غیر یقینی، مایوسی اور وجدان

June 18, 2021

تمام دنیا یقین اور بے یقینی کے درمیان معلق ہے۔ یہ صورت حال کسی نہ کسی سطح پر ہر فرد کو لاحق ہے، بھلے وہ سائنس دان ہی کیوں نہ ہو۔ کبھی تشکیک علم کے راستوں کی نشاندہی کرنے والی رہگزر تصور کی جاتی تھی یعنی کسی شے پر شک کرنا اس چیز کے بارے میں حقیقی علم یا جانکاری حاصل کرنے کی طرف راغب کرتا تھا۔ اب تشکیک اپنے اصل معنی و مفہوم کی بجائے صرف نند بھاوج، ساس بہو اور میاں بیوی کے درمیان شک تک محدود ہو چکی ہے، علم سے اس کی تار منقطع کی جا چکی ہے۔ کووڈ 19 اب 2021میں داخل ہو چکا مگر ابھی تک اس کے ہونے اور نہ ہونے کے خدشات موجود ہیں۔ ویکسین کے بارے میں بھی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر قومیں ایک ہی ڈگر پر ہیں۔ اس کی افادیت سے زیادہ اس کے نقصان کے بارے میں بحث و مباحثہ زبانِ زدِ عام ہے۔ ہر طرف ابہام، شکوک اور بے یقینی عام ہے۔ بڑے بڑے ڈاکٹر اپنے لیکچر اور انٹرویوز میں عجب انکشافات کر رہے ہیں۔ عام لوگوں کی رائے ایک طرف، میڈیسن سے جڑے ماہرین کا رویہ بھی خاص حوصلہ افزا نہیں۔ دعویٰ اور جوابِ دعویٰ ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ایک طرف سے حق میں تاکید آتی ہے تو دوسری سمت سے مخالفت کی تلقین ہوتی ہے۔ اب ایک ہی وجود میں معلومات کا انبار لگا ہے۔ ویکسین کی مختلف اقسام ہیں اور ہر قسم کے بارے میں مختلف خدشات ہیں۔ ایسے میں دوبارہ وہی خوف دلوں میں سرایت کرتا جا رہا ہے جو کووڈ کے شروع کی اموات اور حالات دیکھ کر طاری ہوا تھا۔ ہمارا سارا مسئلہ کم معلومات اور کم تحقیق کا ہے۔ ظاہری اور محدود علم کے ساتھ ہمیشہ بے یقینی کی کیفیت جڑی رہتی ہے۔ عقل حواس اور ظاہر تک محدود ہے اس لئے اس سے جڑی معلومات بھلے وہ سائنسی بھی ہوں کسی نہ کسی سطح پر غیر یقینی کی حامل ہوتی ہیں۔ کووڈ نے جب لوگوں کو اپنے گھر، کمرے اور ذات تک محدود کر دیا تو انسان نے اظہار اور جڑت کے لئے سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم برتنا شروع کر دیا۔ ایک طرف جہاں صلاحیتوں کے حامل لوگوں کو دنیا کے سامنے فن کے اظہار کا موقع ملا اور اپنے شعبے کے لوگوں تک رسائی حاصل ہوئی وہیں کچھ کم علم لوگوں نے دوسروں کو جھٹلانے بلکہ بدنام کرنے کو معلومات کا ذریعہ بنا لیا۔ سنسنی خیزی کیلئے روٹین سے ہٹ کر ویڈیوز بنانے کا عمل شروع ہوا۔ اب عالم یہ ہے کہ آپ کسی محفل میں کسی سے سرگوشی نہیں کر سکتے۔ نہ جانے کب کوئی موبائل اسے کسی ایسے تعلق میں تبدیل کر کے عام کر دے کہ آپ صفائیاں دیتے رہ جائیں۔ ان تمام الزامات کا سامنا مشہور لوگوں کو زیادہ ہے جن کے بارے میں بعض اوقات ایسی باتیں بھی شیئر ہوتی ہیں جو انہیں خود بھی معلوم نہیں ہوتیں۔ زندگی تو زندگی موت کو کیش کرنے کے لئے بھی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں۔ہم بات کر رہے تھے لمحۂ موجود کی بے یقینی کی جو کائنات کے ہر کونے میں پھلتی پھولتی جا رہی ہے۔ کسی نامہربان لمحے میں کسی کم حوصلہ فرد نے بے یقینی کے بیج بوئے تو پھر ہر فرد نے اسے پروان چڑھانے میں کردار ادا کیا۔ بے یقینی تنہا نہیں ہوتی۔ یہ مزید مصیبتوں کو جنم دیتی ہے اور سب سے بڑی بیماری مایوسی ہے۔ مایوسی انسان کے اندر موجود لڑنے اور مقابلہ کرنے کی قوتوں کو کمزور کر کے انسان کو ایسا آسان ہدف بنا دیتی ہے کہ عام سی بیماری اُسے چِت کر دیتی ہے۔

سوال اس بے یقینی کا حصار توڑنے اور مایوسی سے نجات حاصل کرنے کا ہے اور اس کے لئے وجدانی قوتوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی طاقت سے بیرونی شر پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جب تک انسان کا باطن مضبوط نہ ہو جسم کی طاقت اثر نہیں رکھتی۔ باطن کی طاقت وجدان اور روح سے جڑت رکھتی ہے۔ افواہوں اور خواہ مخواہ کی پریشانیوں کے اسپیکر بند کر کے ذات سے رابطے کی کوشش کریں۔ اندر جھانکیں، من کا شیشہ صاف کریں، اس میں حالات حاضرہ کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں، سنی سنائی بات پر یقین کرنے اور آگے بڑھانے کی بجائے مثبت عمل کے ذریعے انسانیت کے دُکھ کم کرنے کی کوشش کریں۔ اسی سے فرد کی اپنی ذات بھی نکھرے گی اور معاشرے میں بھی نکھار آئے گا۔ جب تک ظاہر کی دیواروں تک سوچ محدود رہے گی حبس کا عالم رہے گا۔ اسے دِل کے گلستان تک رسائی دیں، سوچ کی ستھرائی دل کے آئینے کو شفاف بنا دیتی ہے جس میں اشیاء کی حقیقت جاننا مشکل نہیں ہوتا۔ اصل فیصلے اندر سے صادر ہوتے ہیں۔ احتیاط لازم مگر زندگی موت کا وقت معین ہے۔ جو وقت میسر ہے اُسے خیر بنانے کا جتن کریں، اسی سے ہر بے یقینی کا خاتمہ ہو گا۔