سندھ، ڈاکٹر کی کوتاہی کی بھاری قیمت بچوں کو ادا کرنا پڑی

June 15, 2021

رتو ڈیرو(اے ایف پی /جنگ نیوز) سندھ میں استعمال شدہ سرنجوں کے دوبارہ استعمال کی وجہ سے پھیلنے والے ایچ آئی وی انفیکشنز کی سب سے بھاری قیمت بچوں کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔

سندھ میں بچوں میں ایچ آئی وی کی بیماری نے شہزادو شار کو دوا یا خوراک میں سے ایک منتخب کرنے پر مجبور کر دیا ہے، ان کے پانچ سالہ بیٹے میں 2019میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی، اس سے قبل ایک ڈاکٹر نے سندھ کی طبی تاریخ کے ایک بدترین میڈیکل اسکینڈل کو بے نقاب کیا تھا

اس ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کا سبب بنا ہے،صوبائی وزارت صحت کے مطابق دو برسوں میں مجموعی طور پر 1500سے زائد افراد میں ایچ آئی وی تشخیص کیا گیا، رتوڈیرو میں اسی تناظر میں آیچ آئی وی کی جانچ اور علاج کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا مرکز قائم کیا گیا

اس مرکز سے ایچ آئی وی کے مریضوں کو زندگی بچانے والی ادویات مفت مل رہی ہیں، تاہم متاثرہ خاندانوں کو اضافی اخراجات خود اٹھانا پڑتے ہیں۔شہزادو شار اپنے بیٹے کومسلسل بخار، پیٹ اور گردوں میں درد کا بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں کہا جاتا ہے اضافی ٹیسٹ کے لیے پرائیویٹ اسپتالوں میں جاؤ مگر ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔‘‘

رتو ڈیرو سے فقط چند کلومیٹر کے فاصلے پر سبہانی شار گاؤں میں قریب 30 بچے ایچ آئی وی کا شکار ہیں، پبلک اسپتال، جو زیادہ تر بڑے شہروں میں قائم ہیں

عموماً غیرمعمولی رش کا شکار رہتے ہیں، جس کی وجہ سے دیہات سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کو نجی اسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے جب کہ ان دیہاتیوں میں سے زیادہ تر اسپتالوں کی بھاری فیس ادا نہیں کر سکتے، ایسے میں بہت سے لوگ غیر سند یافتہ ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

آغا خان یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر فاطمہ میر، جو اس حوالے سے اعدادوشمار پر تحقیق میں مصروف ہیں، بتاتی ہیں کہ ایچ آئی وی کی تشخیص سے اب تک کم از کم پچاس بچے فوت ہو چکے ہیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقے میں کم اور عدم خوراکی بھی بچوں میں اموات کا سبب ہے

حکام کا کہنا ہے کہ اس وبا کے پھیلاؤ کی وجہ رتو ڈیرو کا ایک مشہور چائلڈ اسپیشلسٹ مظفر گھانگرو تھا، اس ڈاکٹر کو گرفتار کیا گیا تھا، مگر ان دنوں یہ ضمانت پر رہا ہے اور وہ ان الزامات کو رد کرتاہے۔