یہ اسمبلی!

June 19, 2021

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ قومی اسمبلی اس طرح منتخب ہوئی ہے جس طرح ماضی کی اسمبلیاں منتخب ہوا کرتی تھیں اور نہ یہ اس طرح چل رہی ہے، جس طرح کہ ماضی کی اسمبلیاں چلا کرتی تھیں۔

مثلا ًماضی کی اسمبلیوں کے لئے جب(مارشل لائوں کے دور میں نہیں جمہوری ادوار میں) انتخاب ہوا کرتا تھا تو سب سیاسی جماعتوں کو انتخاب میں حصہ لینے کے یکساں مواقع (لیول پلیئنگ فیلڈ) مہیا کیا جاتا تھا لیکن اس اسمبلی کے انتخاب سے قبل عدلیہ، نیب اور میڈیا کو پوری ریاستی قوت کے ساتھ پی ٹی آئی کے حق میں اور دیگر جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ(ن) کے خلاف پوری قوت کے ساتھ استعمال کیا گیا۔ پی ٹی آئی مخالف جماعتوں کے ہاتھ پائوں باندھے گئے، الیکٹ ایبلز کو دبائو ڈال کر پی ٹی آئی میں شامل کروایا گیا اور پھر انتخابی میدان سجایا گیا۔

مقامی سطح پر دھاندلی ماضی کے انتخابات میں بھی ہوا کرتی تھی لیکن قومی سطح پر اس کا اہتمام صرف گزشتہ انتخاب میں دیکھنے کو ملا ۔ ماضی میں کوئی انتخاب ایسا نہیں ہوا کہ جس میں ووٹوں کی گنتی پولنگ ایجنٹوں کی عدم موجودگی میں ہوئی ہو لیکن یہ پاکستانی تاریخ کے پہلے انتخابات تھے کہ جن میں جہاں ضروری سمجھا گیا ، پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال کر ان کی عدم موجودگی میں ووٹوں کی گنتی کی گئی۔

گنتی کے دوران بعض سیٹوں پر گڑبڑ کی شکایات ماضی میں بھی سامنے آتی رہیں لیکن ان انتخابات میں پہلی مرتبہ یہ مظہردیکھنے کو ملا کہ بعض جگہوں اور بالخصوص بلوچستان، پختونخوا اور کراچی میں تیسرے نمبر پر آنے والوں کو کامیاب ڈکلیئر کیا گیا اور پہلے نمبر پر آنے والوں کو ناکام ۔

بلکہ تجزیہ کیا جائے تو پی ٹی آئی کے موجودہ ایم این ایز میں آپ کو ایک خاص رجحان نظر آئے گا۔ جو لوگ تیسرے نمبر پر آئے تھے لیکن آر ٹی ایس کے فیل ہوجانے کی برکت سے کامیاب ڈکلیئر کئے گئے ، ان کے رویے میں زیادہ جارحیت نظر آتی ہے ۔ جو دوسرے نمبر پر آئے تھے اور کامیاب ڈکلیئر کئے گئے، ان کا رویہ درمیانہ ہے لیکن جو لوگ پرویز خٹک اور اسد قیصر وغیرہ کی طرح سچ مچ الیکشن جیتے تھے، ان کا رویہ مناسب رہتا ہے ۔

اسی طرح ماضی کی اسمبلیوں کے انتخابات کے بارے میں بھی ایک آدھ جماعت دھاندلی کا الزام لگاتی رہی لیکن یہ وہ اسمبلی ہے کہ جس کے انتخاب کو صرف مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی نے ہی نہیں بلکہ حکومت میں موجود ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) نے بھی جعلی قرار دیا تھا۔

یہ واحد انتخابات تھے جن کے نتائج کو پی ٹی آئی کے سوا باقی سب جماعتوں نے تسلیم نہیں کیا۔ویسے تو ماضی کی اسمبلیاں بھی زیادہ بااختیار نہیں رہیں لیکن اختیارات کے لحاظ سے یہ اسمبلی سب سے زیادہ بے اختیارسمجھی جارہی ہے ۔ اس اسمبلی کو قانون سازی کا مواد کہیں اور سے تیار شکل میں ملتا ہے اور پھر پروسیجر بلڈوز کرکے اسے کہیں اور سے ملنے والے حکم کے مطابق پاس کیا جاتا ہے ۔

