برص: ڈس آرڈر ہے، چُھوت کا مرض یا تکلیف دہ عارضہ نہیں

June 20, 2021

ڈاکٹر یاسمین شیخ

وِٹلائيگو سپورٹ اینڈ اوئیرنس فاؤنڈیشن(Vitiligo Support and Awareness Foundation) کے زیرِ اہتمام دُنیا بَھر میں ہر سال25 جون کو’’ برص کا عالمی یوم ‘‘ منایا جاتا ہے، جس کا مقصد اس ڈس آرڈرسے متعلق معلومات عام کرنا اورمتاثرہ افراد سے اظہارِ یک جہتی بھی ہے،کیوں کہ ترقّی پذیر ہی نہیں ،بعض ترقّی یافتہ مُمالک میں بھی برص کے شکار افراد سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ یہ یوم پہلی بار 2011ء میں منایا گیا، جس کے بعد سے لے کر تاحال ہر برس ایک تھیم منتخب کرکے ہر سطح تک آگہی فراہم کی جارہی ہے۔ اِمسال کا تھیم"Children,Research And Hope For The Future" ہے۔یعنی’’بچّے، تحقیق اور مستقبل کے لیے اُمید‘‘ ۔

برص ایک جِلدی ڈس آرڈر ہے، جو دَورِ جدید میں بھی خوف کی علامت سمجھا جاتا ہے کہ اگر اس کا صرف نام ہی لیا جائے تو لوگوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اورخدانخواستہ کسی فردکی جِلد پر کوئی عام نوعیت کا معمولی سا سفید داغ، دھبّا ظاہر ہوجائے، تو راتوں کی نیندیں اُڑجاتی ہیں۔حالاں کہ یہ چُھوت کا عارضہ ہرگز نہیں ۔ البتہ یہ کیوں لاحق ہوتا ہے، ماہرین تاحال اس کی حتمی وجوہ معلوم نہیں کرسکے ۔

عام طور پر برص کی ابتدا بچپن یا جوانی میں(اندازاً دس تا تیس سال کی عُمر میں)ہوتی ہے۔ اس ڈس آرڈر میں جِلد کی رنگت بنانے والے خلیات میلانوسائٹس(Melanocytes) متاثر ہوجاتے ہیں۔ ان خلیوں کا کام میلانن (Melanin)نامی مادّے کی افزایش ہے، جو جِلدکی رنگت ایک جیسی رکھتاہے۔اگر کسی بھی وجہ سے میلانن کی صلاحیت متاثر اور تعداد کم ہوجائے، تو یہ مادّہ جِلد میں کہیں کہیں کم ہوجاتا ہے، نتیجتاً جسم کے ان حصّوں کی رنگت سفیدی مائل ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں، میلانن کا ایک اور کام جِلدکو دھوپ کے مضراثرات سےمحفوظ رکھناہے۔

قدرت نے انسان کو دُنیا کے مختلف خطّوں میں پیدا کیا اور اِسی بنیاد پر ان کی جِلد کی بناوٹ تو ایک جیسی دکھائی دیتی ہے، لیکن رنگت مختلف ہوتی ہے۔دراصل بعض مُمالک جیسے افریقا وغیرہ میں سورج کی شعائیں اس قدر تیز ہیں کہ جِلد جل کر رہ جائے، لہٰذا قدرتی طور پر ان خطّوں کے باشندوں میں میلانن کی مقدار زیادہ ہونے کے باعث ان کی رنگت سانولی یا سیاہی مائل ہوتی ہے، تاکہ وہ سورج کی شعاؤں کے مضر اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔

اس کے برعکس برفانی علاقوں میں، جہاں سورج چند دِنوں کے لیے نکلتا ہے اور گرمی بھی کم پڑتی ہے، رہنے والوں کی جِلد کے اندر میلانن نسبتاً کم مقدار میں پایا جاتا ہے،اس لیے ان کی رنگت سفید ہوجاتی ہے۔لیکن اگر یہ علامت نارمل جِلد میں ظاہر ہو، تو پریشانی کی بات ضرور ہے۔ بعض اوقات چند امراض بھی برص بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً آٹو امیون سسٹم کی خرابیاں، ذیابطیس، تھائی رائیڈ گلینڈ، ایڈیسنز ڈیزیز، بال جھڑ وغیرہ۔ پھر بعض کیسز میں نفسیاتی مسائل، پریشانیاں وغیرہ بھی برص کا باعث بن جاتی ہیں۔

