ہمیں ایک قوم بننا ہوگا

June 16, 2021

تحریر:وقار ملک ۔۔۔کوونٹری
پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنے دور حکومت میں ہمیشہ ترقیاتی کاموں کی طرف توجہ دی ،اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لیے ایسے اقدامات کیے، جس کا آج بھی طوطی بولتا ہے، پنجاب میں اوورسیز کے کمشنر افضال بھٹی کی خدمات پر مثالیں دی جاتی ہیں، جنھوں نے ڈنکے کی چوٹ پر اوورسیز کا ساتھ نبھایا اور مسائل حل کیے، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا اور نہ ہی آج تک میاں شہباز شریف کے خلاف کیسسز ثابت ہوئے، بالکل اسی طرح ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف پر سیاسی بنیادوں پر کیسز بنائے گئے، جن کا کوئی سر اور پیر نہیں، کیس بنانے والے یہ نہیں جانتے کہ ایسی حرکتوں اور غیر قانونی حربوں سے گراف اونچا ہوتا ہے، گراف گرتا نہیں، رانا ثناءاللہ پر جعلی ہیروئن کیس نے رانا ثناءاللہ کو ہیرو بنا دیا، ملکی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ جمہوریت اور ووٹ کو اہمیت دی جائے، حکومتوں کو پورا وقت دیا جائے تاکہ وہ اپنا آپ دکھا سکیں اور عوام کے مسائل حل کر سکیں، کیونکہ کسی بھی ملک کی ترقی میں جمہوریت کا کردار بہت اہم ہوتاہے۔ پاکستان میں آزادی سے لیکر آج تک جمہوریت مسلسل بحرانوں کا شکار رہی ہے۔ جمہوریت کی مضبوطی میں اور بہت سے عناصر کے علاوہ سیاسی جماعتوں کاکردار بھی بہت اہم ہوتاہے، چونکہ جمہوری عمل تواتر کے ساتھ تعطل کا شکار رہا ہے اور جو تھوڑی بہت جمہوریت چلی ہے اسے بھی صحیح معنوں میں جمہوریت نہیں کہاجاسکتا، اس سارے عمل کی وجہ سے سیاسی جماعتیں بھی بہت حد تک متاثر ہوئی ہیں، سیاسی جماعتوں میں حقیقی جمہوری کلچر پروان نہیں چڑھ سکا۔ ہمارے ہاں سیاست زیادہ تر شخصیات کے گرد ہی گھومتی رہی ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا رہاہے کہ جب بڑا سیاسی لیڈر جس کے گرد اسکی ساری جماعت ہوتی ہے وہ پردہ سکرین سے اوجھل ہوتاہے تو پوری جماعت ہی زمین بوس ہوجاتی ہے۔ سیاسی سکرین اپنی جماعتوں کے اندر جمہوری کلچر کو پروان چڑھاتے اور تنظیم سازی پر توجہ نہیں دیتے، ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں حزب اختلاف میں ہوتی ہیں توکارکنوں کی مرہون منت ہوتی ہیں، انکے پیچھے پھرتی ہیں مگر اقتدار میں آنے کے بعد ان کو کوئی پوچھتا بھی نہیں ، ذوالفقار علی بھٹو ایک ہردلعزیز عوامی لیڈر تھے، جنہوں نے پاکستان کی سیاست کو ایک نیا رخ دیا مگر ان کے جانے کے بعد پیپلزپارٹی کافی بحرانوں کا شکار رہی جب تک کہ بے نظیر بھٹو نے دوبارہ اسے عوامی مقبولیت کی بلندیوں پر نہیں پہنچا دیا مگر انکی المناک موت کے بعد پیپلزپارٹی جوکہ ملک کی سب سے بڑی وفاقی