میں نے دیکھا اِک فرشتہ باپ کی پرچھائیں میں...

June 20, 2021

تحریر: نرجس ملک

گرومنگ: دیوا بیوٹی سیلون

عکاسی و اہتمام: عرفان نجمی

لے آئوٹ: نوید رشید

ماڈلنگ کی دنیا میں منفرد شناخت کے حامل، خوش مزاج، خوش گفتار، وجیہہ و شکیل، بہت محنتی، ٹیلنٹڈ اور بےحد مہذّب و مؤدب فن کار، شاہ جہاں رانا نےاگرچہ انڈسٹری میں کم، خاصا سلیکٹڈ کام کیا ہے(ویسےتو یہ دَور ہی ’’سلیکٹڈ‘‘ کا ہے) لیکن ان کی محنت و ریاضت کی عُمر مختصر نہیں۔ ’’فیملی فرنٹ‘‘، ’’شاشلک‘‘ جیسے یادگار مزاحیہ سیریلز تک میں پرفارم کرچُکے ہیں۔ پنجابی زبان کے اَن گنت ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے، تو شاہدہ منی، ابرارالحق کی ویڈیوز میں کام کرنے کے علاوہ متعدّد کمرشلز، کئی کام یاب ریمپ واکس اورصفِ اوّل کےایکٹرز،ڈائریکٹرزکےساتھ پرفارمینس کا تجربہ بھی ان کے کریڈٹ پر ہے۔

دو مرتبہ بیسٹ ریجنل ایکٹر کے ایوارڈ کے لیے نام زدہوئے۔ لاہور آبائی شہر ہے، جس سے بےپناہ اُنسیت و محبّت ہے۔ رفتہ رفتہ پوری شوبز انڈسٹری نے کراچی کا رُخ کرلیا، مگر شاہ جہاں کو اپنے اہل خانہ، خصوصاً مرحوم والد کی آخری آرام گاہ سے کچھ ایسا دلی لگائو ہے کہ اپنی زندگی کے سب سے بڑے جنون (اداکاری) پربھی سمجھوتا کرکے آج کل محض چند ایک منتخب پراجیکٹس ہی میں کام کررہے ہیں، جن میں آئی ایس پی آر کا پراجیکٹ بھی شامل ہے۔

شاہ جہاں خوش شکل، خوش قامت ہی نہیں، بہت ملن سار، خوش اطوار بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر قسمت کے دَھنی بھی۔ بولتے زیادہ ہیں، لیکن بہت اچھابولتے ہیں، مطلب ایک کمپلیٹ پیکیج، مکمل ہیرو میٹریل (ٹی وی انڈسٹری کے خوب رُو اداکار، شکیل کو اِن میں اپنی جوانی نظر آتی ہے) لیکن ان تمام تر اوصاف کے باوجود اگر وہ متعدّد ڈراموں، ٹی وی شوز، ویب سیریز، فلموں وغیرہ میں نظر نہیں آتے، تو اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ اُن کی اوّلین ترجیح اُن کا گھر، اُن کی فیملی ہے۔ اورآج ہماری اس بزم کےاگروہ مہمانِ خصوصی ہیں، تو اپنی اِسی مثالی شناخت کے سبب۔ تو آئیے، ملاقات کرتے ہیں۔

شاہ جہاں رانا تین بہت ہی پیارے پیارے بچّوں کے باپ ہیں اور صرف باپ نہیں، بقول بچّوں کے ’’ایک آئیڈیل باپ‘‘۔ بڑےدونوں بچّے حُسین رانا اور زہرا رانا چھےبرس کےاور ٹوئنز ہیں، جب کہ چھوٹے محمّد عبداللہ رانا ابھی صرف 2 برس کے ہیں۔ اہلیہ، ڈاکٹر معظمہ شاہ جہاں کمپیٹنٹ ڈینٹل سرجن ہیں، چھوٹی سی فیملی، لیکن بہت پیارکرنے، خیال رکھنے والی خوش باش، خوش و خرّم فیملی۔ خاندان کی سربراہ ’’ماں جی‘‘ ہیں۔

شاہ جہاں کے والدکا 2008ء میں انتقال ہوگیاتھالیکن چار بھائیوں میں چھوٹا ہونے کے باوجود والدہ اُن ہی کے ساتھ رہتی ہیں کہ بقول شاہ جہاں ’’میری ماں، میری خوش بختی کا استعارہ ہے۔ میری ہر خوشی، اِک اِک کام یابی اِن ہی کی دُعائوں کے مرہون منّت ہے وہ کیا ہے ناں ؎ بھیڑ میں گُم ہوئے بچّے کی طرح میرادل… دیکھ لُوں ماں کو تو آنکھوں میں چمک آتی ہے۔ اور ؎ مَیں دھوپ میں ہوں تو سایہ کردے، امن میں ٹھنڈی ہوائیں مانگے… سفر پہ نکلوں تو ماں کا آنچل سلامتی کی دُعائیں مانگے‘‘۔

