بعداز کورونا، عالمی تجارتی منظر نامہ

June 20, 2021

’’ کورونا وبا کے بعد عالمی معاشی سرگرمیوں کی کیا نوعیت ہوگی؟‘‘یہ اہم سوال عالمی اقتصای اداروں اور معیشت دانوں میں زیرِ بحث ہے۔ترقّی یافتہ ممالک میں مہینوں پر محیط لاک ڈائون اور کھربوں ڈالرز کے ریلیف پیکیجز نے ایک ایسا معاشی منظر نامہ پیش کیا، جس نے کسی قسم کی اقتصادی پیش گوئی مشکل کردی، لیکن ایک بات واضح طور پر سامنے آئی کہ کورونا کے بعد کم ازکم ٹیکنالوجی کو تو ضرور برتری حاصل رہے گی۔ایسا ہوتا ہوا نظر بھی آ رہا ہے۔ اِن دنوں جو دو ممالک عالمی تجارت پر چھائے ہوئے ہیں، اُن میں ایک امریکا اور دوسرا چین ہے اور یہ دونوں ہی ٹیکنالوجی کو تجارت کی بنیاد بنا چُکے ہیں۔

دیکھا جائے، تو پوسٹ کورونا دَور کی تجارت اُس رائے سے یک سَر مختلف ہے، جس کی دو دہائی پہلے ماہرین بڑے اعتماد سے پیش گوئی کر رہے تھے۔ آج ٹیکنالوجی پر مبنی کمپنیز عالمی اسٹاک مارکیٹس میں سرِ فہرست ہیں اور اُن کے شیئرز آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔دِل چسپ بات یہ ہے کہ ان فرمز میں سے 76 فی صد کا تعلق امریکا اور چین سے ہے۔اِس خیال کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ یورپ اور دیگر اُبھرتی معیشتیں ان ممالک کی مدّ ِمقابل قوّت بن کر سامنے آئیں گی، لیکن یہ نظریہ اب تقریباً دھندلا چُکا ہے۔ یوں لگتا ہے، کورونا کے سبب اِن ممالک کی’’ معاشی بس‘‘ مِس ہوچُکی ہے۔

امریکا اور چین کی دنیا پر تجارتی برتری کا اندازہ اِس اَمر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی امیر ترین ایک سو کمپنیز کا تعلق ان ہی دونوں ممالک سے ہے۔یورپ، جو ایک زمانے میں اِس دوڑ میں40 فی صد سے زاید حصّے کا مالک تھا، اب پندرہ فی صد پر آگیا ہے۔باقی ممالک، جن کی آبادی دنیا کا 77فی صد ہے، عالمی معاشی سرگرمیوں کے پلڑے میں بہت کم وزن ڈال سکیں گے۔ظاہر ہے، ایسے میں یہ دو بڑی طاقتیں ہی بڑے منصوبوں کے ذریعے باقی ممالک میں سرمایہ کاری کریں گی اور اُنہیں احساس دلائیں گی کہ اُن کا خیال رکھا جارہا ہے۔

نیز، وہ یہ بھی جتلائیں گی کہ دنیا میں اقتصادی توازن برقرار رکھنے اور ناہم واری ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔چین اِس ضمن میں پہل کر چُکا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت ایران میں اربوں ڈالرز کی طویل مدّتی سرمایہ کاری اس کی ایک بڑی مثال ہے۔گو، یہ منصوبے کورونا سے پہلے شروع کیے گئے تھے، مگر کورونا کے بعد بھی انھیں جاری رکھا جائے گا۔

ایک زمانے میں ملٹی نیشنل کمپنیز کی برتری اور دنیا میں اُن کے اقتصادی کردار کا بہت ذکر ہوتا تھا۔ یہاں تک کہا جاتا تھا کہ’’ یہ کمپنیز دیو کی مانند ہیں، جس مُلک میں بھی جاتی ہیں، اپنے پنجے گاڑ لیتی ہیں۔‘‘ تاہم، گلوبلائیزیشن سے ان کے اثرات کم کرنے میں مدد ملی، کیوں کہ یہ معاشی شراکت داری کا نظریہ تھا۔ چین نے کئی بڑی کمپنیز جنم دیں، جن میں علی بابا اور ہواوے وغیرہ عالمی معاشی افق پر آج بھی اثرانداز ہو رہی ہیں۔ان دونوں کمپنیز کی بنیاد معیشت اور ٹیکنالوجی کے ملاپ پر رکھی گئی۔انہوں نے بڑی مغربی کمپنیز کو پیچھے دھکیل دیا۔