سیاسی جماعت تھی، اب صرف ایک صوبے تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف جس نے تبدیلی اور جمہوریت کے علمبردار ہونے کا پرچم اٹھایا تھا وہ بھی آج حکومت میں ہونے کے باوجود تنظیمی طور پر سکڑتی نظر آتی ہے، اس کا وجود بھی عمران خان کی ذات تک ہی محدود ہے، عوام کو ریلیف دینے میں بری طرح ناکام ہے اوورسیز پریشان حال ہیں، کوئی پرسان حال نہیں، کسی کا کوئی مسئلہ حل کرنے کو تیار نہیں، عوام مہنگائی سے دل برداشتہ اور ن لیگ کی حکومت کو یاد کرنے لگے ہیں، گلی محلوں میں عمران حکومت کے خلاف باتیں کانوں کو سنائی دینے لگیں، حتیٰ کہ اوورسیز بھی مایوسی کا شکار ہیں، جماعتوں کے اندر بھی وراثت اور آمرانہ سوچ جاری ہے، جس کا فائدہ بہرحال غیرجمہوری قوتوں کو ہی ملتاہے، جس کی وجہ سے انکا نشانہ بھی پارٹی کا لیڈر ہی ہوتاہے، اسے کسی طرح سے ہٹا دو تو پوری کی پوری سیاسی جماعت ہی زمین بوس ہوجاتی ہے، جب تک سیاسی قیادت اپنی جماعتوں کے اندر جمہوری سوچ اور کلچر کو فروغ نہیں دیںگی اور تنظیم سازی پر توجہ نہیں دی جائے گی، جس سے کارکنوں کو عزت اور اہمیت مل سکے یہ جماعتیں کبھی بھی مضبوط نہیں ہونگی اور اسی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہیں گی، اسکے علاوہ مقبول سیاسی قیادت ہروقت غیرجمہوری قوتوں کے نشانے پر رہے گی، آج بھی بدقسمتی سے یہی سوچ اور رجحان فروغ پارہاہے جس کا سب سے زیادہ نقصان ان سیاسی جماعتوں کوہورہاہے اور جمہوریت اپنی جڑیں آج تک مضبوط نہیں کرپارہی، سندھ میں جو ٹرین مارچ ہوا وہ بھی لیڈر کی کمزور حکمت عملی اور اپنے کارکنوں کی بے توجہی کا شکار ہونے کی وجہ سے ناکام رہا لیکن مسلم لیگ ن اس وقت لیڈر کے ساتھ کھڑی ہے اور دن بدن اس کے متوالوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ جہاں حکومت کی ناکام پالیسیاں ہیں، وہیں ن لیگ پر بنائے گئے جعلی کیسز ہیں، یہی وجہ ہے کہ ن لیگ کے گراف میں اضافہ دیکھنے کو ملا، عزت ہمیشہ جہاں انسان کے درجے بڑھاتی ہے وہیں پر جذباتی وابستگی کو بھی مضبوط کرتی ہے۔ اگر ہم ایک معاشرے کو ہی لے لیں جس معاشرے میں عزت اور احترام ، محبت و بھائی چارہ پنپ رہا ہوگا وہاں پر وسائل کم ہونے کے باوجود بھی مسائل کم ہونگے، اس لیے ہر پارٹی کے لیڈر کو ایسی حکمت عملی اپنانی چاہیے کہ جس سے اس کے ورکر جڑے رہیں اور اپنی سچائی کے ساتھ اس کیلئے کام کریں۔ورکرز کو وقت دیں انہیں سینے سے لگائیں، انہیں عزت دیں ان سے ملیں، ان کے سروں پر ہاتھ رکھیں۔