’’بحیثیت باپ تینوں بچّوں سے کیسی بانڈنگ ہے؟‘‘ ہمار ے اس سوال پر شاہ جہاں کا کہناتھا، ’’میرا بس چلےتو میں اِن کے لیے اپنی جان نکال کر ہتھیلی پر رکھ دوں۔ میرے تینوں جگر گوشے، میری آنکھوں کا نُور، دل کا چین و قرار ہیں، خاص طور پر زہرا، وہ تو آدھی رات کو بھی کوئی فرمایش کردے تو مَیں ٹال نہیں سکتا۔ میری ننّھی چڑیا، گھر آنگن میں چہچہاتی، اٹھلاتی پِھرتی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ جیتی جاگتی زندگی کی اِس سے خوش کُن صُورت کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ حُسین اور عبداللہ بھی مجھے بہت پیارے ہیں، لیکن زہرا سے میرا پیار دراصل دو طرفہ ہے۔ وہ میری بےغرض، بےلوث محبّت کا جواب بڑی محبّت سےدیتی ہے۔

مَیں گھر آتا ہوں توبھاگ کےمجھ سے لپٹ جاتی ہے۔ اپنی چھوٹی چھوٹی باتیں شیئر کرتی ہے۔ میرا انتظار کرتی رہتی ہے۔ میرے کام کر کر کے خُوش ہوتی ہے۔ میری کمپنی بہت انجوائے کرتی ہے۔ اُس کے بابا اس کے ’’بیسٹ فرینڈ‘‘ ہیں۔ لڑکے چوں کہ تھوڑے لا اُبالی، شرارتی ہی ہوتے ہیں، زیادہ ایکسپریسو بھی نہیں ہوتے، تو حُسین ایسا ہی ہے اور عبداللہ تو ویسے ہی ابھی بہت چھوٹاہے، لیکن سچ کہوں تو میری اولاد، میری کمزوری ہے۔ جب ہم خود اولادکے مقام پر ہوتے ہیں، تو اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا، لیکن والدین کے درجے پر پہنچتے ہی سارے کس بَل نکل جاتے ہیں، پھر احساس ہوتا ہے کہ ہم آج جس جگہ پہ کھڑے ہیں، ہمیں یہاں تک لانے میں ہمارے والدین نے بھی ایسے ہی جوکھم اُٹھائے ہوں گے، بلکہ ہم تو پھر بہت اچھے دَور، بڑی آسائشوں میں جی رہے ہیں، ہمارے والدین نے ہمیں جن کڑی محنتوں، مشقّتوں سے پروان چڑھایا، اُن کا تو اب تصوّر بھی محال ہے‘‘۔

شاہ جہاں، شوبز کی دنیا میں قدم رکھنے والے اپنے خاندان کے پہلے فردہیں۔ ماڈلنگ کے بعد ایک سیریل میں بھی کام شروع کردیا، مگر والد کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ والدہ شوق کے آڑے نہ آئیں، مگر والد کو پتا لگ جانے کے ڈراوے ضرور دیتی رہیں۔ کل کے اور آج کےباپ میں کتنا بڑا فرق ہے، یہ جاننےکےلیے ہم نے شاہ جہاں سے پوچھا کہ ’’ایک سو فی صد روایتی باپ کا، ایک یک سر غیر روایتی عمل پر کیا ردّ ِعمل تھا؟‘‘، ’’اُف… کیا بتائوں (شاہ جہاں ماضی کے دھندلکوں میں کھو سے گئے) ایک تو ابّا کو علم ہی بڑے عجیب انداز سے ہوا۔ اُن کے ایک دوست نے آکر بس دھماکا کردیا۔ خیر، اُن کے سامنے تو ابّا نے عزت رکھ لی، مگر اُن کے جاتے ہی کہا کہ ’’بیٹا جی! شام کو ذرا آپ نے میرے ساتھ جناح پارک و اک کے لیے چلنا ہے‘‘ آج ہم جس طرح اپنی اولاد کے ساتھ انتہائی دوستانہ رویہ رکھتے ہیں، دو تین دہائی قبل سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ اگرچہ ہمارے والد، دیگر باپوں کی نسبت پھر بھی نرم خُو تھے، مگر اُن کے ایک ہی جملے نے میرا خون خشک کر کے رکھ دیا تھا۔

