مکمل تیاری درکار ہے

June 17, 2021

جیسے جیسے افغانستان سے امریکی انخلا کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ویسے ویسے اس امر میں دلچسپی بڑھتی جارہی ہے کہ امریکہ کی اس خطے کے حوالے سے تازہ ترین حکمت عملی کیا ہوگی؟ کیونکہ یہ تو طے شدہ حقیقت ہے کہ امریکی افواج کا اپنا بوریا بستر لپیٹنا اس بات کی نشاندہی نہیں کرتا کہ امریکہ اس خطے سے جا بھی رہا ہے یا نہیں۔ اِنہی سطور میں اِس سے قبل بھی عرض کیا تھا کہ امریکی فوجی بُوٹ تو چلے جائیں گے مگر شہری لباس میں امریکی موجودگی بڑھ جائے گی۔ حال ہی میں نیوز ویک نے امریکی انٹیلی جنس کی سرگرمیوں پر ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کی تیاری میں نیوز ویک کو دو سال کا عرصہ لگا۔ اس رپورٹ کی اہمیت اس حوالے سے بہت زیادہ ہے کہ اس میں جن ممالک کا نام بطورِ خاص آیا ہے ان میں وطن عزیز بھی شامل ہے۔ امریکی انٹیلی جنس کے اس پروگرام کا نام سگنیچر ریڈیوس رکھا گیا ہے اور اس میں افراد کے جعلی چہرے اور جعلی ہاتھوں تک کی تیاری کا ذکر ہے اور میدان میں اس اَن دیکھی فورس کے متحرک ہونے کا، جو امریکی انٹیلی جنس کی تاریخ میں سب سے بڑی فورس ہے، ذکر موجود ہے۔ اس بات کو بیان کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ میں امریکی یا دیگر ممالک کی پاکستان میں ماضی کی سرگرمیوں کو غیراہم قرار دے رہا ہوں بلکہ اس گفتگو کی گنجائش اس سبب سے ہے کہ افغانستان میں پلٹا کھاتے حالات میں ہمیں نہ صرف امریکی انٹیلی جنس بلکہ دیگر ممالک کے بھی اسی نوعیت کے اقدامات کا سامنا کرنا ہوگا۔ ماضی میں جب کبھی افغانستان میں حالات تبدیل ہوئے تو اس کا اثر پاکستان پر ضرور پڑا اور بدقسمتی سے منفی ہی پڑا ۔ اس بار بھی اس کا شدید خطرہ موجود ہے کہ خاکم بدہن خون کی ہولی مختلف ناموں سے دوبارہ کھیلی جائے گی جو ابھی بر وقت اقدامات سے روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو اس کی شدت ماضی کی نسبت بہت زیادہ ہو سکتی ہے ۔ اس لئے اگر پہلے حکومت گرانے اور اب بچانے کے کاموں کے علاوہ بھی کسی طرف نظر ہے تو سب سے پہلے اس ممکنہ سنگین صورتحال کے تدارک کا اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ ماضی کا تجربہ شاہد ہے کہ یہ عفریت جب پاکستان میںداخل ہوا تو اس کے بعد شہریوں کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کے جوانوں کی شہادتیں ایک تسلسل اختیار کر گئیں ۔ حالانکہ یہ عفریت ہم ہی کھینچ کھانچ کے اندر لائے تھے ۔ اسی طرح کم از کم سفارتی معاملات کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کرنے سے مکمل طور پر گریز کرنا چاہئے، اب یہ غلغلہ ہے کہ سی آئی اے چیف سے ملاقات سے عمران خان نے انکار کر دیا ۔ ان معاملات کو ذرا سا بھی جاننے والا اچھی طرح سے جانتا ہے کہ جب اس نوعیت کا دورہ کیا جاتا ہے تو اس کی تمام تفصیلات مع جزئیات کے طے شدہ ہوتی ہیں کہ کس سے ملنا ہے، کب ملنا ہے اور کیوں ملنا ہے؟ ایسے نہیں ہوتا ہے کہ کسی نے آکر دروازہ کھٹکھٹا دیا کہ میں سی آئی اے چیف ہوں آپ سے ملنا چاہتا ہوں اور آپ نے دروازہ بند کرتے ہوئے ملاقات سے انکار کر دیا ۔ اسے جن سے ملنا تھا وہ ملا اور اپنے دورے کو دورے کی طے شدہ تفصیلات کے تحت مکمل کر کے چلا گیا۔ خیال رہے کہ اسی دوران آئی ایم ایف نے امریکہ کے ایما پر پاکستان کو ’’سہولیات‘‘دینے کا فیصلہ کیا جس کو پہلے پہل وزیرخزانہ نے تسلیم کر لیا مگر پھر اپنی بات سے یوٹرن لے گئے، اس لیے واضح یہ ہونا چاہئے کہ کہیں یہ سہولیات کسی قسم کی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت یا فضائی اڈوں پر موجودگی کے عوض تو نہیں دی گئیں کہ جس کا علم سوائے چند کرتا دھرتاؤں کے کسی اور کو نہ ہو جیسا کہ مشرف دور میں ہوا تھا جس کی تفصیلات ’’ یہ خاموشی کہاں تک‘‘ میں لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز نے بیان کی ہیں کیونکہ اگر ایسا کچھ کر دیا گیا ہے تو اس کے نتائج مزید سخت ہوں گے ۔ پاکستان ویسے ہی گو نا گوں مسائل میں پھنسا ہوا ہے، افغانستان سے جان نہ چھڑائی تو خطے میں ہم مزید مشکلات کا شکار ہو جائیں گے، خاص طور پر ان حالات میں جب چین کی افغانستان میں فوج بھیجنے کی خبریں گردش کر رہیہیں جبکہ ترکی بھی اسی راہ کی جانب گامزن دکھائی دے رہا ہے حالانکہ افغان طالبان نے ترکی کو انتباہ کردیا ہے کہ وہ نیٹو سے تعلقات کی بنا پر اتحادی افواج کا حصہ تصور ہوتا ہے اور اس کی فوجی موجودگی کو اسی تناظر میں دیکھا جائے گا۔ اگر ان دونوں ممالک نے افغانستان میں فوجی موجودگی کا فیصلہ کیا تو ایسا فیصلہ افغانستان میں امن کے لئے مددگار نہیں ہوگا اور پاکستان کے لیے بھی مختلف مسائل کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر ان حالات میں جب نیٹو کے اجلاس میں بھی ساری گفتگو پاکستان کے حوالے سے کی جارہی ہے، نیٹو کے اقدامات کو پاکستان کے لیے بہتر کرنے کی غرض سے ضروری ہے کہ پاکستان کی یورپی یونین میں مضبوط آواز موجود ہو اور سلامتی کونسل میں مستقل اراکین کی تعداد کو بڑھانے کے نام پر جس طرح پاکستان اور اٹلی نے مشترکہ طور پر حکمت عملی اختیار کی تھی جو پاک اٹلی کافی کلب کہلاتا ہے اور اس کو روک دیا تھا یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو پاکستان کے مزید مفاد میں استعمال ہو سکتا ہے۔ خیال رہے کہ یورپی یونین کے کسی بھی ملک سے زیادہ پاکستانی اٹلی میں بستے ہیں جن کی تعداد دو لاکھ ہے لیکن اٹلی اور پاکستان کی تجارت صرف ڈیڑھ ملین ڈالر ہے جب کہ اس کا ٹریڈ قونصلر بھی دبئی میں بیٹھا ہوا ہے جو پاکستان میں ہونا چاہئے۔ اسی طرح وسطی پنجاب کے لوگوں کی اٹلی میں اکثریت کے سبب وہ لاہور میں اپنا دفتر کھولنا چاہتا ہے جس کو اس حوالے سے سہولیات دینی چاہئیں کیونکہ یورپی یونین میں اٹلی سے صرف چند امور پر اتفاق سے کام نہیں چلے گا مضبوط کاروباری تعلقات یورپی یونین میں اٹلی کو پاکستان کی مضبوط آواز بنائیں گے جو وقت کی ضرورت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)