افواہ سے شروع ہونیوالا رنگ روڈ اسکینڈل سوسائٹیز کے اسپیشل آڈٹ پر منتج

June 18, 2021

اسلام آباد (عمر چیمہ) یہ معاملہ کئی ہفتوں تک شہ سرخیوں کی زینت بنا رہا۔ کئی لوگوں کو عہدوں سے ہٹایا گیا، اینکرز اور تجزیہ کار اسے بڑے مئسلے کا چھوٹا پہلو قرار دیتے رہے، افواہوں کا بازار گرم رہا اور اسے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے افردا کے درمیان رسہ کشی قرار دیا جاتا رہا۔ ایسا دکھایا گیا کہ حکومت کرپشن بالکل برداشت نہیں کرے گی۔

لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، تفصیلات سامنے آتی گئیں، راولپنڈی کا رنگ روڈ پروجیکٹ اسکینڈل چائے کی پیالی میں طوفان ثابت ہوا۔ صورتحال سے آگاہ سرکاری عہدیداروں کے ساتھ ہونے والی پس پردہ بات چیت سے معلوم ہوا ہے کہ اس کی بنیاد کاروباری رقابت اور ذاتی مفادات کا ٹکراؤ تھا جس کے باعث معاملہ بگڑ گیا۔

’’کیا آپ جانتے ہیں کہ اس تبدیلی کے نتیجے میں کس نے اربوں روپے کمائے‘‘، یہ وہ الفاظ تھے جنہوں نے اُس اسکینڈل کی بنیاد رکھی جو آگے جا کر مختلف واقعات پر منتج ہوا۔ راولپنڈی کے کمشنر کیپٹن (ر) محمد محمود کو اسلام آباد طلب کیا گیا۔ اپنے عہدے کی مناسبت سے وہ رنگ روڈ پروجیکٹ کے سربراہ بھی تھے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کس کے کہنے پر الائنمنٹ تبدیل کی گئی۔

محمود نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ایسا کچھ بھی کسی بھی طرح کے مفادات کے زیر اثر کیا گیا ہے۔ وہ اپنی بات میں غلط نہیں تھے کیونکہ تبدیلیاں کنسلٹنٹ کی سفارشات اور اس کے بعد پلاننگ اینڈ ڈویلپنٹ ڈپارٹمنٹ اور کابینہ کی منظوری سے کی گئی تھیں۔

اسی طرح، رنگ روڈ پروجیکٹ کے اسلام آباد میں آنے والے حصوں کے حوالے سے فیصلے سی ڈی اے کی مشاورت کے ساتھ کیے گئے تھے۔ تاہم، کمشنر کے الفاظ کا ترجمہ غلط کیا گیا۔ ان کی تشریح اس انداز سے کی گئی کہ جیسے کوئی تبدیلی ہوئی ہی نہیں جبکہ انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے کوئی بھی تبدیلی کسی کے دبائو میں آ کر نہیں کی۔

ان کے دعوے کی سچائی معلوم کرنے کیلئے انکوائری بٹھائی گئی۔ انکوائری وزیراعظم کے قریبی تین عہدیداروں نے کی۔ ان کے اخذ کردہ نتیجے کے مطابق تبدیلیاں ہوئیں۔ یہ ایسی سچائی تھی جس سے کمشنر نے انکار نہیں کیا۔ تاہم، انہیں غلط فہمی کی بناء پر جھوٹا قرار دیدیا گیا کہ الائنمنٹ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی؛ حالانکہ انہوں نے ایسا کہا ہی نہیں تھا۔

بعد میں کمشنر کو ہٹا کر ان کی جگہ سید گلزار حسین کو لگایا گیا جنہیں الیکشن کمیشن کی ہدایت پر گجرانوالہ سے تبدیل کیا گیا تھا کیونکہ ڈسکہ الیکشن دھاندلی کیس میں انہیں قصور وار قرار دیا گیا تھا۔ اس وقت کے ایڈیشنل کمشنر کو آرڈینیشن جہانگیر احمد، اس وقت کے ڈپٹی کمشنر کیپٹن (ر) انوار الحق کو فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا حصہ بنایا گیا۔

ان دونوں نے اُس بات سے اتفاق نہیں کیا جس کا دعویٰ گلزار نے کیا، یہ اقلیتی رپورٹ تھی۔ بالآخر دونوں ارکان کا دیگر چار دیگر افسران کے ہمراہ تبادلہ کر دیا گیا جس میں ڈپٹی کمشنر اٹک بھی شامل تھے۔

اسی دوران ذلفی بخاری نے صورتحال کی وضاحت پیش کی کیونکہ گلزار نے انہیں بھی اپنی رپورٹ میں شامل کر لیا تھا۔ وہ اپنے ہمراہ محمود کو لیکر اسلام آباد آئے اور اس کے بعد جو ہوا وہ ایک برا واقعہ تھا۔ یہاں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کیخلاف ایک دستاویز پیش کی گئی، وزیراعظم ان پر بہت زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔

ان کیخلاف پیش کردہ معلومات مکمل طور پر درست نہیں تھی۔ دیگر باتوں کے دوران، محمود نے ان کا تعلق شہزاد کے قریبی ساتھی عارف رحیم سے جوڑنے کی کوشش کی جو پہلے راولپنڈی میں خدمات انجام دے چکے تھے اور دوبارہ پوسٹنگ چاہتے تھے۔ دستاویز میں تجویز دی گئی تھی کہ شہزاد اکبر اور عارف کے درمیان تعلقات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ قریبی رشتہ دار ہیں۔ یہ غلط بات تھی اور اس لئے دستاویز مسترد کر دی گئی۔

چونکہ ذلفی اپنے ہمراہ محمود کو لیکر آئے تھے اسلئے دستاویزات کے مضمرات ان کیلئے بھی تھے۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے طاقتور افراد کے ساتھ بڑھتے تعلقات اسلام آباد میں بے چینی کا سبب بن رہے تھے۔

ان سے کہا گیا کہ وہ بے بنیاد دستاویز کی ذمہ داری قبول کریں اور مستعفی ہوجائیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ رنگ روڈ اسکینڈل کے حوالے سے واقعاتی شواہد ابھی تک نہیں ملے۔ گلزار رپورٹ کے بعد تبدیل ہونے والوں پر باضابطہ طور پر کوئی الزام عائد نہیں کیا۔ آگے بڑھنے کا ایک راستہ راولپنڈی کی تمام ہائوسنگ سوسائٹیز کا اسپیشل آڈٹ کرانا رہ گیا ہے اور یہ ذمہ داری ڈی جی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب کو دی گئی ہے۔

اتفاق کی بات ہے کہ محمود کے دور میں ایک بھی سوسائٹی کی منظوری نہیں دی گئی۔ ایک بیوروکریٹ کا کہنا تھا کہ بیوروکریسی میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ جو سمجھا گیا تھا ویسا ثابت نہیں ہوا، تب اسپیشل آڈٹ کرایا جاتا ہے۔ یہ اُس اسکینڈل کا نتیجہ ہے جو شروع تو الائنمنٹ میں تبدیلی سے ہوا تھا لیکن ختم سوسائٹیز کے اسپیشل آڈٹ پر ہوا ہے۔