اسرائیلی حکومت۔توازن ایک مسلمان کے پاس

June 17, 2021

اسرائیل میں حکومت تبدیل ہوگئی مگر مظلوم فلسطینیوں کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آسکے گی بلکہ ان کے لئے خطرات پہلے سے بھی زیادہ ہوگئے ہیں کیونکہ 71سالہ نیتن یاہو کی جگہ آنے والے 49سالہ تفتالی بینٹ یاہو سے کہیں زیادہ شدت پسند، بنیاد پرست یہودی ہیں۔ وہ 1967کی مشرق وسطیٰ کی جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کے قبضے میں آنے والے ویسٹ بینک، مشرقی یروشلم، شام کی گولان ہائٹس پر یہودیوں کا حق ہی فائز سمجھتے ہیں۔ جبکہ فلسطینیوں کا اوّلیں مطالبہ یہی ہے کہ اسرائیل یہ مقبوضہ علاقے خالی کرے۔

نیتن یاہو کے 12سالہ اقتدار کا خاتمہ 8پارٹیوں کے اتحاد سے ممکن ہوا۔ یش اتید(17)، بلیو اینڈ وائٹ(8) ،لسیرائیل بیٹنو(7)، یامینا(6)، نیو ہوپ(6)،میرٹز(6) ،رام(4)۔ نظریاتی اور سیاسی طور پر ان جماعتوں میں سوائے یاہو کی مخالفت کے کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں پہلی بار مسلمان سیاسی جماعت رام بھی شامل ہوئی ہے۔ اب جب ان کا مشترکہ ہدف یاہو کی برطرفی حاصل ہوچکا ہے تو یہ کتنے عرصے تک متحد رہ سکیں گی؟ صرف سات سیٹیں رکھنے والی پارٹی کے سربراہ بینٹ ستمبر 2023 تک وزیر اعظم رہیں گے۔ پھر وہ یہ منصب جلیلہ یش اتید کے سربراہ 57سالہ یائر لیپڈ کے حوالے کردیں گے۔ اس اتحاد کو یہ حکومت59کے مقابلے میں60یعنی صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے ملی ہے۔

فلسطینی ریاست کے صدر 85سالہ محمود عباس کے ترجمان نے بہت معروضی تبصرہ کیا ہے کہ یہ اسرائیل کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہمیں مستقبل کے بارے میں کسی خود فریبی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ ہم اپنے پرانے مطالبے پر قائم ہیں کہ اسرائیل 1967کی جنگ میں قبضہ کیے ہوئے سارے علاقے خالی کرے۔ یاسر عرفات کے بھتیجے 68سالہ ناصر القدویٰ کا کہنا ہے کہ بینٹ اور یاہو میں شخصی طور پر کوئی فرق نہیں ہے۔ بلکہ بینٹ زیادہ شدت پسند ثابت ہوگا۔ ایک مقبول فلسطینی رہنما 67سالہ مصطفیٰ برغوثی نے کہا ہے کہ اس تبدیلی میں صرف ایک روشن پہلو ہے کہ اب نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے مقدمات کسی مداخلت کے بغیر چل سکیں گے۔ لیکن حکومت میں بینٹ کا مرکزی عہدے پر براجمان ہونا ہم فلسطینیوں کے لئے باعث تشویش ہے۔ یہ حکومت قیام امن کے قابل نہیں ہوگی۔

حماس نے نئی حکومت کو دھمکی دی ہے کہ یروشلم میں اس ہفتے ہونے والا فلیگ مارچ دھماکہ خیز ہوسکتا ہے۔ فائر بندی کو ایک مہینہ بھی ابھی نہیں ہوا۔ اس قسم کے اجتماع سے اشتعال پیدا ہوگا۔ فائر بندی کا معاہدہ ختم ہوسکتا ہے۔ اس فلیگ مارچ کی یروشلم کی مقامی انتظامیہ نے بھی مخالفت کی ہے۔فلسطینیوں میں بینٹ کے وزیر اعظم بننے سے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ مسلم مملکتوں کی طرف سے کوئی ردّ عمل سامنے نہیں آرہا اور نہ ہی فلسطینی حکومت سے کسی اسلامی ملک نے تبدیلی کے بعد صورت حال جاننے کے لئے رابطہ کیا ہے۔اس اتحاد میں رام کے سربراہ 47سالہ منصور عباس کی شرکت ایک تاریخی پیشرفت ہے۔ اسرائیلی میڈیا میں کہا گیا کہ اس نئی مخلوط حکومت کی کامیابی کی کنجی ایک مسلمان سیاستدان کے ہاتھ میں ہوگی۔