لیکن خلافِ توقع ابّا نے بڑے مصالحانہ انداز میں بات شروع کی کہ ’’بیٹا! اب اگر آپ نے یہ کام شروع کرہی دیاہے، تو پھر میری کچھ نصیحتیں گرہ سےباندھ لیں‘‘ ؎ عزیز ترمجھے رکھتا تھا وہ رگِ جاں سے… یہ بات سچ ہے، مِرا باپ کم نہ تھا ماں سے۔ اور پھر انہوں نے کچھ ایسی باتیں سمجھائیں، جو مَیں نے نہ صرف گرہ سے باندھ لیں بلکہ آج تک اُن پر عمل پیرا ہو کر فیض ہی فیض پارہا ہوں۔ اب اندازہ ہوتا ہے کہ میرے والد کیسےزیرک، دانش وَر، دُور اندیش انسان تھے۔ وہ ریلوے میں آفیسر تھے، اُن کا بڑا طنطنہ، رعب و دبدبہ تھا۔ مجھے یاد ہے، ہمارے چھوٹے ہوتے جب وہ گھر میں داخل ہوتے تو ہم بھائی بھاگ کے اپنی کتابیں پکڑلیا کرتے تھے اور مَیں تو اکثر اُلٹی کتاب ہی پکڑے ہوتا تھا، لیکن جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے، ابّا کے مزاج میں ٹھہرائو، دھیماپَن آتا گیا۔ انہوں نے خود کو وقت و حالات کے مطابق ڈھال لیا تھا۔

مگر بس ابّا جلدی چلے گئے۔ ابھی مجھے اُن کی بہت ضرورت تھی اور آپ کو پتا ہے کہ مَیں یہ لاہور اس لیے بھی نہیں چھوڑ پاتا کہ مجھے ہر جمعے کو اپنا ابّا سے ملنے جانا ہوتا ہے۔ مَیں آج بھی اُن کی قبر پر بیٹھ کر اُن سے وہ وہ باتیں شیئر کرتا ہوں، جو شاید سامنے بیٹھ کے کبھی نہ کرپاتا۔ مَیں ان کی زندگی میں اِک نامعلوم سی جھجک، اُن کےحددرجہ احترام کے باعث اُنہیں کبھی نہیں بتاپایا کہ مَیں اُن سے کتنا پیار کرتا ہوں، تو اب مَیں اُنہیں بتاتا ہوں۔ یوں بھی میں آج جو کچھ بھی ہوں، ربّ نےمجھے جو بےاندازہ نوازا ہے، تو یہ سب میرے والدین ہی کی محنتوں کا ثمر، دُعائوں کا اعجاز ہے اور اب مَیں اپنی زندگی میں اِک اِک قدم صرف اس لیے بھی پھونک پھونک کے رکھتا ہوں کہ میرا ہر نیک عمل، ہر اچھا کام، میرے باپ کے لیےبھی صدقۂ جاریہ ہے۔‘‘

’’بچّوں کے ساتھ کیا مشاغل رہتے ہیں، انجوائے کیسے کرتے ہیں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں شاہ جہاں کا کہنا تھا، ’’ہم فراغت کا اِک اِک پَل انجوائےکرتے ہیں۔ وِیک اینڈ پر بہن بھائی میرے گھر اکٹھے ہوتے ہیں۔ ویسے بچّوں کومالز، پارکس ایئر فورس کلب وغیرہ لےجاتاہوں۔ کورونا میں کلاسز آن لائن تھیں، تو دونوں بچّےناشتے کے بعد پولو رائیڈنگ، گھڑ سواری کےلیےجارہےتھے۔ ان دِنوں شدید گرمی ہے تو پُول پارٹی وغیرہ بھی کرلیتے ہیں۔ بس، پوری کوشش ہوتی ہےکہ بچّوں کا کوئی شوق، خواہش تشنہ نہ رہے۔ مَیں تو بچّوں کے ساتھ بچّہ ہی بن جاتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحبہ(معظّمہ) ناراض بھی ہوتی ہیں کہ ’’تھوڑا سا تو باپ بن کے بھی رہا کریں‘‘ مگر مجھ سے باپ بنا ہی نہیں جاتا۔

