افغانستان: انارکی کے خدشات!

June 18, 2021

جوں جوں افغانستان سے غیرملکی فوجیوں کے انخلا کا وقت قریب آرہا ہے، یہ ضرورت بڑھ رہی ہے کہ مستقبل کی افغان حکومت کے ڈھانچے اور نظامِ مملکت کے حوالے سے کوئی قومی اتفاق رائے یا سمجھوتہ یا مفاہمت سامنے آئے۔ اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ افغانستان میں طالبان دھڑوں اور کابل حکومت میں شامل گروپوں کی باہمی مفاہمت سے ایسا نظام قائم ہو جائے جس میں معمول کی سرگرمیاں اور امور مملکت سمیت تمام معاملات خوش اسلوبی سے بحال ہو سکیں۔ مذکورہ کیفیت نہ صرف افغان عوام کیلئے مسرت بخش ہوگی بلکہ ان تمام ممالک کیلئے بھی خوش آئند ہوگی جو کئی دہائیوں سے افغانستان میں جاری بدامنی کے باعث پریشانیوں سے دوچار ہیں مگر زمینی صورت حال یہ ہے کہ افغان طالبان اور امریکی حکومت کے مذاکرات اور سمجھوتے کے بعد عسکری گروپوں اور کابل حکومت کے درمیان بات چیت ابتدا میں کچھ آگے بڑھتی محسوس ہوئی مگر تشدد کے واقعات سمیت غیریقینی کیفیات کے باعث قابلِ ذکر پیش رفت تاحال سامنے نہیں آئی۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے اپریل کے مہینے میں افغانستان سے امریکی فوجیں واپس بلانے کا جو اعلان کیا وہ بڑی حد تک ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ کے فروری 2020کے طالبان سے کئے گئے سمجھوتے کے مماثل تھا جس میں افغان حکومت کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ صدر جوبائیڈن کے مذکورہ اعلان کے بعد فریقین میں زیادہ کامیابیاں سمیٹنے کا رجحان نمایاں ہوا اس کا اندازہ طالبان رہنما ملاح مصباح کے خبر ایجنسی کو دیے گئے انٹرویو میں اس دعوے سے کیا جا سکتا ہے کہ امریکیوں کے بغیر افغان فوج پانچ دن بھی نہیں گزار سکتی۔ ان کے بیان سے ظاہر ہے کہ طالبان اپنا اقتدار قائم کرکے اپنی سوچ کے مطابق نظامِ حکومت چلانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ افغان حکام کا اس کے جواب میں کہنا ہے کہ وہ طالبان کا زور توڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ افغانستان میں تشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں اور عیدالفطر کے موقع پر جنگ بندی کے بعد بھی خونریزی کا سلسلہ مکمل طور پر تھم نہیں سکا ہے۔ یورپی یونین کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان ٹومس نکلاسن نے جو پچھلے دنوں اسلام آباد آئے ہوئے تھے، بدھ کے روز واپس روانگی سے قبل ایک انٹرویو میں خدشہ ظاہر کیا کہ افغانستان سے غیرملکی فوجوں کی واپسی کے بعد تشدد میں اضافہ ہوگا اور یہ اضافہ متحارب فریقوں کی تیاریوں کا ہی نتیجہ نہیں ہوگا بلکہ دوسرے ’’ایکٹرز‘‘ کی شمولیت سے سنگین تر ہو سکتا ہے، اس تناظر میں یورپی یونین نے فریقین سے رابطہ کرکے امن بات چیت کو جلد از جلد زمینی حقیقت کا روپ دینے کی ضرورت اجاگر کی ہے۔ ان کے بیان کےمطابق طالبان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ایک سابقہ اعلان کے بموجب قیامِ امن کیلئے اخلاص کا مظاہرہ کریں۔ بدھ کے روز ہی اقوامِ متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے کوئٹہ آفس کے سربراہ اروین پولیکر کا یہ بیان سامنے آیا کہ افغانستان سے غیرملکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد مزید افغان مہاجرین پاکستان آسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان اس وقت بھی 14لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔ افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کے امریکی فیصلے کے بعد کی صورتحال کا جس جس زاویے سے جائزہ لیا جائے یہ ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ بین الافغان مذاکرات کے ذریعے امن و مفاہمت کی مضبوط بنیادیں استوار کر دی جائیں۔ اس باب میں وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی نے درست طور پر افغان رہنمائوں کو متوجہ کیا ہے کہ وہ مل جل کر مسئلہ کا سیاسی حل نکالیں۔ افغانستان کے امن اور خطے کی ترقی کی یہی کلید ہے جبکہ پاکستان اور افغانستان اس امر پر متفق ہیں کہ اپنی سرزمین ایک دوسرے یا کسی تیسرے فریق کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