ایک اور موازنہ بھی توجّہ طلب ہے۔گزشتہ پچیس برسوں میں جو ایک سو بلین ڈالزز سے زاید سرمائے کی فرمز وجود میں آئیں، اُن میں سے 9 امریکا اور 8 چین میں ہیں۔یورپ میں اس طرح کی ایک بھی کمپنی نہیں، دیگر ممالک کا تو ذکر ہی کیا۔ امریکا، چین ٹریڈ وار کی شہہ سُرخیاں بنتی رہیں۔اقتصادی ماہرین’’ ڈومس ڈے‘‘ کی پیش گوئی کرتے رہے۔کہا گیا کہ اگر یہ دو معاشی دیو آپس میں ٹکرا گئے، تو عالمی جنگوں سے زیادہ تباہی ہوگی، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا، بلکہ کورونا وبا نے ان کی اقتصادی طاقت اور حکمتِ عملی کو نئے زاویے دیے اور یہ دونوں اس امتحان میں کام یاب رہے، جب کہ باقی دنیا منہ دیکھتی رہ گئی۔عالمی وبا نے امریکا اور چین میں نئی توانائی پھونک دی، جس کے بھرپور مظاہرے سامنے آ رہے ہیں۔ ان ممالک سے تعلق رکھنے والی فرمز نئی ٹیکنالوجیز کی بدولت واضح اور فیصلہ کُن برتری حاصل کرچُکی ہیں۔

’’ کورونا کس نوعیت کی انقلابی تبدیلی کا محرّک بنا؟ ‘‘اگر یہ سوال سامنے رکھا جائے، تو عالمی تجارتی منظر نامے کو سمجھنا آسان ہو جائے گا۔کورونا نے لوگوں کو گھروں میں بیٹھنے پر مجبور کیا،آپس میں فاصلے بڑھائے، دفاتر بند ہوئے،’’ورک فرام ہوم‘‘ کا رواج عام ہوا، بلکہ اس کی بھرپور حوصلہ افزائی کی گئی۔یہ سب کسی مفروضے یا سازش کے تحت نہیں ہوا، بلکہ حالات کے جبر سے سب خود بہ خود ہوتا چلا گیا۔

کورونا وبا کے آغاز میں جب حکومتوں، خاص طور پر امریکا اور یورپ نے کھربوں ڈالرز کے ریلیف پیکیجز دے کر لوگوں کو گھروں میں بِٹھایا، تو اُن کا خیال تھا کہ شاید اس وبا پر چند ہفتوں میں قابو پالیا جائے گا، لیکن جب لاک ڈائون مہینوں پر پھیل گیا اور دوسری، تیسری لہروں کی پیش گوئیاں ہونے لگیں،تو بڑی بڑی فرمز کو اِس حقیقت سے آشنا ہونے کا موقع ملا کہ جو کام دفاتر میں ہوسکتا ہے، اسے ٹیکنالوجی کی مدد سے گھر بیٹھ کر بھی سرانجام دیا جاسکتا ہے۔ظاہر ہے، گھر بیٹھے کام کروانے کا مطلب یہ ہوا کہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں، بجلی اور دیگر اخراجات کی بچت ہوئی۔تاہم، ایک مختلف رائے بھی موجود ہے۔

وہ یہ کہ کام کے لیے جو ماحول دفاتر میں بنتا ہے، گھروں میں اس کے فقدان کی وجہ سے شاید آئوٹ پٹ میں کمی واقع ہوجائے۔لیکن جس طریقے سے تجارتی فرمز نے گھروں سے کام کے دَوران منافع کمایا، اس نے بڑی حد تک طے کردیا کہ اب تجارت کا ایک حصّہ گھر سے بھی ممکن ہوگا اور یہ بہت ہی اہم بات ہے۔اس میں ٹیکنالوجی، خاص طور پر آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا بنیادی کردار ہے۔اِسی لیے اعداد وشمار پر نظر ڈالیں،تو یونی ورسٹیز میں اس نوعیت کے کورسز کی مانگ بڑھ گئی ہے۔

