پانی جسمانی ضرورت کے مطابق ہی پیئں

June 20, 2021

ایک صحت مند فرد کے جسم میں 50سے60فی صد پانی پایا جاتا ہے۔قدرتی نظام کے تحت جب جسمانی اعضاء پنے افعال انجام دے رہے ہوتے ہیں، تو جسم سے پانی کا اخراج ہوتا رہتا ہے، لہٰذا جسم میں پانی کی کمی سے بچنے کے لیے اس کا استعمال ازحد ضروری ہے۔لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ زندگی کی بقاء کے لیے غذا یا پانی دونوں کا استعمال ایک متوازن مقدار ہی میں کرنا چاہیے، کیوں کہ کسی بھی شئے کی زیادتی مضرِ صحت ثابت ہوتی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کیسے پتا چلے کہ جسم کو پانی کی کتنی ضرورت ہے، تو 24گھنٹوں میں اتنا پانی پیئں کہ پیشاب کی رنگت سفید رہے۔ تاہم، بعض اوقات کسی مرض میں مبتلا ہونے کے باعث بھی بار بار پیشاب آنے سے اس کی رنگت پانی کی سی ہوجاتی ہے، لیکن یہ بالکل شفّاف نہیں ہوتا۔ اگر کوئی مرض لاحق نہیں اور باربار حاجتِ بول کی ضرورت پیش آئے، تو پانی کی مقدار کم کردی جائے۔

یہاں پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ دِن میں کتنی بار پیشاب آنا چاہیے؟اگر ایک صحت مند فرد 24گھنٹے میں آٹھ گلاس پانی پیتا ہے، تو اسے چھے سے سات بار رفعِ بول کی ضرورت پڑتی ہے۔ بعض اوقات اس دورانیے میں یہ ضرورت دس بار بھی ضرورت پیش آسکتی ہے، لیکن اگر یہ تعداد اس سے بھی بڑھ جائے، تو عین ممکن ہے کہ ایسے افراد کا مثانہ چھوٹا ہو یا پھر وہ مشروبات کی مقدار ضرورت سے زائد یا ممکن ہے کہ ایسی ادویہ استعمال کی جارہی ہوں، جن میں الکحل شامل ہو یا جن کے سائیڈ ایفیکٹس میں زائد پیشاب آنا شامل ہو۔

اگر کوئی فرد مستقل جسمانی ضرورت سے زائد پانی پیتا رہے، تو اس کے خون میں نمک کی مقدار کم ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں ٹانگوں میں محلول جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے، خاص طور پر گھٹنوں سے ذرا اوپر اور نچلا حصّہ پھول جاتا ہے۔ طبّی اصطلاح میں اس کیفیت کو واٹر ویٹ(water weight)کہا جاتا ہے۔ بعض افراد نمکین غذا کے ساتھ خُوب پانی پیتے ہیں، نتیجتاً ان کا پیٹ پھول جاتا ہے۔یہ علامت Bloatingکہلاتی ہے،جو عارضی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس گُردوں میں پانی رُکنا ایک دائمی بیماری ہے۔

قدرتی طور پر ہمارے ہاتھوں، پیروں کی انگلیوں، خون کی نالیوں، مسلز اور ٹشوز میں ایک خاص مقدار میں پانی ذخیرے کی صُورت جمع رہتا ہے۔ اگر کسی بھی وجہ سے پانی کم پیا جائے، تو ان ذخائر سے مطلوبہ عضو تک پانی کی ترسیل ہوجاتی ہے۔ واضح رہے، مذکورہ اعضاء اپنے اندر اُس وقت تک پانی ذخیرہ رکھتے ہیں، جب تک جسم کے ہر حصّے کو پانی فراہم نہ ہوجائے۔ مشاہدے میں ہے کہ بعض افراد پیاس نہ ہونے کے باوجود پانی پیتے رہتے ہیں، جو قطعاً درست نہیں، کیوں کہ جسم کو جتنے پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اُتنا ہی حلق سے نیچے اُترتا ہے، جب ضرورت پوری ہو جاتی ہے، تو دماغ، حلق کو پیغام دیتا ہے کہ اس سے زیادہ نہ پیئں۔

یہ پیغام ملتے ہی ایک خود کار نظام کے تحت مزید پانی نہیں پیا جاتا ۔ ایک تحقیق کے دوران19 افراد کا وزن جانچنے کے بعد انہیں ایک کمرے میں ورزش کروائی گئی، یہاں تک کہ انہیں پیاس محسوس ہو۔ جب ان تمام افراد کا پسینہ خارج ہونے کے بعد وزن جانچا گیا، تو وہ پہلے کی نسبت ایک فی صد کم ہوچُکا تھا۔ پھر انہیں ایم آر آئی اسکینر کے سامنے رکھ کر مزید پانی پینے کے لیے کہا گیا، تو ان کے لیے اضافی پانی نگلنا خاصا مشکل ہوگیا۔

اس تجربے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ضرورے کے مطابق پیاس لگنے ہی پر پانی پینا سب سے بہتر ہے، زبردستی نہیں۔ البتہ اس اصول کا خاص خیال رکھیں کہ پیشاب کی رنگت پانی جیسی رہے۔ (مضمون نگار، ڈائو یونی ورسٹی اور بقائی میڈیکل یونی ورسٹی، کراچی سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ رہ چُکے ہیں)