...... ساٹھ سال لگتے ہیں!

June 18, 2021

پیرس کے ایک ریستوران میں دو ’’لَو برڈز‘‘ بہت محویت کے ساتھ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے رومان میں ڈوبی گفتگو میں مشغول تھے، اچانک لڑکے نے اپنی جیب سے ایک رقعہ نکالا اور لڑکی کو تھما دیا۔ رقعہ پڑھتے ہی لڑکی کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا، اس نے ایک زور دار تھپڑ لڑکے کو رسید کیا اور رقعہ وہیں پھینک کر پائوں پٹختی ہوئی ریستوان سے نکل گئی۔ ساتھ والی میز پر ایک پاکستانی نوجوان بھی بیٹھا تھا، ایسے مواقع پر ہمارا تجسس جاگ اٹھتا ہے، چنانچہ اس نے رقعہ اٹھایا اور پڑھنے کی کوشش کی مگر وہ فرانسیسی زبان میں تھا، وہ باہر نکل آیا اور ادھر سے گزرتی ایک لڑکی سے کہا کہ پلیز وہ پڑھ کر بتائے کہ اس رقعہ میں کیا لکھا ہے؟ لڑکی نے جونہی رقعہ پڑھا، اس نے پاکستانی نوجوان کی پٹائی شروع کردی، مگر نوجوان نے ہمت نہ ہاری، اس نے کئی لوگوں کو روک کر ان سے رقعہ کے مندرجات جاننے کی کوشش کی مگر ہر بار اسے بہت زد و کوب کیا گیا۔ اس پر اس کی پریشانی میںمزید اضافہ ہو گیا کہ آخر اس خط میں لکھا کیا ہے؟ اسے اچانک یاد آیا کہ اس کا ایک پاکستانی دوست 25سال سے پیرس میں مقیم ہے اور فرنچ بہت اچھی جانتا ہے۔ چنانچہ وہ بھاگم بھاگ اس کے گھر پہنچا مگر اسے پتہ چلا کہ اس کا دوست لندن جانے کے لئے بندرگاہ گیا ہوا ہے، پاکستانی نے ٹیکسی پکڑی اور بندرگاہ پہنچ گیا، اس وقت جہاز چلنےکو تھا، اس کا دوست عرشے پر کھڑا تھا، اس نے چیخ کر دوست کو مخاطب کیا اور اس کے متوجہ ہونے پر کہا کہ خدا کے لئے مجھے بتائو اس رقعہ میں کیا لکھا ہے؟ دوست نے کہا اس رقعے کو گولہ بنا کر میری طرف پھینکو۔ جگہ جگہ سے مار کھانے والے پاکستانی نے رقعے کا گولہ بنا کر دوست کی طرف پھینکا مگر رقعہ سمندر میں گر گیا اور آج تک کسی کو پتہ نہ چلا کہ اس میں لکھا کیا تھا۔

مجھے پتہ ہے آپ سب کو اس داستان کے انجام پر سخت غصہ آ رہا ہوگا اور آپ دانت پیس رہے ہوں گے، جبکہ یہ صرف میں جانتا ہوں کہ اس رقعے میں کیا لکھا تھا کیونکہ اس فرنچ لڑکی کے ساتھ بیٹھا ہوا لڑکا ایک چوبیس سالہ نوجوان تھا، جو میں تھا۔ نہ وہ لڑکی مشتعل ہوئی تھی اور نہ اس رقعے کی عبارت کسی سے پڑھانے کی ضرورت پڑی تھی۔ چنانچہ جو کہانی میں نے بیان کی ہے وہ محض دل پشوری کے لئے تھی تاہم از راہِ کرم آپ ابھی مزید کچھ دیر غصے کی کیفیت میں رہیں آخر آج کل ساری قوم غصے میں ہے چنانچہ ادیب اور شاعر بھی قوم کے جذبات سے الگ تھلگ کیوں رہیں؟

