ویران ہوتے گھر آنگن، آباد ہوتے اولڈ ایج ہومز

June 20, 2021

(عکّاسی: اسرائیل انصاری)

’’جی ،جی بابا! مَیں ،آپ کی بہو اور پیاری گڑیا ،حور عین بالکل ٹھیک ہیں۔ حور عین تو اس بار اپنی کلاس میں فرسٹ آئی ہے۔ آپ فکر نہ کریں ،ہم سب بہت خوش ہیں اور ہاں امّاں کی برسی پر مَیں نے مدرسے میں پیسے دے دئیے تھے۔‘‘ فرقان نے اولڈ ایج ہوم میں مقیم اپنے والد سے فون پر بات کرتے ہوئے اپنی خیریت سے آگاہ کیا۔ ’’ پر بیٹا! تم نے تو کہا تھا کہ یہاں صرف 15،20 دنوں کے لیے چھوڑے جا رہے ہو ۔ اپنے شہر لَوٹتے ہی، مجھے واپس گھر لے جاؤ گے…‘‘ بوڑھے باپ کی آواز سے بے چینی عیاں تھی۔ ’’ اب آپ کو تو پتا ہے ناں بابا کہ مجھے کام کے سلسلے میں اکثر ہی شہر سے باہر جانا پڑتا ہے، پروین بھی ملازمت کرتی ہے۔

وہ بھی آخر کب تک آپ کا خیال رکھے گی، پھر حور عین بھی بڑی ہو رہی ہے، اُس کے لیے بھی علیحدہ کمرے کی ضرورت ہے اور ہمارا گھر کتنا بڑا ہے، آپ کو اندازہ ہی ہے۔ یہاں آپ کے لیے الگ کمرے کا بھی مسئلہ ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اب آپ وہیں رہیں ۔آپ فکر نہ کریں، یہ بہت اچھا شیلٹر ہوم ہے، مَیں ہر ماہ باقاعدگی سے آپ کو پیسے بھیجوں گا اور ملنے بھی آیا کروں گا۔‘‘ ’’مگر بیٹا…‘‘ اس سے پہلے کہ بے بس باپ مزید کچھ کہتا، لائن کٹ چُکی تھی۔

’’ ایک تو ابّا! آپ کو چاہے جتنا مرضی سمجھالو، آپ نے تو جیسے نہ سمجھنے کی ٹھان رکھی ہے۔ آخر آپ اپنی چیزوں کا دھیان کیوں نہیں رکھتے؟ میرے پاس حرام کا پیسا نہیں ہے، جو کبھی آپ کی عینک، تو کبھی کان کے آلے پر ضایع کرتا رہوں۔ آئے دن تو آپ کا چشمہ ٹوٹتا رہتا ہے اور اب یہ آلہ خراب کردیا۔ مَیں تو قسم سے تنگ آگیا ہوں، اتنا تو مجھے 10 سال کا ذیشان تنگ نہیں کرتا، جتنے آپ کے خرچے ہیں۔ اب کھڑے کیا ہیں، میرے سر پر، کروا دوں گا ریپیئر۔‘‘ ’’ ہاں بیٹا! جاتا ہوں، پر مَیں آلے کی ری پیئرنگ کا کہنے نہیں، تمہاری طبیعت پوچھنے آیا تھا۔ بہو نے بتایا تھا کہ تمہارے سر میں درد ہے، تو سوچا ،پوچھوں کہ کوئی ٹینشن تو نہیں…‘‘ یہ کہتے ہوئے شفیق صاحب بوجھل قدموں سےاپنے بیٹے کے کمرے سے باہر نکل گئے۔

