معیشت کی سمت درست؟

June 15, 2021

یہ ایک نہایت خوش آئند بات ہے کہ ملکی معیشت کا پہیہ ایک عرصہ تک گرداب میں پھنسے رہنے کے بعد سرکاری اعداد و شمار اور بجٹ تخمینوں کے مطابق خوش اسلوبی سے چل پڑا ہے اور ترقی کی شرح نمو جو 2فیصد سے بھی کم ہو گئی تھی بڑھ کر 4فیصد کے قریب پہنچ گئی ہے۔ آگے بڑھنے کی رفتار اگر یہی رہی تو توقع کی جارہی ہے کہ 2022-23ءیعنی اگلے مالی سال میں جو عام انتخابات کا سال بھی ہے، یہ شرح مزید بڑھ کر 6فیصد ہوجائے گی۔ بجٹ تجاویز اور مالی اقدامات بھی اپوزیشن کے تحفظات اور خدشات کے برخلاف کافی حد تک بہتری کی نوید دے رہے ہیں حکومت پاکستان کے بیورو آف سٹیٹسٹکس کی رپورٹ بھی یہی ہے کہ ملکی معیشت بحالی کی جانب گامزن اور تجزیہ کاروں کے اندازوں سے کہیں زیادہ لچکدار ہے۔ تاہم اس کی رائے میں ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ملک کی اقتصادی صورتحال خطرے سے باہر نکل چکی ہے۔ رواں مالی سال میں معاشی ترقی کی شرح نمو اگرچہ بڑھی ہے اور پچھلے سال سے بہتر ہے لیکن اسے تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ لارج اسکیل مینو فیکچرنگ کی شرح میں 10فیصد کمی آئی ہے۔ پھر کپاس جیسی اہم اور نقد آور فصل کی پیداوار 22.8فیصد کم ہو گئی ہے۔ سرکاری ادارہ شماریات کے اس بےلاگ، غیرسیاسی اور محتاط تبصرے کے بعد ریسرچ کمپنی ایپسوس کنزیومر کانفیڈنٹس انڈیکس کے تازہ ترین آزادانہ سروے کا جائزہ لیا جائے تو ملکی اقتصادیات کا ایک نسبتاً متوازن نقشہ سامنے آتا ہے جس میں بہتری کے اشارے بھی موجود ہیں اور تشویش اور عدم اطمینان کے وسوسے بھی۔ سروے میں جو 2سے 6جون کے دورانیے میں کیا گیا ایک ہزار سے زائد شہریوں سے سوالات کئے گئے، ان کی رائے لی گئی اور نتائج اخذ کئے گئے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال ابھی تک عوام کی امیدوں پر پوری نہیں اتر سکی۔ 77فیصد پاکستانیوں نے پالیسیوں کی سمت پر ہی عدم اطمینان کا اظہار کیا اور اسے غلط قرار دیا۔ سمت کو درست سمجھنے والے 23فیصد کی شرح میں بھی اگست 2019ءکے مقابلے میں کوئی بہتری نہیں آسکی۔ 47فیصد نے ملکی معیشت کو کمزور کہا۔ 8فیصد نے مضبوط قرار دیا اور 25فیصد نے امید ظاہر کی کہ مستقبل میں بہتری آسکتی ہے۔ 75فیصد لوگوں نے مہنگائی، 70فیصد نے بےروزگاری اور 53فیصد نے غربت کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ 38فیصد نے بجلی کی بڑھتی قیمتوں اور 36فیصد نے ٹیکسوں کے بوجھ پر پریشانی ظاہر کی۔ اگلے 6ہفتوں میں کوئی بہتری آنے کے سوال پر 47فیصد نے نفی میں جواب دیا۔ معاشی صورتحال میں دسمبر 2020ءکے بعد سے مستقل کمی دیکھی جارہی ہے۔ 86فیصد افراد نے 2021ءکے آغاز سے روزگار کے غیرمحفوظ ہونے پر بھی پریشانی کا اظہار کیا اور کہا کہ انہیں یقین نہیں کہ ان کی نوکری رہے گا یا چلی جائے گی۔ حکومت اور اپوزیشن کے ترجمان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے مبالغہ آرائی سے کام لے سکتے ہیں مگر رائے عامہ کے سروے لوگوں کے دلی جذبات و خیالات کے ترجمان ہوتے ہیں۔ اس لئے اس سروے کو اصلاح احوال کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ معروضی صورتحال بھی یہی ہے کہ نچلے اور متوسط طبقے کے لوگ مہنگائی اور بےروزگاری کے ہاتھوں تنگ آئے ہوئے ہیں۔ معاشی اعشاریے لاکھ مثبت اور خوش کن ہوں، غریب آدمی اسی وقت مطمئن ہوگا جب اسے دو وقت کی روٹی آسانی اور اپنی قوتِ خرید کے مطابق مل پائے گی۔ حکومت کو یہ بنیادی نقطہ مدنظر رکھتے ہوئے بہتری کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں اور ملک میں سرمایہ کاری کے لئے اقتصادی، سیاسی اور سماجی ہر طرح کا ماحول سازگار بنانا چاہئے تاکہ معیشت مستحکم ہو۔