جمہوری حکومت کا ایجنڈا یہی ہونا چاہیے کہ پچھلی حکومت کی جو اچھی پالیسیاں ہوں انہیں نئے احکامات کی روشنی میں جاری رکھنے پر ہم زیادہ مثبت نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔جمہوریت کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہم تعصبانہ رویے سے خود کو محفوظ رکھ کر عوام کی ترقی کیلئے بہتر کام کرسکیں، جس طرح مسلم لیگ ن نے بے نظیر بھٹو کی اِنکم سپورٹ کو جاری رکھا اور اسے کامیابی کی طرف گامزن کیا، عوام کا اعتماد بڑھا اور پالیسی مضبوط اور کامیاب ہوئی لیکن اب اس پالیسی کو تبدیل کر کے نیا نام اور انتظامیہ بٹھا دی گئی جو نئے سرے سے کام کا آغاز کرے گی، جس سے مشکلات بڑھیں گی، حکومت اوورسیز کے حق میں بڑے بڑے دعوے کرتی ہے لیکن اوورسیز کے لیےسابقہ حکومت میں بنایا گیا ادارہ پنجاب اوورسیز کمیشن عملاً ختم کر دیا گیا جبکہ او پی ایف بھی ساکت ہے، کسی قسم کی آواز سنائی نہیں دے رہی، اس طرح عوام کو ریلیف نہیں مل سکے گا اور نہ ہی مایوسی کے شکار عوام خوشحال ہوں گے، ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو ترقی کی طرف گامزن کرنے کے لیے مثبت رویوں کااظہار کیا جائے، سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مقدمات ختم کیے جائیں ہر پاکستانی کو یہ حق دیا جانا چاہیے کہ وہ پاکستان کی ترقی میں کردار ادا کرے، کسی کو ملک بدر نہ کیا جائے، حق اور انصاف پر مبنی پالیسیاں بنائی جائیں، نیب کے ذریعے سیاسی مقدمات وہ بھی صرف اور صرف مخالفین پر بنائے جاتے ہیں ایسا کرنے سے گریز کیا جائے تاکہ ملک پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنایا جا سکے اور قوم ایک محب وطن قوم بن سکے، نوجوان نسل کو ایک قومُ بنانے کے لیے قربانیاں دینا ہوں گی، انھیں پاکستان کے ساتھ قربت کے لیے سکھانا ہو گا تاکہ ہم ایک قوم بن سکیں، یاد رکھیں ایک قوم بننا اور بنانا انتہائی مشکل کام ہے، جس کے لیے اپنا دل بڑا اور ذہن کھولنا ہو گا، اپنوں کو اپنے ساتھ لگانا ہو گا دل سے کدورتیں ختم کرنا ہوں گی، پیار محبت کے پھول نچھاور کرنا ہوں گے تاکہ ایک قوم بن کر ترقی اور خوشحالی کی طرف گامزن ہو سکیں، ‏نوازشریف کو پنامہ کیس شروع کرکے اس ملک کی اعلیٰ عدالت نے اقامہ پہ سزا دے دی اورچند ہفتوں میں تاحیات نااہل کردیا؟ ‏لیکن عمران خان کافارن فنڈنگ کیس جو میگا کرپشن منی لانڈرنگ اور غیر ملکیوں سے فنڈ لینے کے بارے میں ہے اسکا فیصلہ 7 سال سے delay کیا جارہا ہے؟ ایسے قوم بننا مشکل اور دشوار ہو گا، انصاف کا بول بالا ہو گا، جسٹس غیر جانبدار ہو گی تو ہم ایک قوم بن کر ملک کی ترقی کے لیے کام کریں گے وگرنہ قومی اسمبلی مچھلی بازار ہی بنے گی، جہاں گالی گلوچ ہاتھا پائی کے ذریعے قوم میں بگاڑ پیدا کیا جا رہا ہے، حالیہ واقعہ سے اور ایم این اے علی نواز اعوان کے رویے نے تو حد کر دی اس سے قبل فردوس عاشق اعوان کا تھپڑ ابھی گردش میں تھا کہ پی ٹی آئی کے ممبر نےقومی اسمبلی میں ایک اور دھماکہ کر دیا جس سے سر شرم سے جھک گئے۔