G-7 کو سخت جواب، سب ممالک برابر، دنیا کی قسمت کا فیصلہ چھوٹے گروہ نہیں کرسکے، چین

June 15, 2021

کاربس بے/لندن(اے ایف پی، نیوز ڈیسک)چین نے جی سیون ممالک کو سخت جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دن گئے جب ʼچھوٹے ممالک کے گروہ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتے تھے، لندن میں چینی سفارتخانے کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ʼہم سمجھتے ہیں کہ کوئی ملک چھوٹا ہوا یا بڑا، طاقتور یا کمزور، امیر ہوا یا غریب ہر طرح کے ممالک برابر ہیں۔عالمی امور پر تمام ممالک کی مشاورت کے بعد فیصلے ہونے چاہئیے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق چین نے اپنے اس بیان کے ذریعے ان 7امیر ترین ممالک کو نشانہ بنایا جنہوں نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اکٹھے کام کرنے کی کوشش کی ہے۔برطانیہ میں قائم چینی سفارتخانے کاکہنا تھا کہ ماضی میں دنیا کے فیصلے چھوٹے چھوٹے ممالک کا ایک گروہ کرتا تھا لیکن وہ دن اب گزر چکے ہیں۔۔ان کا مزید کہنا تھا کہ چھوٹے ممالک کے وضع کردہ نام نہاد اصول نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے اصولوں پر مبنی بین الاقوامی آرڈر واحد جائز عالمی نظام ہے۔لندن میں چینی سفارتخانے کے ترجمان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب جی سیون سربراہ اجلاس میں امریکا سمیت دیگر عالمی رہنماؤں نے چین کے ون بیلٹ ون روڈ پراجیکٹ کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکی منصوبے ’’ بیلڈ بیک بیٹر ورلڈ‘‘(بی 3ڈبلیو) پر اتفاق کیا ہے۔ جی سیون اجلاس میں چین کیساتھ ساتھ روس کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ،امریکی صدر جوبائیڈن نے جی سیون اجلاس موقع پر امریکی انٹیلی جنس کو حکم دیا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کریں کہ کورونا جانور سے پھیلا یا لیبارٹری میں تیار ہوا۔ جی سیون ممالک کے رہنمائوں نے غریب ممالک کو صرف ایک ارب ویکسین دینے کا اعلان کردیا جبکہ ماضی میں 11ارب ویکسین دینےکا وعدہ کیا گیا تھا۔اجلاس میں ماحولیاتی بحران کے شکار ممالک کیلئے مزید امداد دینےکا بھی وعدہ کیا گیا ہے تاہم نہ اس کی رقم بتائی گئی اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ امداد کون کون سا ملک دے گا ،دو برس بعد جی سیون ممالک کا پہلی بار براہ راست اجلاس ہوا جس میں رہنماشریک ہوئے۔امریکی صدر جوبائیڈن، اور ان کے برطانوی، کینیڈین، فرانسیسی ، جرمن، اطالوی اور جاپانی اتحادیوں نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ہم بڑے سوالات اور بڑے چیلنجز پر قابو پانے کیلئے جمہوریت کی طاقت، آزادی، مساوات، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے اقدار کو استعمال کریں گے۔جی سیون اجلاس میں چین کو انسانی حقوق کے معاملے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ، سنکیانگ اور ہانگ کانگ میں انسانی حقوق پر سوالات اٹھائے گئے ، روس پر تنقید کرتے ہوئے جی سیون رہنمائوں نے روس سے اس کی سرزمین پر کیمیکل ایجنٹس استعمال کرنے کے معاملے پر وضاحت طلب کی ، روس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپوزیشن گروہوں اور میڈیا کیخلاف کریک ڈائون بند کرے اور انٹرنیٹ پر آن لائن سائبر حملوں کوروکنے میں کردار ادا کرے۔ امریکی صدر نے نیٹو اجلاس اور روسی صدر ولادیمر پیوٹن سے ملاقات سے قبل جی سیون اجلاس کے موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اور اس کے اتحادی دوبرہ سے متحرک ہوچکے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ نیٹو کا مشترکہ دفاع امریکا کا مقدس فریضہ ہے، انہوں نے کہا کہ جمہوریتیں اور آمریتیں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں، انہوں نے اصرار کیا کہ واشنگٹن بیجنگ یا ماسکو سے کوئی تنازع نہیں چاہتا۔ اس سے قبل جی سیون اجلاس کی میزبانی کرنے والے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے جوبائیڈن کو تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیتے ہوئے کہا کہ جی سیون جمہوری اقدار کیلئے متحد ہے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے اس موقع پرکہا کہ بائیڈن نے دنیا کو درپیش مسائل کے حل کیلئے ایک نیا ولولہ پیدا کیا ہے۔ عالمی معیشتوں کے اتحاد نے غریب ممالک میں موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز مثلاً کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے سالانہ ایک سو ارب ڈالر کے واجب الادا اخراجات کے وعدے کو پورا کرنے کا عندیہ دیا ہے، جی سیون ممالک کی جانب سے ترقی پذیر ممالک میں انفرا اسٹرکچر منصوبوں کی مالی اعانت کو تیز کرنے اور قابل تجدید اور پائیدار ٹیکنالوجی کی جانب منتقلی کے منصوبے شامل ہیں۔جی سیون ممالک نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کیلئے مزید امداد دینے، نباتیاتی ایندھن میں سرمایہ کاری کے خاتمے کیلئے مزید امداد کا اعلان کیا تاہم ماہرین نے اسے ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں بہت تاخیر کی جاچکی ہے۔