چین اور امریکا کی اِس تجارتی برتری سے یہ سوال بھی سامنے آیا کہ’’ کیا وہ تجارتی برتری برقرار رکھ سکیں گے؟ نیز، کیا دنیا کے دوسرے ممالک اُن کے ماڈل کی پیروی کرسکتے ہیں؟‘‘یہ تو بہرحال طے ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان اقتصادی میدان میں پوری قوّت سے مقابلہ جاری ہے۔دونوں ایک دوسرے کے لیے کوئی بھی میدان کُھلا چھوڑنے کو تیار نہیں۔امریکا کو یہ برتری حاصل ہے کہ اُس کی آبادی کم ہے اور وہ ٹیکنالوجی میں آگے ہے۔چین کو اس معیار کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے میں ابھی کم ازکم بیس سال درکار ہیں۔ٹرمپ اور بائیڈن سوچ کے لحاظ سے بہت مختلف ہیں، لیکن اُن کا چین کے معاملے میں مؤقف یک ساں ہے۔

اِسی لیے جوبائیڈن نے واضح کردیا تھا کہ امریکا، چین کے ساتھ اقتصادی معاملات میں صرف اُسی صُورت تعاون کرے گا، جب اُسے یقین ہو کہ اس میں اُس کا فائدہ ہے۔ یہی بات ٹرمپ بھی کہتے رہے کہ چین کی تجارتی پالیسی کی وجہ سے امریکا کو بہت گھاٹا ہوا۔ وہ اکثر پانچ بلین ڈالرز کے اُس تجارتی خسارے کی مثال دیتے، جو امریکا،چین تجارت میں واشنگٹن کو اُٹھانا پڑا۔ گو کہ بائیڈن کے بیانات میں چین کے لیے وہ تلخی نہیں، جو ٹرمپ دَور کا خاصہ تھی، لیکن اُن کی تجارتی پالیسی میں اُس کے لیے نرمی بھی نہیں دیکھی جاتی۔امریکا کا اب بھی اصرار ہے کہ کورونا وبا کے پھیلاؤ کے ضمن میں چین کے شہر، ووہان میں مزید تحقیقات کروائی جائیں۔

چین اور دوسرے ممالک کے معاملے میں جوبائیڈن کے معاشی مینیجرز بھی امریکی مارکیٹ کو اوّلیت دیتے ہیں۔ایک طرح سے یہ ٹیکنالوجی کے اُبھرتے رجحان کے لیے اچھا بھی ہے، کیوں کہ ہوم مارکیٹ جلد نتائج دیتی ہے، جب کہ بیرونی منڈیوں میں بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، پھر اس میں بین الاقوامی سفارت کاری کے معاملات بھی آڑے آتے ہیں۔ چین میں کورونا کے دَوران بڑی فرمز کو اُبھرنے کا موقع ملا، تاہم حکومت کی خواہش ہے کہ وہ اس قدر بڑی نہ ہوجائیں کہ حکومت کو ڈکٹیٹ کرنے لگیں۔ امریکا اور مغربی ممالک میں تو امیزون اور گوگل جیسے ادارے بھرپور ترقّی کر سکتے ہیں کہ اُن کی اوپن اکانومی ہے، پریس آزاد ہے، جمہوریت ہے، لیکن چین میں معروف کمپنی، علی بابا کے سربراہ کو مشکلات کا سامنا ہے۔

