علما سے چند گزارشات

June 17, 2021

کورونا نے عرصہ دراز سے سماجی روابط بڑی حد تک کاٹ رکھے ہیں مگر اب بہتری کے کچھ آثار پیدا ہوئے ہیں تو 12جون کو فیضان خالد صاحب کی دعوت پر لبرل ہیومن فورم کے فنکشن میں شرکت کی اور 13جون کو ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب کی دعوت اور پیر ضیاالحق نقشبندی صاحب کی بھر پور محنت سے جامعہ نعیمیہ میں منعقدہ ’’شہید پاکستان سیمینار‘‘ میں جناب احسن اقبال کے ہمراہ شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔اس پر نئی نسل کے کچھ دوستوں کو حیرت ہوئی کہ ایک لبرل سیکولر شخص خالص دینی اجتماع میں کیوں جا پہنچا؟ انہوں نے بذریعہ ایس ایم ایس اور فون کالز استفسار کیا کہ یہڈرامائی تبدیلی کیا کوئی نئی کایا پلٹ ہے یا کسی نوع کی مجبوری ؟ان احباب کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ ڈرامائی تبدیلی ہے نہ کایا پلٹ اور نہ کوئی مجبوری ۔

دراصل اس دینی پروگرام میں شرکت کی تین وجوہ تھیں، اول درویش کا نو عمری سے یہ وژن رہا ہے کہ مختلف ادیان کے بیچ موجود تفاوت کو جتنی جلد ممکن ہو ختم ہونا چاہئے ۔جو شخص مسلم اور نان مسلم کے باہمی فاصلوں کو مٹا دینا چاہتا ہو کیسے ممکن ہے کہ وہ مسلمان کے درمیان کھڑی ہو جانے والی دیواروں کو توڑنا نہ چاہے؟ جہاں انسانیت کی بات آئے گی وہاں ہم سب ایک ہونگے۔دوئم نئی نسل کے لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ سیکولر اور صوفی کی دیواریں ہی سانجھی نہیں ہوتیں بلکہ مخصوص پوائنٹ پر آکر دونوں ایک ہو جاتے ہیں بقول اقبال مذہب تجربہ ہے، جب اپنی بلندیوں کو چھوتا ہےتو سیکولر ازم میں ڈھل جاتا ہے بلکہ جامعہ میں جب اس نوع کی بات ہوئی تو ایک فاضل دوست نےہماری تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’’سچا صوفی تو ہوتا ہی سیکولر ہے ‘‘۔سوئم علامہ راغب نعیمی صاحب کے والد محترم ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب کی خودکش حملے میں جس طرح شہادت ہوئی اس کا پس منظر جاننے والا کوئی بھی شخص ڈاکٹر صاحب کی قربانی اور عظمت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔خودکش حملوں کے غیر شرعی ہونے پر فتاویٰ تو کئی لوگوں نے جاری کئے مگر جو استقامت ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے دکھائی اس نے انہیں امر کردیا۔یہاں موقع کی مناسبت سے علمائے اہلسنت و جماعت کے سیمینار میں کی گئی اپنی تقریر کا خلاصہ پیش خدمت ہے ۔

جناب احسن اقبال، جناب راغب نعیمی ، جناب پیر اشرف رسول، جناب پیر ضیاءالحق نقشبندی، جملہ علمائے اہلسنت اور حاضرین کرام ناچیز کیلئے جامعہ نعیمیہ میں حاضری کسی سعادت سے کم نہیں، ذاتی طور پر میرا جامعہ کے ذمہ داران سے تین نسلوں پر محیط تعلق ہے۔یہ 1985ءکی بات ہے جب سید اسعد گیلانی صاحب، نواز شریف صاحب کے بالمقابل الیکشن لڑ رہےتھے درویش کی سید صاحب سے وابستگی اتنی قریبی تھی کہ جیسے فیملی ممبر ہوں پوری انتخابی مہم میں ان کے ہمراہ رہا ایک دن انہوں نے ناچیز کو محترم مفتی محمد حسین نعیمی صاحب کی خدمت عالیہ میں یہ کہتے ہوئے بھیجاکہ آپ ایک دینی شخصیت ہیں اس ناتے آپ کو دینی شخصیت کا ساتھ دینا چاہئے ۔

ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب سے کئی ملاقاتیں ہوئیں، جامعہ کے داخلی دروازے کےساتھ والے کمرے میں ان سے کئی انٹرویوز کئے ان کا ایک انٹرویو میری کتاب ’’جہاد یا دہشت گردی ؟‘‘ میں شامل ہے جس میں انہوں نے جہاد اور دہشت گردی کے فرق کو واضح کرتے ہوئے جہاد کی شرائط پر بحث کی ہے اور یہ استدلال پیش کیا ہے کہ ہمارا دین حالت جنگ میں بھی کسی زیادتی کی اجازت نہیں دیتا ۔بچوں،بوڑھوں یا عورتوں پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں ، فصلیں اور درخت کاٹنا منع ہے۔ انہوں نے صلح نامہ حدیبیہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہی اصل فتح تھی جسے قرآن نے فتح مبین قرار دیا ہے اور اسی جذبے کی ہمیں ضرورت ہے۔سچی بات ہے انہیں جس بے دردی سے شہید کیا گیا اس سے آج بھی میرا دل دکھی ہے۔ آج ہمارا تعلق ان کے وارث ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب سے ہے جو اپنے والد محترم اور اپنے دادا کا مشن لیکر آگے بڑھ رہے ہیں خداوند انہیں ہمت و استقامت نصیب فرمائے ۔میرا یہ ایمان ہے کہ اگر دنیا میں امن و سلامتی کا ماحول پیدا کرنا ہے تو اس کی وہی راہ ہے جو ہمارے عظیم صوفیائے کرام نے اختیار کی۔ ناچیز کا تعلق اگرچہ ایک سنی بریلوی کنبے سے ہے مگر وہ دیوبندی ہوگیا پھر ایک طرح سے وہابی ہو گیا، اس کے بعد مولانا مودودی کے زیر اثر مودودیہ رہا، شیعہ بھائیوں کے ساتھ شیعہ بھی رہا، غامدی صاحب کے ساتھ مولانا امین احسن اصلاحی سے بھی تعلق رہا جو احسن اقبال صاحب کے خالو تھے۔ تمام فرقوں میں رہنے کے بعد تصوف یا صوفی ازم کی طرف لوٹ آیا اور پھر بابا بلھے شاہ سرکارؒ کا مرید ہو گیا آج یہ یقین رکھتا ہے کہ اگر ہم دنیا میں امن و آشتی کے خواستگار ہیں تو پھر ہمیں بالآخر وہی راہ اپنانا ہو گی جو ہمارے عظیم صوفیائے کرام نے اختیار فرمائی۔

اے علمائے اہلسنت مجھے آپ سے ایک گلہ ہے، کچھ عرصہ ہوا آپ کے اندر سے کچھ ایسی سخت آوازیں اٹھ رہی ہیں جو صوفیائے کرام اور اہلسنت و جماعت کا وتیرہ ہرگز نہیں رہا ہے، آقا ؐ کی شان میں کس کو شک ہے کہ جن کے رب نے ’’ورفعنا لک زکرک‘‘ فرما کر آپ ؐ کی شان سب سے بلند کر دی۔ آقاؐ نے تو اپنے دشمنوں اور گنہگاروں کو بھی سینے سے لگایا ہے اگر آپ انسانوں سے نفرت کی باتیں کریں گے تو انہیں اپنے قریب کیسے لا سکیں گے؟جوناسمجھ ہیں آپ انہیں سمجھائیں گنہگاروں کو قریب لائیں یہی ہمارے آقا ؐ کا اور ہمارے صوفیاء کا طریق دعوت رہا ہے اور اسی سوچ سے دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب کی قیادت میں آپ نے اسی دعوت کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