تلخ نوائی پر معذرت

June 17, 2021

علامہ اقبالؔ نے کہا تھا :

تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا

ایک زمانے کی رو، جس میں نہ دن ہے نہ رات

وقت قیمتی ہوتا ہے یہ تو آئن ا سٹائن نے ثابت کیا تھا مگر گرین وچ کی تجربہ گاہ میں جان بوائل بھی یہی کام کرتا تھا کہ وہ وقت بیچتا تھا۔ اسکی آمدنی کا ذریعہ یہی تھا۔ مجھے یہ حوالہ کیوں یاد آیا، ایک تو عرفان جاوید، ایسے موضوعات پہ بہت تحقیق کر رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ کوئی چالیس برس پہلے ،میرے دفتر میں ایک غیر ملکی خاتون انٹرویو کیلئے آئی ۔ اس دوران کئی نوجوان ،کسی شعر کی تشریح کیلئے کوئی مضمون درست کروانے کیلئے اور نصابی سوال لئے آئے۔ اپنے محدود علم کے مطابق، میں انکو مختصر جواب دیتی کہ میرے سامنے ایک غیر ملکی صحافی بیٹھی ہوئی تھی۔ ان سب کے جانےکے بعد اس نے مجھ سے پوچھا ’’اگر یہ کوئی راز نہیں تو تم بتا سکتی ہو، تم روزانہ مشورے دینے کا کیا چارج کرتی ہو؟‘‘ میں نے حیران ہو کر اس سے پوچھا…’’ آخر یہ سوال تم نے کیوں کیا؟‘‘ اس نے کہا ’’سینئر بندوں سے اول تو وقت لیکر کچھ پوچھنے اور سمجھنے کیلئے آیا جاتا ہے اور فی منٹ اسکی ادائیگی کی جاتی ہے‘‘۔ میں نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا ’’ یہ تو ہم لوگوں کی خوش بختی ہے کہ کوئی آج کا نوجوان مشورہ کرنے اور سوال کرنے آ جاتا ہے۔ ورنہ یہ تہذیب تو ہماری جوانی تک تھی‘‘۔

صوفی تبسم بیٹھے ہیں، پروفیسر کرار بیٹھے ہیں، سبط حسن بیٹھے ہیں اور فیض صاحب بھی کبھی ایسی منڈلی کے سامنے موجود ہوتے، ہم کبھی زمینی حقائق ،کبھی شاعرانہ تلمیحات ،کبھی دانشوروں کی زندگی اور حکایتوں کے بارے میں سوال کرتے تو ہر موضوع پر باقاعدہ سوال در سوال کرتے۔آج کے زمانے میں نوجوان صحافی کا خون تیز ہوتا ہے۔ سوال کرنے اور جستجو کیلئے ،کوئی پوشیدہ سیاسی یا ذاتی تحقیق لا کر شائع کر دیتے ہیں تو اگلے ہفتے انکے بازو اور ٹانگیں توڑ دی جاتی ہیں۔ سوال چاہے بجٹ سے متعلق ہیں، آج کی حکومتیں انکو رقیبوں کی طرح دیکھتی اور فیض صاحب کی طرح نہیں کہ وہ تو رقیب کو بھی کہتے ہیں کہ تو کتنا خوش نصیب ہے کہ تجھے میرے محبوب کی قربت میسر ہے، بہرحال روز بجٹ آ رہا ہے، روز آندھیاں آ رہی ہیں۔ روز بجٹ پر کانفرنس ہو رہی ہے۔ میں یہ بحثیں اسلئے نہیں سنتی کہ مجھے شفیق الرحمان ،ابن انشا اور مشتاق احمد یوسفی کی تحریریں یاد آ جاتی ہیں کہ قصہ مختصر وہ کہا کرتے تھے کہ بجٹ اصل میں مغالطوں کا مجموعہ ہوتا ہے، یہ کام ہندسوں کے جادوگر دکھاتے ہیں ،اس دفعہ کے بجٹ میں تو غالب پہ ذہن رسا رکھنے والے ڈاکٹر وقار مسعود شامل ہیں، جو عاشق کی کمر اور طول شب فراق ناپتے ناپتے، ایسے معجزے دکھاتے ہیں کہ کل تک تو گھبرانا نہیں، کہہ رہے تھے اور آج کہہ رہے ہیں‘اترانا نہیں۔ ہماری نوکری کے زمانے میں جب یہ حسابی مخطوطے ترجمے کیلئے آتے تھے تو ہم اس وقت بھی انگشت بدنداں رہتے تھے اور اب میری دوست رضیہ چیخ کر کہے ’’دالوں کی قیمتیں، چینی کی قیمتیں، بڑھ گئی ہیں ‘‘میں یہ سن کر کہتی ہوں۔ یہ سب دشمنوں کے مفروضے ہیں۔ اس وقت جی 7ممالک دنیا بھر کے غریبوں کو مزید دبانے اور چین پہ خار کھائے ہوئے ہیں۔

