پھر سرمائے اور غربت کی عالمی جنگ

June 19, 2021

قارئین کرام! عالمی حالات حاضرہ کے فقط ایک ماہ کے بنے خبری ریکارڈ پھر مزید خبروں، تحزیوںاور تبصروں کی شکل میں جاری اس کے مخصوص صحافتی فالو اپ نے عالمی سیاست کی تفریق نو اور اس کے بیشتر رازوں پر سے بالآخر (مکمل ہی)پردہ اٹھا دیاہے۔ گزشتہ دوسال میں دنیا میں بنیادی انسانی حقوق کا سب سے بڑا بلڈوز مقبوضہ و محصور کشمیر میں ہوا۔ ازالہ تو ایک طرف اسے روکنے میں بھی (عالمی معاشرے تو نہیں) ’’گلوبل پالیٹکس‘‘ کی مکمل ناکامی، پھر ووٹ سے مذہبی بنیاد پرست بنے بھارت کو محصور کشمیر میں رہی سہی آزادی و حقوق کو فوجی طاقت سے مکمل کچلنے کی کھلی آزادی کا دو سالہ پس منظر لئے عالمی سیاست اور مخصوص علاقوں میں جو واقعات ہوئے، ان کے تناظر میں بغیر اعلان کے ابتدائی نوعیت کے انوکھے اور اختراعی ’’طریقہ ہائے جنگ‘‘ کو تقریباً بے نقاب کردیا ہے۔