’’قسم سے پاپا نے میری زندگی مشکل کر دی ہے، ہر بات پہ روک ٹوک، یہاں مت جاؤ، وہاں مت جاؤ، جلدی گھر آؤ… کبھی کبھی تو لگتا ہے یہ گھر نہیں، جیل ہے اور پاپا جیلر ، بلکہ ہٹلر۔ ‘‘ سویرا نے کالج ٹرپ پر جانے کی اجازت نہ ملنے پر اپنی سہیلی کے سامنے دل کا غبار نکالا۔ ’’میری پیاری دوست! تم بہت خوش قسمت ہو، جو روک ٹوک کرنے کے لیے سر پر باپ موجود ہے۔ مجھے دیکھو، بچپن سے اپنا ہر کام خود کررہی ہوںکہ امّی کو سلائی ہی سے فرصت نہیں ملتی تو باہر کے سب کام بھی مَیں ہی دیکھتی ہوں۔ تمہیں اپنے پاپا کی روک ٹوک ، پابندیاں تو نظر آتی ہیں، لیکن ان کا لاڈ، دُلاراور تمہاری فرمائشیں پوری کرنا دکھائی نہیں دیتا۔ تم ہی نے بتایا تھا ناں کہ پرسوں تمہارے صرف ایک بار کہنے پر آدھی رات کو پیزا لے کر آئے تھے ۔ اپنے باپ کی قدر کرو، کیوں کہ نعمت کی نا شکری پہ اللہ نعمت چھین بھی سکتا ہے …‘‘

یہ کوئی فر ضی کہانیاں نہیں، ہمارے معاشرے کے چند زندہ،تلخ حقائق کی کچھ جھلکیاں ہیں کہ پوری پوری کہانیاں تو اس قدر دل سوز ہیں کہ سُن کر کلیجہ پھٹ پڑے، دل اُچھل کر حلق میں آجائے۔ وہ باپ، جو اپنی جوانی، اپنا چین و سکون،ہر آرام و آسائش اپنی اولاد، اس کے بہتر مستقبل، اس کی معقول ونا معقول خواہش و فرمایش کی تکمیل پہ قربان کردیتا ہے، خود جب اپنی عُمر کے آخری حصّےکو پہنچتا ہے تو اولاد کو بوجھ لگنے لگتا ہے۔

وہی اولاد، جو کبھی اپنے باپ کے گھر لوٹنے کی منتظر رہتی تھی کہ فرمائشوں کی لمبی لسٹ پکڑا سکے، اب اپنے بوڑھے باپ کا وجود تک برداشت نہیں کر تی۔ جو بچّے ، بچپن میںاپنے دوستوں کو اپنے باپوں کے نام سے ڈراتے ہیں، وہی جوان ہو کر بوڑھے والدین کو اپنے دوستوں کے سامنے آنے سے منع کرنے لگتے ہیں۔

اللہ ہی جانے، یہ حضرتِ انسان کس ڈگر پہ چل نکلا ہے؟ ہمارے یہاں ایک عام تاثر ہےکہ جب کسی کے ظلم و جبر کی بات ہو، اُسے انتہائی ظالم و جابر ثابت کرنا ہو،تو بھیڑیے سے تشبیہہ دی جاتی ہے کہ ’’ فلاں انسان درندگی کی انتہا کو پہنچا ہوا، بھیڑیا صفت ہے‘‘ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایک درندہ، آن کی آن میں انسان کو کھا جانے والا ، گوشت خور بھیڑیا،وہ واحد جانور ہے، جو اپنے والدین کا انتہائی وفادار ہوتا ہے۔ بڑھاپے میں ان کی خدمت کرتا ،اُن کے لیے شکار کرتا ہے، اُن کا پورا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ ، انہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔ بھیڑیا جسے عربی زبان میں ’’ابن البار ‘‘ یعنی نیک بیٹاکہا جاتا ہے،اپنے بوڑھے والدین کا انتہائی فرماں بردار ہوتا ہے، اسی لیے تُرک اپنی اولاد کو شیر کے بجائے بھیڑیے سے تشبیہہ دیتے ہیں۔

ہمیں تو بھیڑیے کی یہ صفات پڑھ کر اپنے انسان ، اشرف المخلوقات ہونے پر شرمندگی محسوس ہورہی ہے کہ ہم اس معاشرے کا حصّہ ہیں، جہاں انسانوں کو بھیڑیے کی چند’’صفات ‘‘اپنانے کی ضرورت ہے، تاکہ انسانیت سیکھ سکیں۔ ذرا سوچیے کہ ایک خوںخوار جانور ہم لوگوں سے بہتر ثابت ہورہا ہےاور ہم اس قدر احسان فراموش ہیں کہ اپنے والد کی خون پسینے کی کمائی خودکھانے، دوستوں پر لُٹانے کے باوجو د انہیں عزّت تک نہیں دیتے۔