نئی نئی حاکمیت کے ساتھ نسلی منافرت کا شکار گورے، پوری دنیا میں، پستول کا پورا میگزین جہاں چاہیں اور جس شخص پر چاہیں خالی کر دیں،انسانوں کو مردہ بنا کر ،اپنی سفید فام نسل کی حفاظت کرتے نظر آتے ہیں،دوسری طرف کورونا کی طرح اسلامو فوبیا، ہر ملک کا لیڈر قوموں کو ڈرائے جا رہا ہے۔ وہ دن یاد نہیں کرتے جب امریکیوں نے افغانیوں اور پٹھانوں کو اسلام کے نام پر ڈالر اور کلاشن کوف دیے ۔2لاکھ پاکستانی کینیڈا میں ہیں۔ کوئی چنگیز خان اٹھتا ہے، اور پورے خاندان کو قیمہ کر جاتا ہے۔ بڑی طاقتوں نے جس طرح چین اور روس کے مسلمان فرقوں کو اشتعالی پروپیگنڈہ کا شکار کیا ہے۔ کبھی ایرانی عورتوں تو کبھی سعودی عورتوں کی تصویر کہانی پیش کرتے رہیں گے۔ تو یہ زہر کہیں نہ کہیں تو بدبو دے گا۔ کبھی آپ نے پڑھا کہ آسٹریلیا میں قدیم ابروجینل قوم کے ساتھ کیا کیا یا امریکہ اور کینیڈا نے وہاں کی اصلی نسلوں کو آہنی پردے کے نیچے چھپائے رکھا۔ کون کس کی مدد کرتا ہے، کون عراق اور کویت کو لڑواتا ہے؟ کون عراق اور شام کی تاریخ وتہذیب کو مٹا کر بھی، ایتھوپیا میں فاقہ کشی کی تشہیر کرتاہے؟ کوئی علاج اسکا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں۔ اسلامی ممالک نے منہ زبانی بہت باتیں کر لیں۔ کوئی تو ان کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ برباد بے گھر غریب مسلمان ہو رہے ہیں۔ جیسے این جی اوز کو پیسے ملنے بند ہو گئے ویسے انکو بھی رقمیں اور تربیت ملنی بند ہو ۔ ایک طرف پاکستان میں ہم سائنسی تعلیم کو پس پشت ڈالتے رہیں گے۔ تو وہ جو ایٹم بم بنایا تھا۔ وہ جنہوں نے بنایا تھا، وہ تو چلے گئے، اب سائنس کی تعلیم و ترویج کیلئے بجٹ میں کتنے فنڈ رکھے گئے ہیں۔ وہی فرسودہ جواب’ فنڈز نہیں ہیں‘ کتنے ادب و ثقافت کے ادارے ہیں ’فنڈز نہیں ہیں‘۔ تعلیم اور صحت میں تو ہر سال 2فیصد سے زیادہ رقم رکھی ہی نہیں جاتی ،کمال یہ ہے کہ وہ بھی ساری استعمال نہیں ہوتی۔

اسپین میں میرے پوتے نے گریجویشن کی ہے۔ اس کی تعلیم کا پورا خرچ سرکار نے اٹھایا ہے۔ ہم تو میٹرک تک مفت تعلیم نہیں دے سکتے ۔ پھر یہی ہوتا رہے گا کہ دیہات میں عورتیں آٹھ بچے پیدا کرتی رہیں گی۔ایک بچہ مدرسے میں ،ایک حفظ قرآن کرنے، ایک موٹر ورکشاپ میں اور ایک کھوکھے میں چار سال کی عمر سے کما کے اور ساری مغلظات سیکھ کر گھر آئے گا اور بڑے ہو کر وہ نامعلوم ہو جائے گا۔ جسے کشمور یا راجن پور میں ڈاکو کہہ کر مارنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر وہ بھی کم نہیں، انکے پاس بھی مہلک ہتھیار آ گئے ہیں۔ کیا کہتے ہیں منصف حضرات اسکے جواب میں ۔