مَیں تو اپنے بچّوں کا ’’یار بابا ‘‘ہوں۔ ہاں، معظمہ کا سخت کنٹرول ہے۔ اُن کے عتاب سے پناہ یا تو دادی کے پیچھے چُھپ کے ملتی ہے یا میرے۔ پھر نانی بھی بچّوں سے بڑا لاڈ کرتی ہیں۔ ایک ان کی ماما ہی ہیں، جو اُنہیں خوب ٹائٹ رکھتی ہیں۔ وہ نہ پڑھائی پر کمپرومائز کرتی ہیں اورنہ باقی معاملات کےڈسپلن پر۔ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ ضروری بھی ہے، ہماری مائیں اگر باپوں کی نسبت ذرا ٹھنڈے مزاج کی تھیں، تو آج کی مائیں، باپوں کے مقابلےمیں سختی برت کے اولاد کی تعلیم و تربیت میں توازن رکھنے کا فریضہ بخوبی سرانجام دے رہی ہیں۔ اور دو جنریشنز کے درمیان یہی ایک بہت بڑا فرق بھی ہے۔‘‘

’’آپ کو کیا لگتا ہے، آپ ایک آئیڈیل باپ ہیں یا آپ کے و الد آئیڈیل باپ تھے؟‘‘ اس سوال پر شاہ جہاں نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا، ’’میرے والد کے سامنے میری کیا بساط، ہم تو اپنے و الدین کا عُشرِعشیر بھی نہیں۔ میرے ابّو بہت عظیم انسان اور ایک مثالی باپ تھے۔ ہم تو بس اُن کے نقشِ پا پر چلنے کی سعی کررہے ہیں اور وہ بھی اس لیے کہ روزِ حشر ان کے سامنے شرمندگی نہ ہو۔ والد تو اب حیات نہیں رہے، لیکن یقین کریں، میرا بس چلے تو مَیں اپنی ماں کو اپنے دل میں چُھپا کے رکھ لوں۔

وہ ایک شعر ہے ؎ چلتی پِھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے…مَیں نے جنّت تو نہیں دیکھی ہے، ماں دیکھی ہے۔ تو مَیں اپنی ماں کو دیکھتا ہوں تو بخدا مجھے جنّت کی حور کا خیال آتا ہے۔ کبھی کبھی جب وہ صرف منہ دھو کے چادر اوڑھ کے ہمارےساتھ کہیں جانےکو تیار ہوتی ہیں، تو اتنی سادگی میں بھی، ایسی پیاری، اِس قدر معصوم لگتی ہیں کہ دنیا کی ساری آرایشیں ایک طرف اور میری ماں کا ملکوتی حُسن ایک طرف۔

اللہ میری ماں کو زندگی، صحت و سلامتی دے۔ مَیں اگر آج اس قدر بلیسڈ، بےغم ہوں، بِن مانگے دنیا جہان کی نعمتیں اللہ نے میرے دامن میں ڈال دی ہیں، تو یہ صرف اِسی سبب ہے کہ میرے ابّا مجھ سے کبھی خفا نہیں رہے، میری ماں مجھ سے دل و جان سے راضی ہیں اور دونوں کی اتنی دُعائیں میرے ساتھ ہیں کہ مجھے خود اپنے لیےکچھ مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ؎ دور رہتی ہیں سدا ان سے بلائیں ساحل … اپنے ماں باپ کی جو روز دُعا لیتے ہیں۔ مَیں تو بس صبح و شام صرف ’’الحمدُللہ‘‘ کا وظیفہ کرتا رہتاہوں۔‘‘

حُسین اور زہرا اپنے ماما، بابا کا کوئی اہم ایونٹ کسی صُورت مِس نہیں کرتے۔ خصوصاً عید تہوار، سال گرہ پر سرپرائز گفٹس لازماً دئیے جاتے ہیں، مگر زہرا اس معاملے میں ہمیشہ بھائی پر سبقت لےجاتی ہیں کہ وہ بہت خُوب صُورت ہینڈ میڈ کارڈز پر اپنے بھرپور دلی جذبات کا اظہار کر کے نانی، دادی، ماما، بابا کو بھی خاصا جذباتی کردیتی ہیں اور اپنے بیسٹ فرینڈ، بابا کو فادرز ڈے پر تو لازماً گفٹ اور کارڈ دیتی ہیں۔ اِس سال بھی اُن کا ایک سرپرائز پارٹی کاارادہ ہے۔ ہم نے دونوں بہن بھائی سے فادرز ڈے کی مناسبت سے بابا کے متعلق اُن کے احساسات جاننا چاہے، تو دونوں کا بیک زبان یہی کہنا تھا کہ ’’ہمارے بابا، ہمارے ہیرو ہیں اور یہ دنیا کے بیسٹ بابا ہیں۔ وی لو یو سو مچ بابا اور ہیپی فادرز ڈے‘‘۔