حسین منظر یاد رہیں

June 18, 2021

یہ کوئی شکایت نہیں، حقیقت ہے کہ ہم اپنے محسنوں کو بھولنے میں دو دن لگاتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں میرے پرانے کاغذوں سے ہمارے دور کی اعلیٰ تعلیم یافتہ افسانہ نگار جمیلہ ہاشمی مرحومہ کا پرانا خط بر آمد ہوا تو کئی جانب سے آواز آئی کہ کون جمیلہ ہاشمی؟اس پر مجھے ترقی پسند تحریک کے سرکردہ افسانہ نگار اُپندر ناتھ اشک کا وہ فقرہ رہ رہ کر یاد آیا کہ لندن میں میرے دوستوں کو میری یاد دلا دینا۔سوچتا ہوں کہ ایسا کچھ ہوجائے کہ جو ہمارے ادب اور ہماری زبان کے محسن بڑا کام کر گئے، کوئی ایسا اہتمام ہو کہ کسی بہانے سہی، ان کی یاد تازہ کی جائے۔

میرے ذخیرے سے آج جو خط ہاتھ لگا ہے ،ہمارے دور کے بڑے ماہر نفسیات اور سرکردہ معالج اور اتنے ہی باکمال فکشن نگار اور کہانی کار حسن منظر نے اب سے چوتھائی صدی پہلے حیدر آباد ،سندھ سے لکھا تھا جہاں ان کا شفا خانہ تھا اور جہاں دنیا زمانے کے لوگ اپنی بھانت بھانت کی کہانیاں لے کر ان کے پاس مشورے کے لئے آتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص ایسی جگہ بیٹھا ہو اور اس کے ہاتھ میں قلم بھی ہو تو اس کا قلم کار بن جانا اور کہانی نویس قرار پانا حیرت کی بات نہیں ، بلکہ جس شخص کو انسان کے ذہن کے اندر جھانکنے پر قدرت حاصل ہو اور وہ کہانی نہ لکھے تو دنیائے ادب میں مجرم ٹھہرے۔

حسن منظر اب خیر سے 87 برس کے ہو رہے ہیں،پوری طرح بیدار ہیں اور کمال کی یاد داشت پائی ہے۔ وہ یوپی کے شہر ہاپڑ میں پیدا ہوئے تھے جو بابائے اردو مولوی عبدالحق اور برادرم انتظا ر حسین کا بھی شہر تھا ۔ وہی ہاپڑ جس کے پاپڑ پروں سے بھی ہلکے ہوا کرتے تھے اور جہاں نوجوانی کے کچھ برس میں نے بھی گزارے ہیں۔ حسن منظر نے کتنے ہی افسانے لکھے اورچھ سات ناولوں اور دو ناولٹوں سے میں واقف ہوں۔ان کے دو ناولوں کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ حسن منظر نے ابتدائی تعلیم مرادآباد میں اور اعلیٰ تعلیم لاہور میں پائی اور علاج معالجہ کی سند انگلستان سے حاصل کی۔اب کراچی میں رہتے ہیں اور مجھے کچھ ادبی نشستوںمیں ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔

حسن منظر نے مجھے یہ خط اُن دنوں لکھا جب میں اپنے بعض پروگراموں میں پرانے اور بھولے بسرے نغمے نشر کر رہا تھا۔ مجھے ان نغموں سے جتنا شغف تھا ، حسن منظر صاحب کواس سے بڑھ کر تھا۔انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ اس موضوع پر کتا ب ترتیب دوں۔ ان کی یہ بات جی کو ایسی لگی کہ میں نے ’نغمہ گر‘کے نام سے پرانے گانوں پرپوری کتاب لکھ ڈالی جو حیرت انگیز طور پر پسند کی گئی۔

مجھے یاد نہیں کہ بی بی سی کی اردو سروس سے جنسی مسئلوں پر کوئی پروگرام پیش کرنے کی تجویز تھی۔ حسن منظر صاحب نے ذکر کیا ہے تو ممکن ہے ایسی کوئی بات ہوئی ہو۔ تھا یہ شدیدمسئلہ اور اس پر کچھ بات ہونی چاہیے تھی لیکن شاید ہو نہ سکی۔

تو یہ رہی ہمارے سرکردہ فکشن نگار اور ماہر نفسیات کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر:

