درہ خنجراب

June 20, 2021

پاکستان کے شمالی حصّے کے تمام ہی علاقہ جات حسن و خوب صورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ سرسبز و شاداب علاقے، باغات، میدانوں، پہاڑوں، جنگلات، سردو گرم چشموں، آب شاروں، جھیلوں، سے لے کر ریگستانوں تک، کیا ہے، جو ان علاقوں میں موجود نہیں۔ اللہ کی اِک اِک نعمت اپنے جوبن پر دکھائی دیتی ہے۔ اور گلگت ،بلتستان کا شمار بھی ان ہی دل کش ودل نشیں علاقوں میںہوتا ہے، جہاں سیّاحت کےبے شمار مواقع موجود ہیں۔ یہاں بلند وبالا برف پوش ،وسیع و عریض پہاڑی سلسلوں کے علاوہ بے شمارسرسبز میدان، گلیشیئرز، آب شاریں، چشموں کی جھیلیں اور ہری بھری وادیاں دعوتِ نظارہ دینے کو موجود ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اندرونِ ملک اوردُنیا بھر سے بھی سیّاح اور کوہ پیما بڑی تعداد میں قدرت کے ان عظیم شاہ کاروں کو دیکھنے کے لیے اس علاقے کا رُخ کرتے ہیں۔ پھرگلگت بلتستان اپنے اندر کئی بلند و بالا پہاڑی درّے بھی سموئے ہوئے ہے، جن کی سطحِ سمندر سے بلندی پندرہ سے اٹھارہ ہزار فٹ تک ہے۔ ان درّوں میں درۂ ہسپر، بابوسر، برزل، چھپروٹ، درگوت، تھوئی اور قرمبر وغیرہ شامل ہیں۔جب کہ ایک درّہ ’’درّۂ خنجراب‘‘ ہے، جو دُنیا کی بلند ترین چوٹیوں کے درمیان واقع ہے۔درّئہ خنجراب، سلسلہ کوہ قراقرم میں ایک بلند پہاڑی درّہ ہے، جس کی بلندی 4693 میٹر یا 15397 فٹ ہے۔ پاکستان اور چین کو آپس میں ملانے والے اس درّے کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔

ایک وقت تھا، جب خنجراب کا یہ مقام دُنیا کی مشکل ترین گزرگاہوں میں شمار ہوتا تھا۔ یہاں انسانی قدموں کی چاپ خال خال ہی سُنائی دیتی تھی کہ کوئی بہت بلند حوصلہ ہی اس درّے تک پہنچ پاتا تھا۔ یہاں تک کہ انتہائی دشوار گزار راہوں پر ہزاروں سال پرانی انسانی کھوپڑیاں اور جانوروں کے پنجر بھی دکھائی دیتے تھے۔ شاہراہِ ریشم، درّئہ خنجراب سے گزرتی ہوئی پاکستان اور چین کو ملاتی ہے۔ اس شاہ راہ پر ہر سال ماہ اپریل کے آغاز سے ماہ نومبر کے اختتام تک آمدورفت جاری رہتی ہے۔

البتّہ عالمی وباکورونا وائرس کی وجہ سے فی الحال شاہراہ ہر قسم کی آمدورفت کے لیے مکمل طور پر بند ہے۔ واضح رہے کہ یہ محض ایک پہاڑی درّہ ہی نہیں، بلکہ پاکستان اور چین کی ناقابلِ شکست دوستی میں پختہ پُل کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ ویسے شاہراہِ ریشم جو اب شاہ راہِ قراقرم کا رُوپ دھارچکی ہے، کسی عجوبے سے کم نہیں کہ یہ شاہ راہ،سلسلۂ کوہِ قراقرم کی سولہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع درّہ خنجراب کا سینہ چیر کر بنائی گئی ہے۔ اس کی بدولت درّۂ خنجراب، جو کبھی ناقابل تسخیر تصور کیا جاتا تھا، اب پاک، چین تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ سیّاحت کا ایک اہم ذریعہ بھی بن چکا ہے۔

یہ علاقہ ماہِ نومبر سے مئی تک مکمل طور پر برف سے ڈھکا رہتا ہے، مگر جون، جولائی کے مہینے میں یہاں کی خوب صورتی اپنے جوبن پر ہوتی ہے۔ ہرسُو ٹھنڈی، خوش گوار ہوائیں چلتی ہیں اور بادلوں میںمنہ چُھپائے سورج، جب بادلوں کی اوٹ سے اپنی کرنیں زمین پر بکھیرتا ہے، تو درّے کا ذرّہ ذرّہ چمک اٹھتا ہے۔ گویا پورا علاقہ آئینے کی طرح روشن ہوجاتا ہے اور موسم مکمل طور پرصاف ہو تو یہاں کی رات کا منظر تو بہت ہی ماورائی سا ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے چاند، ستارے بالکل سرکے اوپر آکے رُک گئے ہیں۔