متذکرہ عالمی ماحول تشکیلپانے سے قبل چین کی ’’بے قابو‘‘ ترقی اور سرحدوں سے باہر بیجنگ کے پرامن عالمی معاشرے کےلئے مکمل قابل قبول و قانونی تیز تر ہوتے اقتصادی پھیلائو نے دو بڑی جمہوریتوں امریکہ اور بھارت کو سخت پریشان کردیا ۔ تحقیق سے باآسانی مکمل ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ امر بہت دلچسپ ہے کہ آزاد مغربی جمہوریتوں اور خود چین کی اپنی غیر معمولی سرمایہ کاری سے چین میں شروع ہونے والا عالمی انقلابی صنعتی پیداواری عمل اور اس کی پروڈکشن کا چلی سے لے کر ناروے اور روس سے لے کر کینیڈا و امریکہ اور کریبین آئی لینڈ تک سیلِ رواں، جدید مغرب کی جمہوریت کے بعد دوسری بڑی نظریاتی بنیاد، آزاد معیشت (فری انٹرپرائز)کی غیر علانیہ، لیکن مکمل اور عملاً پیروی ہے۔ چین خود تو اس کا حیرت انگیز اور پوری دنیا ،خصوصاً عالمی متوسط اور غریب آبادی اس کی بڑی بینی فشری بنی، بدستور ہے اور رہے گی۔ دنیا کے بڑے بڑے ماہرین معاشیات، انٹرنیشنل ٹریڈرزاکنامک تھنک ٹینکس اور پرچون فروشوں (ریٹلرز) کا عالمی نیٹ ورک اس پر مکمل متفق ہے کہ اب چین کی تین عشرے سے جاری کم قیمت اشیائے صرف (اور اب تو کسی حد تک خوراک بھی) کی جاری و ساری سپلائی چین کو روکنا ممکن ہی نہیں رہا۔ یہ فقط عام سپلائی چین نہیں، ہزاروں قابلِ برداشت اشیائے صرف پر مشتمل مصنوعات کا ایسا سیلاب ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا، نہ لے گا، خواہ چین انٹرنیشنل ٹریڈ کے مقابلے میں ترقی یافتہ مغرب سے کتنا ہی آگے نکل جائے۔ ایسے میں عالمی معاشرے کی قوت خرید میں ہونے والے اضافے کو ڈسٹرب کرکے کسی بھی حربے سے کوئی بند باندھنے کی حماقت کی گئی تو یہ بند باندھنے والے ممالک کو سیاسی عدم استحکام میں بھی مبتلا کردے گا۔ اس کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ستمبر 2011 میں نیو یارک کے فنانشل ........ ’’وال سٹریٹ‘‘ پر امریکہ بھر کے لاکھوں غرباء کی ’’آکوپائے وال سٹریٹ موومنٹ‘‘ کے ریویو میں جانا ہوگا کہ دسیوں لاکھ ہوم لیس اور غریب امریکیوں کی بھرپور تائید و حمایت سے شروع ہونے والی یہ تحریک کتنی جاندار تھی اور اسے کس طرح بازو مروڑ کر جملہ حربوں سے ختم کیا گیا۔ ا س سے بھی قبل اور بعد، جی سیون اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اجلاس کے موقع پر امریکی و یورپی شہریوں کے مظاہروں کی کرونولوجی، ان تنظیموں کے پروکیپٹل ایجنڈے پر مغرب سمیت عالمی سطح پر بڑھتی غربت کی عکاس نہیں؟ چینی مصنوعات کی بے قابو عالمی سپلائی چین میں مسلسل اضافہ اور سرمایہ دار طاقتوں کی پروردہ حکومتوں پر اس کا دبائو،عالمی فلاح و سلامتی کے نام پر بنے اقتصادی و عسکری نوعیت کے ایسے ’’انٹرنیشنل‘‘ اور علاقائی ارینجمنٹس (ورلڈ بینک، نیٹو، آئی ایم ایف،جی سیون، کواڈ، ایف اے ٹی ایف وغیرہ) کے منیجرز کے لئے اس پریشان کن سوال کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ہے، لیکن یہ جواب کھلے دل سے دینا ان کے لئے ممکن نہیں، تاہم یورپی یونین کے کبھی کسی ملک سے اس ’’ہاں‘‘ کی لیکیج ہو جاتی ہے، اور وہ اپنے اصلی عوام کے چینی مال پر انحصار کی مجبوری کو ’’ان اے وے‘‘ واضح کرہی دیتے ہیں۔ ایک بڑا سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کم از کم ایک سو سال سے اعلیٰ درجے کی نتیجہ خیز دماغ سوزی (برین سٹارمنگ) کی ادارہ سازی جس میں پوسٹ وار ایرا میں یکدم بڑی تیزی آئی، کے باوجود تا دم ون پارٹی رول اور کمیونسٹ راج والے دنیا کے سب سے بڑے ملک کے اس ’’ہنی ٹریپ‘‘ میں کیسے پھنس گیا؟ اس کا حقیقی جواب، جسے مغرب کے لئے ، اندر سے مانتے ہوئے بھی ماننا آسان نہیں، یہ ہے کہ چین کی بےقابو عالمی سپلائی چین، ہنی ٹریپ ہے ہی نہیں، اس کی اپنی اصلیت، حقیقت اور سچائی ہے۔ جس کا تعلق اقوام کی کیپسٹی بلڈنگ کے حق اور گنجائش سے ہے جو سرحدوں سے نکل کر بغیر کس اعتراض اور سرکار و عوام کی مکمل قبولیت سے دوسرے ممالک میں داخل ہو کر ان کا بینی فشری بنا ہے۔ اس پر اور سوچا اور سمجھا جائے تو بات مثبت عالمگیریت (گلوبلائزیشن) سے جڑ جاتی ہے، جس کا چرچہ مغرب سے ہی ہوا، وہ ہی اس کے ابلاغ و تبلیغ کا مرکز بنا۔ اس میں ارادی طور پر مغربی غلبے کا کھوٹ آنے لگاتو مشکوک ہوگیا۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی حقیقت کا زاویہ نگاہ یہ بھی بنا کہ یہ چین کی بڑھتی پھیلتی سپلائی چین کو محدود کرنے کی مغربی کوشش ہے جس کا دائرہ عالمگیر قرار پایا۔ چین نے اسے باآسانی ہضم کیا اور بڑی تعداد میں ممالک پر ہمہ جہت کڑی پابندیوں کے باوجود یہ ’’مقررہ اہداف‘‘، چین میں غیر ملکی سرمایہ کاری رکھی، اس کی اکنامک گروتھ نہ سپلائی چین بلکہ اکنامک کے سیدھے سادے اصولوں پر ان کا گراف بڑھتا ہی گیا۔

امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے مہم جو سیاست دان کا امریکی صدر بننا کارپوریٹ فورسز کا سیاست میں کمال جادو تھا جو امریکہ جیسے آزاد اور عوامی سطح پر نسلی تعصب سے پاک معاشرے میں اپنا کام دکھا گیا، اور پھر بھارت میں سرچڑھ کر بولا۔ میڈیا سمیت ہر طرح کی سائنس پیسے سے خرید کر مطلب کے سیاسی اہداف پوری طرح حاصل ہی نہیں کئے گئے، ہر دو بڑی جمہوریتوں کی سیاسی کایا بحق کارپوریٹ سیکٹر پلٹ دی گئی۔ وہ سرمایہ کار، چین کی سرمایہ کاری و سرمایہ داری جن کے لئے عذاب بنتی جا رہی ہے۔ (جاری ہے)