میں شاید شروع ہی میں اصل بات بتا دیتا مگر میرا مسئلہ یہ ہے بلکہ شاید ہم سب کا حافظہ کمزور ہو گیا ہے خود مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ 1968میں وہ لڑکا میں ہی تھا یا عباس تابش تھا، باقی باتیں چھوڑیں حافظے کا حال سنیں گزشتہ 16دسمبر کو میں نے ایک دوست سے پوچھا یار یاد نہیں آ رہا 16دسمبر کو کیا ہوا تھا؟ اس نے کہا پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچے دہشت گردی کا نشانہ بنے تھے۔ میں نے پوچھا اور کیا ہوا تھا؟ کافی دیر سوچنے کے بعد بولا شاید سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ ہوا تھا۔ خود مجھے بہت دیر بعد یاد آیا کہ 16دسمبر کو ہمیں ڈھاکہ میں جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے تھے اور اس کے بعد مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تھا۔ میرے حافظے کی کمزوری کا یہ عالم ہے کہ آج کی تقریب میں آتے وقت مجھے یاد نہیں آ رہا تھا کہ میں کس تقریب میں جا رہا ہوں۔ بالآخر یاد آیا کہ عباس تابش کی مدتِ ملازمت مکمل ہو گئی اور آج اس کی 60ویں سالگرہ بھی ہے۔ پھر بڑی مشکل سے مجھے یاد آیا کہ جن دنوں میں نوائے وقت کے ادبی ایڈیشن کا ایڈیٹر تھا، میلسی سے مجھے ایک نوجوان عباس تابش نامی شاعر کی چند غزلیں موصول ہوئی تھیں، مجھے غزلیں پڑھ کر بہت غصہ آیا کہ ایک گمنام اور کم سن شاعر کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ اتنی خوبصورت غزلیں لکھے، مگر میں نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے ان سب شعراء کو جلانے کے لئے جو خود کو بہت بڑا شاعر سمجھتے تھے، یہ غزلیں اپنے تعارفی اور تعریفی نوٹ کے ساتھ ادبی ایڈیشن میں شائع کردیں اور اس کے بعد مجھے چند برس بعد خبر ملی کہ عباس تابش تو بہت زبردست شاعر ہے، میں نے کئی حاسدوں کا خون جلتے ہوئے دیکھا اور اس جلتے ہوئے خون کی بُو بالکل ایسی تھی جیسی بکرے کی سری بھونتے ہوئے آتی ہے۔

آہستہ آہستہ میرا حافظہ کام کرنا شروع ہو گیا اور مجھے یاد آیا کہ میں تو اس کی شادی میں شرکت کے لئے خاص طور پر لاہور سے اس کے گائوں بھی گیا تھا اور اسے دولہا بنے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ تو آغاز تھا، اس کے بعد ندیم صاحب کے دفتر میں خالد احمد، نجیب احمد کے علاوہ اس کے ساتھ بھی گپ شپ کا سلسلہ جاری رہا اور پھر ہم نے اندرون ملک اور بیرون ملک بہت سے مشاعرے بھی پڑھے۔ بات یہاں تک تھوڑاہی رہی، اس کے بعد تو چل سو چل، اس کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اور یہ نہ صرف ابھی تک جاری ہے بلکہ مسلسل جاری رہے گا۔ اب تو وہ لکھنؤ کے شاعروں کی طرح مشاعرہ گاہ میں اپنے شاگردوں کے جلو میں آتا ہے مگر ﷲ جانے اتنی کامیابیوں کے باوجود ابھی تک وہ ’’ہم چوما دیگرے نیست‘‘ کا نعرہ کیوں نہیں لگاتا، وہ ہر سچے شاعر کو شاعر ہی نہیں مانتا بلکہ اس کی مزید کامیابیوں کا خواہاں رہتا ہے۔ اب مجھے اپنے برے حافظے کے باوجود ایک بات اور یاد آگئی ہے اور وہ یہ کہ ان دنوں رزق حلال کے ہجے تک بہت سے لوگوں کو بھولتے جا رہے ہیں جبکہ عباس تابش الٹا ان لوگوں میں سے ہے جسے رزق حرام کے ہجے یاد نہیں، چنانچہ اس نے مدت ملازمت مکمل ہونے سے پہلے ہی میرے ہمسائے میں اپنا خوبصورت مکان تعمیر کرلیا ہے اور یوں وہ پہلے صرف میرے دل کے قریب تھا، اب وہ مکانی طور پر بھی میرے قریب آگیا ہے۔ ﷲ تعالیٰ اسے اور اس کے کلام کو ہمیشہ شاد و آباد رکھے۔