درّے تک پہنچنے کے لیے اسلام آباد سے خنجراب کا فاصلہ 857کلومیٹر ہے اورگلگت تک زمینی اورفضائی دونوں سفر کیے جاسکتے ہیں۔ تاہم شاہراہِ قراقرم کا پُراسرار مہمّاتی راستہ گلگت سے شروع ہوتا ہے۔ اونچے پہاڑوں کی آغوش میں دریائے گلگت اور دریائے نگر وہنزہ کے سنگم پر گلگت شہر، فطری حُسن کا ایک شاہ کار ہے۔خنجراب کی طرف جاتے ہوئے راستے میں پچاس کلو میٹر کے فاصلے پرگلگت بلتستان کا نہایت خوب صورت علاقہ اور دُنیا کی پُر کشش چوٹی راکاپوشی، دیران اور گولڈن پیک کی سرزمین، ضلع نگر میں واقع ہے۔ اس سے آدھے گھنٹے کے فاصلے پر ہنزہ کی جنّت نظیر وادی کا مرکزی قصبہ کریم آبادہے، جہاں سے وادی نگر کے حسین ترین نظاروں سے لطف اندوز ہونے کا بھر پور موقع ملتا ہے۔

سوست، خنجراب سے پہلے کسٹم چیک پوسٹ ہے،جہاں ہوٹلز، بینک، کسٹم امیگریشن،کلینک اور ٹیلی فون وغیرہ کی سہولت موجود ہے۔ سیّاحوں کے لیے مختلف درجوںکے ہوٹل اور ریستوران دست یاب ہیں۔ ماہِ اپریل سے دسمبر تک سوست سے خنجراب کے راستے چین تک روزانہ کی بنیاد پر کوچ اور کار سروس مہیّا ہے۔ ہنزہ سے خنجراب کے سفر کے درمیان پھسواور بتورا جیسے عظیم گلیٔشیئرز بھی آتے ہیں اور شمشال، مسگر، قلندرچی ، چپرسن اور واخان جیسے درّے بھی۔

سوست سے خنجراب تک کا فاصلہ چھیاسی کلومیٹر ہے۔ نیشنل بینک آف پاکستان نے مسافروں اور سیّاحوں کی سہولت کی خاطر اس درّہ پر اے ٹی ایم مشین بھی نصب کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ یہ مشین سطحِ سمندر سے 16,007فٹ کی بلندی پر نصب کی گئی ہے۔یہاں چین کا تعمیر کردہ بارڈرگیٹ بھی ہے، جو جدید طرزِ تعمیر کا ایک شاہ کار ہے۔ حکومت گلگت بلتستان اورپاکستان سائیکلنگ فیڈریشن کے زیرنگرانی 2018ء سے ہر سال ماہِ مئی، جون میں انٹرنیشنل ٹورڈی خنجراب کا انعقاد کیا جارہا ہے، جس میں پاکستان کے سائیکلسٹ کے ساتھ پوری دُنیا کے سائیکلسٹس حصّہ لیتے ہیں۔ گلگت سے شروع ہونے والی یہ سائیکل ریس مختلف مراحل سے گزر کر خنجراب میں اختتام پذیر ہوتی ہے۔

اس سال یہ انٹرنیشنل سائیکل ریس 18سے21 جون 2020ء تک آغاز ہونا تھی، جس میں 8سے10 بین الاقوامی ٹیموں کی شرکت متوقع تھی، مگر کورونا کی عالمی وبا کے سبب ایونٹ ملتوی کرنا پڑا۔ یاد رہے، یہاں خنجراب نیشنل پارک کے نام سے ایک پارک بھی موجود ہے، جو پاکستان کی تیسرا بڑا نیشنل پارک ہے اور دُنیا کے بلند ترین مقامات پر بنے پارکس میںسے ایک ہے۔ نیز، یہ نایاب جنگلی حیات کا بھی مسکن ہے، خصوصاً خطرے سے دوچار مارکو پولو بھیڑوں کی ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔

درّئہ خنجراب تک کا سفر انسان کو قدم قدم پر قدرت کی صنّاعی کے ایسے ایسے شاہ کاروں سے متعارف کرواتا ہے کہ نگاہیں تمام تر حُسن جذب ہی نہیںکرپاتیں، خیرہ ہونے لگتی ہیں۔ بہرحال، سیر و سیّاحت کے شوقین اُن تمام لوگوں کو جن کا عزم جواں اور ارادے پختہ ہیں، درّئہ خنجراب تک ضرور جانا چاہیے۔