’’Civilized nation‘‘ کہلانے والےاپنی اقدار، روایات، خاندان پر اِترانے والے ہم لوگوں سے زیادہ تو بھیڑیے خاندانی اور اپنی روایات کے امین ہیں۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ’’ ایک باپ دس بچّوں کو پال سکتا ہے ، لیکن دس بچّے مل کر ایک باپ کا خیال نہیں رکھ سکتے۔ ‘‘یہ خودغرضی نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک باپ ساری عُمر مُلک سے باہر، اپنوں سے دُور رہ کر اولاد کو آسائشوں کا سامان مہیّا کرتا رہے، ڈالرز، پاؤنڈز، یوروز، ریال بھیجتا رہے تو بیوی اور بچّے خوش رہتے ہیں، خاندان، دوستوں میں باپ کی دولت کی نمایش بھی کرتے ہیں اور گُن بھی گاتے ہیں، لیکن وہی باپ جب ریٹائر ہو کر وطن واپس لَوٹ آئے تو اولاد کو ڈیپریشن، ٹینشن اور پریشانیاں لاحق ہوجاتی ہیں کہ’’ اب کیا ہوگا…؟سارا دن باپ گھر میں رہے گا تو ہم اپنی مَن مانیاں کیسے کر سکیں گے‘‘ تب گھر میں باپ کا وجود بھی برداشت نہیں ہوتا، مگر کوئی پلٹ کر یہ نہیں کہتا کہ ’’ بابا! بہت شکریہ، جو آپ نے ساری زندگی ہمارے لیے محنت، مزدوری کی، ہمیں تعلیم دلوائی، ہمارا خیال رکھا۔

اب آپ سکون سے اپنے گھر میں رہیں، اپنی زندگی انجوائے کریں، ہمیں مال و دولت نہیں، اب صرف آپ کا ساتھ چاہیے۔‘‘شاید اولاد یہ بھول جاتی ہے کہ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے، آج ہم جوبیج بوئیں گے ،کل اُسی کا پھل کاٹیں گے ۔ایک زمانہ تھا ،جب دنیا بھر کے ترقّی یافتہ ممالک ہمارے مشترکہ خاندانی نظام کو رشک آمیز نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے۔

ہمارے خاندانوں ، گھروں میں بزرگوں کو حد درجہ اہمیت دی جاتی تھی ، انہیں نہایت قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ چاہے وہ آن جاب ہوں یا ریٹائرڈ، ان سے مشورہ کیے بغیر گھر میں سبزی تک نہ آتی تھی۔ اس کے بعد ہم ماڈرن ہوگئے، معیارِ زندگی بلند اور اخلاقیات پست ہوتی چلی گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدل کر رہ گیا۔ مشترکہ خاندانی نظام تو کیا ہی بچتا، گھر آنگن بزرگوں کے سائےسے محروم اور ’’اولڈ ایج ہومز ، شیلٹر ہومز ‘‘ آباد ہوگئے۔

پاکستان سمیت دنیا کے بیش تر ممالک میں ہر سال جون کے تیسرے اتوار کو ’’عالمی یومِ والد یا فادرز ڈے‘‘ منایا جاتا ہے، تو اس برس ،اس موقعے پر ہم آپ کی ملاقات 2011ء سے قائم ’’اَن مول زندگی اولڈ ایج ہوم ‘‘کے کچھ ایسے بد نصیب، بد قسمت باپوں سے کروا رہے ہیں، جو صاحبِ اولاد ہونے کے باوجود ’’بے اولاد‘‘ ہی ہیں کہ ان کی اولا د انہیں بوجھ سمجھ کر وہاں چھوڑ گئی ہے، جہاں پہ انہیں اب کم ہی کسی کی خبر آتی ہے۔

جلیل احمد

اولڈ ایج ہوم کے ہر دل عزیز بزرگ، جلیل احمد، عرف ’’ناکو بابا‘‘ گزشتہ چار، پانچ سال سے یہاں مقیم ہیں۔ کراچی کے شہر گولی مار کے رہایشی، ناکو بابا دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے باپ ہیں۔ جنہیں قریباً پانچ برس پہلے ان کا اکلوتا بیٹا یہاں ایڈ مٹ کروا کے گیا تھا اور اس عرصے میں صرف دو، تین بار ہی ان سے ملنے آیا۔ ناکو بابا نے ہمیں بتایا ،’’ عید آئی، بقر عید آئی، مگر میرا جگر گوشہ، میرا بیٹا نہیں آیا، مَیں سارا دن اُس کی راہ تکتا رہا، لیکن وہ نہیں آیا۔