وہاں کا نظام ایسا ہے کہ اُس میں ایک حد کے بعد حکومت کی دخل اندازی لازم ہوجاتی ہے۔ جہاں تک دیگر ممالک کا تعلق ہے، تو اُن کے لیے ابھی اِس میدان میں امریکا اور چین کے ساتھ مقابلہ ممکن نہیں۔یورپی یونین یقیناً اِس پوزیشن میں تھی، لیکن عالمی اقتصادی بحران کے بعد سُست روی اور پھر برطانیہ کے الگ ہونے کے سبب اُس کا بہت سا قیمتی وقت ضائع ہوگیا۔ اُس کے پاس بھی امریکا اور چین جیسی دیوہیکل ٹیکنالوجی کمپنیز موجود نہیں۔جاپان ایک اور مقابل ہوسکتا تھا، کیوں کہ اُس کے پاس80 ء کے عشرے تک کی ملٹی نیشنلز کمپنیز کی مثال موجود تھی، لیکن صدی کے آخر تک اس کی اقتصادی قوّت اس پائے کی نہیں رہی کہ وہ امریکا کے مقابل ہوتا اور اس کے بعد چین بھی نئی صدی کے دوسرے عشرے میں اس سے اقتصادی طور پر آگے نکل گیا۔

چین نے اپنی کم اُجرت کی لیبر کو، جو اُسے بڑی آبادی کی وجہ سے میّسر تھی، کام یابی سے تجارتی مال کی تیاری میں استعمال کیا، لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے دوسرے مرحلے کی بھی تیاری کر لی۔اگر چین کے پالیسی ساز اداروں کی گزشتہ سال کی ترجیحات دیکھی جائیں، توایسی ٹیکنالوجی کا حصول سرفہرست ہے، جس سے تجارت اور مال کی تیاری میں معاونت مل سکے۔چین ہر حال میں اپنی معاشی برتری برقرار رکھنے کے لیے پُرعزم ہے۔ اس کے لیے وہ کسی بھی قسم کی سفارتی اور سیاسی لچک دِکھانے سے گریز نہیں کرےگا۔

پوسٹ کورونا دَور میں اس کے پاس انفرااسٹرکچر موجود ہے اور وہ امریکا کے بعد باآسانی دوسرے نمبر پر کھڑا ہے۔چین کو یہ فوقیت بھی حاصل ہے کہ اُس کی اندرونِ مُلک مارکیٹ بہت وسیع ہے۔ایک سو چالیس کروڑ آبادی کے مُلک کے لیے اپنے مُلک میں مال کی کھپت کوئی بڑا چیلنج نہیں۔اسی لیے کورونا کے عروج کے زمانے میں جب آمد ورفت بہت محدود ہوگئی تھی، چین نے اپنی مُلکی کنزیومر مارکیٹ کا سہارا لیا اور اس میں کام یاب رہا۔

اسی لیے اقتصادی ماہرین اتفاق کرتے ہیں کہ بعداز کورونا دَور میں چین کی معاشی بحالی سب سے تیز رفتار ہے۔ ’’ کیا کم ترقّی یافتہ ممالک کے لیے ٹیکنالوجی، تجارت کے اس امریکا، چین ماڈل کی پیروی ممکن ہے اور کیا وہ مستقبل قریب میں ان دونوں ممالک کی تجارتی برتری کے لیے کسی قسم کا چیلنج بن سکتے ہیں؟‘‘

اِس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اگلے دس سال میں تو ایسا ممکن نہیں۔جب یورپ ، بھارت اور جنوب مشرقی ایشیا کی اُبھرتی معیشتیں یہ نہیں کرسکتیں، تو دوسرے ممالک کے لیے ان کا مقابلہ کیسے ممکن ہوگا، جب کہ ان کے پاس ٹیکنالوجی ہے اور نہ ہی بڑی فرمز۔ظاہر ہے، یہ مُلک اپنے خام مال ہی کو تجارت کے لیے بنیاد بناسکیں گے ۔دوسرے الفاظ میں ان کی تجارت روایتی ہی رہے گی، اس لیے یہ کسی بڑی معاشی چھلانگ کے قابل نہیں ہوسکیں گے۔وہ ہماری طرح گروتھ ریٹ کے اعداد وشمار کے ہیر پھیر میں پڑے رہیں گے یا زیادہ سے زیادہ یہ کوشش ہوگی کہ کسی طرح اُن کی برآمدات میں کچھ اضافہ ہوجائے۔