سندھ نفسیاتی شفا خانہ۔ ہیرآباد۔حیدرآباد۔ سندھ ۸مارچ ۱۹۹۵ء

گرامی قدر رضا علی عابدی صاحب۔ تسلیمات

ممکن ہے میرے نام سے آپ کے کان آشنا ہوں۔سائیکٹرسٹ بھی ہوں اور ادب کی دنیا سے بھی تعلق ہے۔ بی بی سی پہلے بھی سنا کرتا تھا لیکن اب چند ماہ یا ایک سال سے باقاعدگی سے یہاں کے ۸ بجے تا ۹ بجے شام والا اردو پرگرام سنتا ہوں۔ آپ کا انداز گفتگو بہت پسند ہے ۔لیکن جس چیز نے مجھے یہ خط لکھ کر آپ کا وقت ضائع کرنے پر آمادہ کیا وہ ہے آپ کی دور گزشتہ کے نغموں میں اور موسیقی سے وابستگی۔ آپ نے چند بہت اچھی چیزیں سنوائیں۔ آپ کا ذوق بہت اعلیٰ ہے اور میرا خیال ہے موسیقی کے ہمارے اثاثے کا اچھا بڑا ذخیرہ آپ کی دسترس میں ہے۔ کیوں نہ اس سے کچھ فائدہ اٹھایاجائے اور نغموں ،گیتوں کے اُن خالقوں کو بھی اس پروگرام میں (مختصراً ہی سہی)شامل کرلیا جائے جنہیں آپ اور مجھ جیسے ابھی تک ساٹھ ستر سال گزرجانے کے بعد نہیں بھولے ہیں اور نئی نسل اُن موسیقی کے کوہ نوردوں سے خود کو پرے کر چکی ہے اور ان کو تراشنے والوں کے نام تک سے ناواقف ہے۔ کملا جھریا ،پارول گھوش،زہر ہ آگرہ والی، ان کی بیٹی مہر النسا (سمرن کر بھج رام نام کو۔ راگ پنڈول)کالی جان، پیارے صاحب، آر سی بورال، میر صاحب وغیرہ وغیرہ کو بھلا دینا تو ایسا ہی ہے جیسے نایاب کتابوں کی ایک لائبریری کو خود اپنے ہاتھوں جلا کر خاک کردینا۔میری رائے یہ ہے کہ ان موسیقاروں اور گائیکوں کے بارے میں چھوٹے پیمانے پر آپ ایک ریسرچ کرائیے یا خود کیجئے: ان کی زندگی، زمانہ اور فن کی خوبیوں کا جائزہ۔ جو بھولا بسرا نغمہ آپ سنواتے ہیں اس کے پہلے چند منٹ میں (جتنا بھی وقت نکالنا ممکن ہو)براڈکاسٹ کیجئے اور جب اس طرح کے خاکے ایک کتاب بھر جمع ہوجائیںانہیں چھپوادیجئے۔ یقیناً جتنا مواد آپ کے پاس جمع ہوتا جائے گا وہ اس سے کہیں زیادہ ہوگاجتنا آپ کے مداح آپ کی آواز میں سنیں گے۔ اس تجویز کو امید ہے آپ رد نہیں کریں گے۔ اگر کسی خاص گیت یا فن پارے کی آپ کو ضرورت ہوگی اور وہ میرے پاس نکلا تو میں اسے بھیجنے میں کوتاہی نہیں کروں گا۔

کملا جھریا کا انتقال ۱۹۷۵ اور ۱۹۸۵ کے درمیانی عرصے میں ہوا تھا۔ میرے پاس ان کی تقریباًسب ہی چیزیں ہیں اور بنگالی بھجن بھی۔ ایک نہیں ہے تو:

کٹا کر گردنیں دکھلا گئے یہ کربلا والے

کبھی بندے کے آگے جھک نہیں سکتے خدا والے

(آگے چل کرلکھتے ہیں) آپ کے رفقا کا جنسی مسائل کے بارے میں پروگرام شروع کرنے کا ارادہ بروقت ہے۔ مریضوں اور بچوں کے اور ایڈولیسنس (عنفوان ِ شباب) کی دہلیز پرکھڑے ہوئے لڑکے لڑکیوں کو معاشرہ جو جنسی تعلیم دیتا ہے اس کو ان کے دماغوں سے مٹانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا سائنٹفک تعلیم دینا۔ مجھے تقریباًہر مریض کو (۱۲ سے ۸۲ سال عمر والوں کو)Sex Fellacies تصویروں کی مدد سے سمجھانی پڑتی ہیں۔ خط کا یہ حصہ ان صاحب کے نام ہے جو اس پروگرام کو پیش کریں گے۔ اپنے ایک افسانے کی فوٹو کاپی بھیج رہا ہوں ، شاید اس سے انہیں اپنے پروگرام کومرتب کرنےمیں کچھ مدد مل سکے۔ یہ افسانہ میرے افسانوں کے تیسرے مجموعے ’انسان کا دیش‘ میں شامل ہے اور کشور ناہید صاحبہ کے دور میں ’ماہ نو‘ میںچھپ چکا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اس خط کے کسی بھی حصے کو اپنے پروگرام میں شامل کرسکتے ہیں۔ میرا ارادہ صرف آپ سے گفتگو کرنے کا تھا۔ امید ہے آپ بخیر و عافیت ہوں گے اور آپ کے رفقا بھی۔

مع السلامۃ:حسن منظر (ڈاکٹر سید منظر حسن)