میرا بیٹا پیشے کے اعتبار سے فزیو تھراپسٹ ہے، اس لیے شاید مصروف رہتا ہوگا اور مجھ سے ملنے آنے کا بھی وقت نہ ملتا ہو، مگر مجھے خوشی ہے کہ وہ ٹھیک ہے، مَیں کم از کم اس کے لیے پریشانی کا باعث تو نہیں بن رہا ۔مَیں مرچنٹ نیوی کے ایک شعبے میں ملازمت کرتا تھا، ایک دَم فٹ اور صحت مند تھا۔ مجھے کبھی کبھی شدید غصّہ آجاتا، تو بیٹا ناراض ہوتا۔ بعد ازاں، یہاں داخل کروا کے چلا گیا۔

مجھے اس کی بے حد یاد آتی ہے، دل چاہتا ہے، اسے سینے سے لگا کر کہوں کہ بیٹا!بس ایک بار مجھے گھر لے چلو، مَیں اب کبھی غصّہ نہیں کروں گا ۔ ویسے تو مجھے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں، مگر گھر تو آخر گھر ہوتا ہے ناں۔ جب میرا بیٹا پیدا ہوا تھا، تو مَیں نے پورے محلّے میں مٹھائی بانٹی تھی، بہت خوش تھا کہ میرے بڑھاپے کا سہارا آگیا، مگر مجھے کیا پتا تھا کہ میرا بڑھاپا تواولاد کے بغیر ہی کٹے گا۔ ‘‘ ناکو بابا مشکل سے اپنی بات سمجھا پاتے ہیں کہ انہیں بات کہنے میں تھوڑی دقّت ہوتی ہے، وہ شیزو فرینیا کے مریض ہیں۔ ناکو بابا کے بالکل سامنے چُپ چاپ سے رفیق بھٹی بیٹھے تھے، انہوں نے بتایا کہ ’’ میرے دو بچّے، ایک بیٹی اور بیٹا ہیں۔

رفیق بھٹی

بیوی کے انتقال کے بعد صدمے سے میرا بلڈ پریشر شُوٹ کر گیا اور مجھ پر فالج کا اٹیک ہوگیا، جس سے بائیں سائیڈ مفلوج ہوگئی اور اب مَیں واش روم وغیرہ جانے سے بالکل قاصر ہوں۔ میرے دونوں بچّے غیر شادی شدہ ہیں، مگر ان کے لیے میری دیکھ بھال کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا کہ کون روزانہ ڈائیپر تبدیل کرے، کھانا کھلائے، خیال رکھے، اس لیے وہ مجھے یہاں چھوڑ گئے۔ مگر میرے بچّے بہت اچھے ہیں وہ ہر دو، تین ماہ میں مجھ سے ملنے آتے ہیں، میرا حال احوال پوچھتے، دو گھڑی میرے پاس بیٹھتے ہیں۔اور مجھے اس سے زیادہ کیا چاہیے کہ میرے جگر گوشے خوش و خرم، شاد وآباد رہیں۔ ‘‘

اولڈ ایج ہوم کے ایک اور مکین ،جو ہر کسی سے بے نیاز، اپنی ہی دنیا میں مگن،سر جُھکائے بیٹھے تھے، ہمارے بے حد اصرار پر بات کرنے پر آمادہ تو ہوئے ،لیکن شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ بتایا کہ ’’ میرا تعلق ایک خوش حال فیملی سے ہے، بیوی چھوڑ کر چلی گئی اورمیری ایک ہی بیٹی ہے، جو شادی شدہ، اپنے گھر بارکی ہے۔کراچی کے جوڑیا بازار میں میری دُکانیں ہیں، جن سے اچھا خاصا کرایہ آتا ہے، اپنا گھر بھی ہے، لیکن اس میں بہن، بہنوئی رہتے ہیں، بہنوئی نہیں چاہتا تھا کہ مَیں اُس کے ساتھ رہوں، اس لیے بہن نے مجھے یہاں داخل کروا دیااور وہ کبھی کبھار ملنے بھی آتی ہے۔میرا بھتیجا ، امریکا سے قریباً ہر ماہ چالیس، پچاس ہزار روپے بھیجتا ہے، مگر یہ مال و دولت میرے کس کام کی ، جب گھر کا سکون ، گھر والوں کا پیار ہی مقدّر میں نہ ہو۔ ‘‘

