نواز شریف کا وژن اور موجودہ بجٹ!

June 17, 2021

ماضی میں بجٹ کو لفظوں کا گورکھ دھندہ کہہ کر ہدف تنقید بنایا جاتا تھا یعنی کہ بجٹ پر اعتبار نہیں، تحریک انصاف والوں کیلئے وزارت خزانہ ایک ایسا انگارہ ثابت ہوئی ہے کہ200ماہرین معاشیات کے سرخیل اسد عمر تو پہلی نوکری ملتے ہی اس سے ہاتھ جلا بیٹھے، ان کی پالیسیاں کبھی نہ نہ اورکبھی ہاںنہ پر ہی مشتمل رہیں، ان کے الفاظ اور لہجہ ہمیشہ اس قدر تیز اور جارحانہ رہا کہ جیسے وہ اپنا وہ تھیسس ڈیفنڈ کررہے ہوں جس کی حقیقت میں پروڈکشن بک خالی ہو، موصوف اپنے عقائدمیں اس قدر ضدی واقع ہوئے کہ ہر اس بات پر ضد کر بیٹھتے جس پر بعد ازاں شرمندہ ہونا پڑتا، یہی اوصاف ان کی پہلی نوکری سےفراغت کا باعث بنے۔ شاباش ہے اسد عمر پر کہ این سی او سی میں جاکر بھی انھوں نے کوئی کسبِ کمال نہیں کیا،محض پی ڈی ایم کے لانگ مارچ اور دھرنے کو فلاپ کرنے کیلئے پورا ملک ہی بند کرڈالا،ایسے اعداد و شمار پیش کئے گئے کہ جیسے ان کے تجویز کردہ طریقے سے لاک ڈائون نہ کیا گیا تو تباہی آئیگی، کوویڈ کی آڑ میں سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے اسی نظام تعلیم کو تباہ کردیا گیا جس کو بہترین بنانے اور انسانوں پر خرچ کرنے کے بلند بانگ نعرے لگا کر آئے تھے، لاکھوں چھوٹے اسکول بند ہوگئے ان سے منسلک اساتذہ اور کاروباری ایسے بے روزگار ہوگئے کہ ان کا سب کچھ ختم ہوگیا ۔شبر رضوی اور عبد الحفیظ شیخ میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں کی شان میں زمین و آسمان کے قلابےملا کر لائے گئے، لیکن صرف شبر رضوی خوش قسمت نکلے کہ جلد ہی ڈوبتی نیا سے چھلانگ لگا دی،عبد الحفیظ شیخ اس لحاظ سے بدقسمت نکلے کہ پالیسیوں اور مہنگائی کا سارا ملبہ ان پر ڈال کر ان کا سی وی ہمیشہ کیلئے خراب کردیا گیا جس کے بعداُن کا کسی بھی حکومت میں اسی عہدے پر دوبارہ لایا جانا ناممکن ہوگیا ہے۔ ہر کام کے آغاز سے پہلے نعرہ لگایا گیا کہ یہ کام پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے اور واقعی ایساہی ہوا، مجھ پر تو شادی مرگ کی کیفیت برپا ہوگئی جب یہ سنا کہ ریاست مدینہ کے شہریوں کیلئے دو شاندار آفر رکھی گئی ہیں، 418روپے سالانہ خرچ کرکے طلبا کو اعلیٰ تعلیم دی جائیگی، ویسے بھی تعلیم کیلئے مختص رقم اتنی تو ہے کہ ہم مطالعہ پاکستان پڑھ سکیں، اس کے ساتھ ساتھ ہر شہری پر 127 روپے سالانہ بھاری بھرکم اخراجات کیے جائیں گے، یہ وہی تاجے حوالدار ہیں جو پہلے کیلکو لیٹر لیکر ہر چوک پر کھڑے ہوکر چلایا کرتے تھے قومیں تعلیم اور صحت سے بنتی ہیں ان پر خرچ کریں گے۔ پہلی بار عوام نے یہ بھی دیکھا کہ کے پی میں یونیورسٹیوں کیلئے اساتذہ کو تنخواہیں اد اکرنے کیلئے پیسے ہی نہیں، پہلی بار پنجاب کی سب سے بڑی انجینئرنگ یونیورسٹی کے اساتذہ اپنی آدھی تنخواہوں کے حصول کیلئے گورنر ہائوس کے باہر دھرنا دینے پر مجبور ہوگئے،یہ بھی پہلی بار ہوا کہ ایک خاتون وزیر کہا کرتی تھی کہ بارشوں کا کریڈٹ اس کے لیڈر کو جاتا ہے،لیکن ایک ارب درخت لگانے کے باوجود نئے پاکستان میں شدید گرمی ہونے پر اِس کج فہم خاتون کی سٹی گم ہو چکی ہے،اب کوئی تو ان سے پوچھے گرمی کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے۔یہ بھی پہلی بار ہوا ہےکہ حکومت کے پاس گدھوں کا ڈیٹا تو موجود ہے لیکن غریبوں کا نہیں۔یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ نالائقوں نے سر پلس 10ہزار میگاواٹ بجلی میں سے لوڈشیڈنگ نکال کر دکھائی ہے، یہ پہلی بار ہوا ہے کہ مافیا کے ساتھ مل کر گھی، چینی، انڈوں، آٹے جیسی بنیادی چیزوں کی قیمتوں میں 100فیصد تک اضافہ کرکے سرکاری ملازمین کی تنخواہوںمیں 10فیصد اضافہ کرکےخود کو حاتم طائی ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔یہ بھی پہلی بار ہوا ہےکہ بچت کے ڈونگرے برسانے والے کے وزیر اعظم ہائوس میں اتنی بچت کی گئی ہے کہ اخراجات میں بھی 18کروڑ 40لاکھ کا اضافہ کرنا پڑا ہے۔ شوکت ترین کی باتوں میں کھلا تضاد دکھائی دیتا ہے، 47فیصد خسارے کا بجٹ پیش کرنے کے بعد دعویٰ کیا نئے ٹیکس نہیں لگائیں گے لیکن 1230ارب سے زائد اضافی ریونیو ضرور جمع کرلیں گے، یعنی عوام سمجھ جائیں اور تیاری پکڑ لیںکہ منی بجٹ آئیں گے اور 610ارب روپے جمع کرنے کے لئے حکومت عوام پرپٹرول بم چلائے گی، شوکت ترین کی کس بات کا یقین کریں۔ ایک دن پہلے فرمایا موبائل کالز، انٹرنیٹ ڈیٹا اور ایس ایم ایس پر ٹیکس لگائیں گے، 24 گھنٹوں کے اندر اندرمدعا کابینہ پر ڈال کر اعلان واپس لے لیا، حقیقت تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر ٹیکس ان کی دست اندازی سے بالاتر ہے۔ بجٹ ہمیشہ مخصوص ویژن کے تحت مرتب ہوتے ہیں،نواز شریف حکومت کی پالیسیوں کا تسلسل برقراررکھا جاتا تو ملک 7فیصد گروتھ تک تو ضرور پہنچ جاتا اور محصولات کے سابقہ ریکارڈ بھی ٹوٹ جاتے، عوام نے دیکھ لیا ہے کہ ایسا بجٹ پیش کرنے والوں نے عین بجٹ کے روز جہانگیر ترین کو این آر او دے دیا ۔