منصور عباس انتہائی معروضی انداز میں عرب اسرائیلیوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کررہے ہیں۔ ان پر یہودی اسرائیلی دائیں بازو کے ساتھ اشتراک پر انگلیاں اٹھی ہیں۔ لیکن منصور عباس نے عرب اسرائیلیوں کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے بجٹ میں اضافے کے لئے اس فیصلے کو درست قرار دیا ہے۔ اتحاد سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ عرب اسرائیلیوں کی غیر قانونی تعمیرات کو گرانے کا 2017 کا قانون منسوخ کیا جائے۔ مصطفیٰ برغوثی نے منصور عباس کی دلیل کو کمزور قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسی کوششیں پہلے بھی ہوئی ہیں۔ نسل پرست یہودی ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ اسرائیل کے اندر رہتے ہوئے فلسطینیوں کو اپنے حقوق حاصل نہیں ہوسکتے۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ نئے اسرائیلی وزیر اعظم بینٹ کیا عزائم رکھتے ہیں؟ والدین امریکی نژاد ہیں اور بہت کٹر مذہبی، بینٹ نے بھی اپنے بنیاد پرستانہ عقائد کو کبھی چھپایا نہیں۔ وہ اسرائیلی فوج میں ایک کمانڈو کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ یاہو کے چیف آف اسٹاف بھی رہ چکے ہیں۔ وسیع تر یہودی قوم پرست ریاست کے پرچارک۔ فلسطینی بستیوں میں یہودی آباد کاروں کے سب سے بڑے حامی ۔ انگریزی بڑی روانی سے بولتے ہیں۔ ٹاک شوز میں کھل کر اپنی شدت پسندی ظاہر کرتے ہیں۔ ایک مذاکرے میں ویسٹ بینک میں آباد کاری کے مسئلے پر انہوں نے ایک اسرائیلی عرب کو ڈانٹتے ہوئے کہا:’’ تم لوگ جب درختوں پر لٹک رہے تھے۔ ہماری یہاں یہودی مملکت تھی۔‘‘ وہ اسرائیل کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کے دو ریاستی نظریے کو ہمیشہ مسترد کرتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی اپنی کمپنی کے قیام کے بعد وہ کھرب پتی ہوچکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر باقاعدہ شدت پسند یہودیوں کا روپ دھارکر قیام امن کی کوششوں کا مذاق اڑاچکے ہیں۔

اسرائیل میں نیتن یاہو کے 12سالہ اقتدار کا خاتمہ۔ اسرائیل کے اندرونی معاملات کے لئے یقیناً بہتر ہوگا۔ مگر اس خطّے میں قیام امن کے لئے فلسطینی ریاست کی با اختیاری۔ فلسطینیوں پر ظلم و ستم میں کمی۔ فلسطینی نوجوانوں کے مستقبل کے لئے یہ تبدیلی کسی صورت مناسب نہیں لگ رہی ہے۔ یہ مخلوط حکومت کسی وقت بھی ٹوٹ سکتی ہے۔ نیتن یاہو اپنی الوداعی تقریر میں کہہ چکے ہیں۔ ’ہم واپس آئیں گے‘۔ آٹھ پارٹیوں میں سے کسی ایک کی علیحدگی پر یاہو واپس آسکتے ہیں۔ پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا۔ یہ متضاد نظریات رکھنے والا اتحاد ستمبر 2023 تک قائم بھی رہتا ہے یا نہیں؟ فلسطینی قیادت اگر رام پارٹی کو رام کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے تو تل ابیب کا راج سنگھاسن ڈول سکتا ہے۔ اسرائیل میں جمہوریت کی بنیادیں مضبوط ہیں۔ اسی لئے وہاں ان ہائوس تبدیلی ممکن ہوگئی ہے۔ اسرائیلی بڑا میڈیا یاہو کی رخصتی کا خیر مقدم کررہا ہے۔ کیونکہ ان میں تکبر بہت آگیا تھا۔اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے وہ ہر ہتھکنڈہ استعمال کررہے تھے۔ کرپشن کا دائرہ وسیع ہورہا تھا۔ فلسطینیوں سے معاملات آگے بڑھنے کی بجائے کشیدگی میں اضافہ ہورہا تھا۔ اسرائیلی تجزیہ کار نئی حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ علاقے میں امن قائم کرنے کے اقدامات کو ترجیح دے۔ شدت پسندی سے یاہو کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ نئی حکومت نے اگر اعتدال کا راستہ اختیار نہیں کیا تو علاقے میں محاذ آرائی بڑھ سکتی ہے۔

ہماری نظر یں مسلم قیادتوں پر ہیں کہ وہ اسرائیل میں اس تبدیلی سے کیا فائدہ اٹھا سکتی ہیں ۔ نئی اسرائیلی حکومت پر دبائو ڈال کر اسے شدت پسندی سے روک سکتی ہیں یا نہیں۔