی سیاسی شخصیت سے متاثر نہیں۔ البتہ سوشل ایکٹویسٹ، مارٹن لوتھر کنگ اور جان لینن سے متاثر ہوں۔ مَیں اگر بچپن میں سرکاری ملازم، جوانی میں صحافی اور بڑھاپے میں فلم میکر نہ ہوتا ،تو ایسا ہی ایکٹویسٹ بنتا،جو صرف باتیں نہیں، عمل کرتا ہے۔

س: موجودہ حکومت کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں؟

ج:بہت بُرے خیالات رکھتا ہوں کہ یہ حکومت احمقوں کا ٹولہ ہے، جو نالائق ہی نہیں ،نکھٹو بھی ہے۔

س: اسلام آباد سے کراچی آنے کا کوئی خاص مقصد تھا یا…؟

ج: کراچی آنے کا مقصد محض اپنا کیریئر بنانا تھا، مگر اب اس شہر نے یوں اپنا گرویدہ کرلیا ہے کہ مَیں اس کا اسیر ہو چُکا ہوں۔

س: اپنے فینز کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

ج:زندگی میں اپنی فیملی، دوستوں، مشاغل کو کام سے زیادہ توجّہ دیں۔