برص کی ابتدا عموماً ایک معمولی سے سفید دھبّے سے ہوتی ہے، جو گہری رنگت کے حامل افراد میں زیادہ واضح ہوتا ہے۔ یہ سفیدی مائل دھبّا جسم کے کسی بھی حصّے پر ظاہر ہوسکتا ہے۔ اس میں عُمر، جنس یا نسل کی کوئی قید نہیں۔ زیادہ تر کیسز میں سفید دھبّے چہرے، ہاتھ،پاؤں کی انگلیوں کے جوڑ، منہ، کان، ناک، ہونٹ، پوشیدہ جگہوں، بغل، کہنی، کلائی، ٹخنے، پائوں، سینے، کمر اور پشت پرکہیں بھی نمودار ہوسکتے ہیں۔

برص کے دھبّے دودھیا رنگ کے ہوتے ہیں اور ان کےکنارےکی جِلد زیادہ واضح ہوتی ہے۔ بعض اوقات جسم کے جن حصّوں پر سفید دھبّے ظاہر ہوں، وہاں کے بال بھی سفید ہوجاتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر سَر کے کسی حصّے پر برص ہو، تو وہاں سے سَر کی جِلد تو سفید ہوگی ،ساتھ بال بھی سفید ہوجائیں گے۔جسم پر برص کے دھبّےبڑھنے کی رفتار ہر فرد میں مختلف دیکھی گئی ہے۔

بعض کیسز میں جسم پر معمولی سا دھبّا برسوں ایک ہی حالت میں رہتا ہے۔ یعنی بڑھتا ہے، نہ گھٹتا ہے۔ جب کہ بعض افراد میں یہ دھبّے تیزی سے پورے جسم پر پھیل جاتے ہیں۔ اِسی طرح کبھی جسم کے ایک حصّے کا سفید داغ غائب ہورہا ہوتا ہے، تو دوسری جانب نیا دھبّا ظاہر ہونے لگتا ہے۔ یوں تو ان سفید دھبّوں میں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہوتی، مگر سورج کی تمازت سے جِلد سُرخی مائل ہوجاتی ہے یا چھالے بھی پڑسکتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ سفید دھبّے اس قدر برق رفتاری سے بڑھتے ہیں کہ پورا جسم ہی سفید ہوجاتا ہے۔اس طرح کے کیسز میں دھوپ کی شدّت سے جِلدپر جلن اور آنکھوں میں بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ ویسے جسم پر برص نما داغ دیگر وجوہ کی بنا پر بھی ہوسکتے ہیں۔

مثلاً پُرانا ایگزیما، جسے کھجاتے کھجاتے وہاں کی جِلد سفید ہوجاتی ہے۔ جلنے کے بعد، کیمیکل لگنے سے جِلد کو نقصان پہنچ سکتا ہے، لیکن اس طرح کے سفید نشانات متاثرہ حصّے ہی تک محدود رہتے ہیں اور ایسے سفید دھبّوں کو برص کہنا مناسب نہیں۔ پھر آج کل کون منہدی کی رنگت تیزکرنے کے لیے بھی اس میں مختلف اقسام کے کیمیکلز شامل کیے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے کئی لڑکیوں کو ابتدا میں تو منہدی لگانے والی جگہ پر الرجی محسوس ہوتی ہے، بعد ازاں سفید داغ بن جاتا ہے۔

اِسی طرح وہ خواتین، جو ہر وقت میک اپ کیے رکھتی ہیں، اُن کے چہرے اور ہونٹوں پر بھی سفید داغ محض کیمیکل کی وجہ سے پڑجاتے ہیں۔ پھر وقت کے ساتھ یہ دھبّے اس قدر بدنما دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں چھپانے کے لیے ہر وقت کیموفلاج لگانا پڑتا ہے۔

جہاں تک برص کے علاج کی بات ہے، تو اس ضمن میں برس ہا برس سے کوششیں جاری ہیں اور وقت کے ساتھ جدید سے جدید طریقۂ علاج بھی متعارف ہورہے ہیں، لیکن علاج کا کوئی بھی طریقہ سو فی صد مثبت نتائج کا حامل اس لیے نہیں ہوسکتا کہ کئی افراد میں جب برص کی ابتدا ہو، تو اِکّا دُکّا سفید داغ ادویہ کے استعمال سے بہت جلدی غائب ہوجاتے ہیں اور ان میں سے کئی خوش نصیبوں میں دوبارہ بھی نہیں اُبھرتے، لیکن چند میں عُمر کے کسی بھی حصّے میں دوبارہ ظاہر ہوجاتےہیں۔