عمران معین

تھوڑا آگے بڑھے ، تو اگلی سیٹ پر عمران معین بیٹھے تھے۔انہوں نے بتایا کہ ’’ مَیں گزشتہ آٹھ سال سے اس شیلٹر ہوم میں پناہ گزین ہوں۔ اب تو یہاں کا اسٹاف، ساتھی ہی مجھے اپنی فیملی لگنے لگے ہیں۔ میری تعلیم بی ایس سی ہےاور مَیں ٹیوشنز پڑھاتا تھا، میری کوئی حقیقی اولاد تو نہیں، مگر بہن بھائیوں کو مَیںنے باپ بن کر ہی پالا تھا۔ ان کی ہر خواہش پوری کی، تعلیم دلوائی، شادیاں کیں ، لیکن اپنا گھر نہیں بنا سکا۔ تو شادی کے بعد وہ بہن بھائی، جو مجھے اولاد کی طرح عزیز تھے، انہیں مَیں بوجھ لگنے لگا۔ ان سے میرا وجود برداشت نہیں ہو رہا تھا، سو مجھے یہاں چھوڑ گئے۔ یہاں کا اسٹاف ہمارا بہت خیال رکھتا ہے، ہمارے اپنے، خونی رشتے جو بندھن نہیں نبھا پائے، وہ رشتہ یہ شیلٹر ہوم والے نبھا رہے ہیں۔ ‘‘

اس موقعے پر شیلٹر ہوم کے سینئر اسٹاف، شہزاد نے بتایا کہ ’’ یہاں جو خاموشی ، سنّاٹا آپ دیکھ رہی ہیں ناں، یہ دَر حقیقت ان بوڑھوں کے دل کی ویرانی کا عکس ہے۔ ہم چاہے کتنی ہی کوشش کرلیں، کتنا ہی خیال رکھ لیں، لیکن ان کے چہروں پر جو چمک ، خوشی اپنے رشتے داروں، اولاد کو دیکھ کر، ان کی آواز سُن کرآتی ہے، وہ کسی اور بات سے آہی نہیں سکتی۔ آپ لوگ تو عیدین ، تیج تہوار آنے پر خوشیاں مناتے ہیں ، لیکن ہم کہتے ہیں کہ اے کاش! کوئی تہوار، خوشی کا موقع آیا ہی نہ کرے کہ ان مواقع پہ ان بے سہارا ، مجبور باپوں کو سنبھالنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ابھی چند ہفتے پہلے ہی عید گزری ہے، مگر ان کے پیارے ملنے نہیں آئے، ہمارا سارا سارا دن انہیں چُپ کرواتے، ان کے آنسو پونچھتے گزر جاتا ہے، نہ جانے کیسی اولاد ہے ،جسے ضعیف والدین بوجھ لگتے ہیں۔

گزشتہ دنوں ہمارے یہاں ایک بزرگ کا، جو گُردوں کے مرض میں مبتلا تھے، انتقال ہوا، تو ہم نے ان کےبیٹے کو فون کرکے بتایا ۔آپ کو پتا ہے، اس نےکیا جواب دیا ’’ مجھے بتانے کی کیا ضرورت ہے، ایدھی سینٹر لے جائیں اور کفن دفن کرکے، خرچے کی رسید بھجوا دیں…‘‘ ایسے حالات میں عذاب نازل نہیں ہوگا ،تو اورکیا ہوگا۔

ہم قبرستان جاتے ، فاتحہ خوانی کرتے ہیں کہ وہاں قبروں کو دیکھ کر عبرت حاصل ہوتی ہے ،مگر مَیں کہتا ہوں کہ آپ لوگ ان اولڈ ایج ہومز بھی آیا کریں۔ اپنی مصروف زندگی میں سے کچھ وقت یہاں بھی گزاراکریں تاکہ آپ لوگوںکو پتا چلے کہ فیملی کے بغیر رہنا کتنا اذیّت ناک، تکلیف دہ ہے اور پھر کبھی کوئی اولاد اپنے ماں باپ کو اس طرح شیلٹر ہومز میں نہ چھوڑ کرجائے۔ ‘‘