اسی طرح یہ واحد اسمبلی ہے کہ جس کی حکومت ہی نہیں بلکہ اپوزیشن کو بھی کہیں اور سے چلایا جارہا ہے ۔ مثلاً فیٹف کی قانون سازی ہو یا دیگر اہم معاملات کی ، اس کے لئے اپوزیشن کے ممبران کے ساتھ خفیہ اجلاس اسمبلی بلڈنگ میں نہیں بلکہ کہیں اور رات کی تاریکی میں کئے جاتے ہیں ، پھر اسی تناظر میں اسپیکر کو ہدایات ملتی ہیں ۔

ماضی کی اسمبلیوں میں اسپیکر طے کرتا تھا کہ کس وقت کس کو فلور دینا ہے لیکن یہ ایسی اسمبلی میں ہے جس میں عملاً اسپیکر کے پاس یہ اختیار نہیں ۔ یہاں عمران خان یہ طے کرتے ہیں کہ اگر اپوزیشن سے فلاں بندہ خطاب کرے تو اس کے بعد مراد سعید کو فلور دینا ہوگا اور فلاں کرے تو اسد عمر کو فلور دینا ہوگا جبکہ اسپیکر اس سے سرِموانحراف کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ اسی طرح ماضی کی اسمبلیوں کےا سپیکرز سب کو ایک نظر سے دیکھا کرتے تھے لیکن موجودہ اسمبلی کے اسپیکر کی آنکھیں بعض لوگوں کے حوالے سے شاید کام چھوڑ دیتی ہیں۔

لڑائی جھگڑے ماضی کی اسمبلیوں میں بھی ہوجاتے تھے لیکن ماں بہن کی گالی جس طرح اس اسمبلی کے اندر دی جاتی ہے، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ۔ جس عمارت کے اوپر کلمہ طیبہ کی مبارک عبارت تحریر ہے لیکن اس کے اندر مائوں بہنوں کو گالیاں دی جاتی ہیں ۔ اس لئے میں نے مطالبہ کیا کہ جب تک اس پارلیمنٹ کے اندر یہ سب کچھ ہوتا ہے تو اس کی بلڈنگ سے کلمہ طیبہ کی وہ عبارت ہٹا دی جائے۔

سابقہ اسمبلیوں میں بھی بعض اوقات ہلڑبازی ہوجاتی تھی لیکن ان میں یہ کام صرف اپوزیشن کیا کرتی تھی، یہ پاکستان کی تاریخ کی پہلی اسمبلی ہے جس میں یہ کام حکومتی ارکان بھی کرتے ہیں ۔ یہ نظارے پہلی مرتبہ دیکھنے کو ملے ہیں کہ حکومتی اراکین اور وزرا سیٹیوں کے ساتھ اسمبلی میں آتے ہیں اور حکومتی وزرا بجٹ تقریر کی کتابیں جن میں قرآنی آیات اور اللہ کے پاک نام بھی تحریر ہوتے ہیں، اپوزیشن بنچوں کی طرف اُچھالتےہیں ۔

اسی طرح ماضی کی اسمبلیوں میں بھی بعض ممبران ذاتی حیثیت میں آپے سے باہر ہوکر ماحول خراب کرتے تھے لیکن یہ پہلی اسمبلی ہے جس میں حکومتی اراکین اپنے قائد کی ہدایت پر پوری تیاری کے ساتھ اس نیت سے ہال میں آتے ہیں کہ اپوزیشن لیڈر کو تقریر نہیں کرنے دیں گے ۔

ویسے تو یہ اسمبلی کئی حوالوں سے منفرد ہے لیکن سب سے انوکھا پہلو اس کا یہ ہے کہ اس کے بطن سے جنم لینے والی حکومت کا رویہ اپوزیشن والا ہے اور اس کے برعکس اپوزیشن کا رویہ کسی بھی حوالے سے اپوزیشن والا نہیں ۔ جن کو حکومت دلوائی گئی ہے ،ان کو حکومت کرنا نہیں آتی اور جن کو اپوزیشن میں دھکیلا گیا ہے ، ان کی کوئی ادا اپوزیشن والی نہیں۔ بلکہ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسا نظام ہے کہ جس میں حکومت ہے اور نہ اپوزیشن بس ملک اللہ کے سہارے چل رہا ہے۔