واضح رہے کہ علاج کے باوجود(چاہے جو بھی طریقہ ٔ کار تجویز کیا جائے) جوڑوں یعنی ہاتھ یا پیر کی انگلیوں، کلائی، کہنی، ٹخنوں اورگھٹنوں پر ظاہر ہونے والے سفید دھبّے ذرا مشکل ہی سے نارمل رنگت پہ آپاتے ہیں، کیوں کہ جِلد میںجوڑوں کی بنا پر حرکت رہتی ہے۔ علاوہ ازیں، ایک طریقۂ علاج کے تحت موسمِ گرما میں سورج کی شعاؤں کے ذریعے بھی سفید دھبّوں کا رنگ بہتر کیا جاسکتا ہے اور اس ضمن میں کئی طریقے مستعمل ہیں، جن میں خاص ادویہ کے استعمال کے بعد سورج کی شعاؤں سے علاج کیا جاتا ہے۔ یہ خاصا صبر آزما علاج ہے، خصوصاً گرمیوں میں دھوپ برداشت کرنا متاثرہ فرد کے لیے مشکل امر بن جاتا ہے۔

دوسرا طریقۂ علاج Puva Therapy ہے، جو شعاؤں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اگر اس علاج سے متاثرہ فرد کو دو ماہ کے اندر فائدہ ہو تو جاری رکھنا چاہیے۔ تیسرا علاج لائٹ تھراپی کہلاتا ہے، جس میں الٹرا وائلٹ ریز بی استعمال کی جاتی ہے، اس سے برص کی تیزی میں کمی آسکتی ہے اور سفید دھبّے بننا رُک بھی سکتے ہیں۔ اس علاج کا نام Ultraviolet Narrow Band Lamp ہے۔علاوہ ازیں، مارکیٹ میں ایسے کیمیکلز بھی دستیاب ہیں، جنہیں چہرے، ہاتھ یاپائوں پر لگا کر کیموفلاج کرسکتے ہیں،لیکن اس ضمن میں معالج سے رابطہ ازحد ضروری ہے، کیوں کہ ایک مستند معالج ہی بتا سکتا ہے کہ کون سا کیمیکل کس جِلد کے لیے مؤثر ثابت ہوگا۔

سب سے اہم مسئلہ برص سے متاثرہ ایسے لڑکے، لڑکیوں کا ہے، جن کی شادی کا وقت قریب آجاتا ہےاور والدین اس پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ رشتہ کرتے وقت سچائی بیان کی جائے یا چُھپا لیں۔ ویسے حقیقت بتادینا زیادہ مناسب ہے کہ اس طرح بعد کی پریشانیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ تاہم، اب ہمارے معاشرے میںمرض سے متعلق آگہی پھیلنے کے سبب ایسے افراد بھی موجودہیں، جو حقیقت جانتے ہوئے رشتہ قبول کرتے ہیں اور ایسے جوڑوں کی زندگی بہت خوش گوار بھی گزرتی ہے۔

اکثر افراد پوچھتے ہیں کہ اگرمیاں،بیوی میں سے ایک فریق برص سے متاثر ہو، تو کیا اُن کے یہاں جنم لینا والا بچّہ پیدایشی طور پر برص کا شکار ہوگا۔ تو یاد رکھیے، اس ڈس آرڈر کے موروثی ہونے کے امکانات بہت کم( بمشکل 5 فی صد) ہیں،لہٰذا یہ ضروری نہیں کہ والدین میں سے کسی ایک کو برص ہو تو بچّہ بھی برص سے متاثر ہوگا، بلکہ عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ یہ ڈس آرڈر والدین سے بچّوں میں منتقل نہیں ہوتا۔

کوئی فرد نہیں چاہتا کہ اس کے جسم پر سفید برص کےدھبّے ظاہر ہوں ۔ ہر تکلیف اللہ کی طرف سے ہے اور شفا بھی وہی دیتا ہے،لہٰذا دوا کے ساتھ دُعا بھی کریں۔نیز،برص میں مبتلا افراد سے امتیازی سلوک کریں، نہ انہیںترس یا حقارت بَھری نگاہ سے دیکھیں۔ یہ ڈس آرڈر جان لیوا ہے، نہ کسی وَبا کی طرح ایک سے دوسرے تک پھیلتا ہے۔اگر آپ اس مرض کا شکار ہیں، تو ہمّت نہ ہاریں، نارمل انداز سے زندگی گزاریں اور اس بات پراللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کریں کہ آپ بصارت یا گویائی سے محروم نہیں یا کسی معذوری کا شکار نہیں۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ جِلد ہیں اور انکل سریا اسپتال میں خدمات انجام دے رہی ہیں)