چین کی ویکسین ڈپلومیسی

June 19, 2021

فروری 2021 میں عالمی ادارۂ صحت نے چینی کمپنیوں کی تیار کردہ ویکسین سائنوفارم کی کورونا کی مدافعتی ویکسین کے طور پر منظوری دے دی۔ اس منظوری سے پیشتر ہی چینی حکومت نے دوست ممالک کو کورونا ویکسین، ماسک اور کٹس کی فراہمی شروع کردی تھی، یہ دوست ممالک بنیادی طور پر درمیانی یا کم آمدنی والے ممالک تھے۔ چینی حکومت ان شعبوں میں بھی اپنی اہمیت منوا رہی ہے جو مغربی اقوام کا خاصہ رہے ہیں۔ چینی طبی صنعت اب صرف ادویہ سازہی نہیں بلکہ تحقیق و ترقی کا مرکز بھی بن چکی ہے۔ تجزیہ نگار اور علاقائی حکمت عملی کے ماہرین اسے سفارت کاری کا نیا رجحان قرار دے رہے ہیں جسے’’ ویکسین ڈپلومیسی‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ علاقائی تسلط کے لیے وسعت پذیر سپر پاور اپنی ویکسین کو بہتر طور پر استعمال کررہی ہے۔ اس رجحان کے نتائج مستقبل قریب میں سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔

سائنوفارم ویکسین کے عطیات صرف فطری انسان دوست جذبات کے مظہر نہیں بلکہ چین کے سیاسی مقاصد کے حصول کا بھی ذریعہ ہیں۔ 2020 میں جب وبائی امراض پھیل رہے تھے، ہندوستان ڈھاکہ کوکورونا ماسک اور کٹس فراہم کررہا تھا ۔ بعد ازاں یہ فراہمی چین سے ہونے لگی۔ جب ویکسینز آئیں توہندوستان ہی بنگلہ دیش کو آسٹرازینیکا ویکسین کا فراہم کنندہ تھا، لیکن جیسے ہی بھارت میں وبا کے پھیلائو میں تیزی آئی اور سپلائی متاثر ہوئی تو آسٹرا زینیکا کی جگہ چین نے بنگلہ دیش کو سائنوفارم عطیہ کرنا شروع کر دی۔ بنگلہ دیش حکومت نے بخوشی یہ عطیات قبول کیے اور ویکسی نیشن کا آغاز کر دیا، بنگلہ دیش میں نجی دواساز کمپنیوں نے سائنوفارم ویکسین خریدنے میں پہلے ہی دلچسپی ظاہر کررکھی تھی۔جب یہ سپلائی شروع ہوئی تو چین نے اپنی اعانت کے بدلے بنگلہ دیش کو چین مخالف کواڈ الائنس کے کسی بھی منصوبے سے دور رہنے کی تنبیہ کر دی۔ کواڈ بنیادی طور پر امریکہ، ہندوستان، آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل چین مخالف اتحاد ہے۔ چینی حکومت کے اس بیان پر بنگلہ دیش کی حکومت کسی حد تک سٹپٹائی لیکن پھر بھی اس نے ویکسی نیشن جاری رکھی۔ اب تک، چین بنگلہ دیش کو تقریباً چھ لاکھ ویکسین کی خوراکیں مفت فراہم کر چکا ہے۔

سری لنکا کا معاملہ بھی کم و بیش ایسا ہی ہے۔ ہمبنٹوٹا بندرگاہ واقعہ سے کشیدہ تعلقات کے بعد، چینی حکومت نے سری لنکن عوام کو مثبت پیغام دینے کے لیے سائنو فارم کو بطور عطیہ استعمال کیا۔ سری لنکن حکومت کے پاس بڑھتے ہوئے انفیکشن کے پیش نظر یہ عطیہ قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ڈبلیو ایچ او کی منظوری سے سربراہان مملکت کو پالیسی معاملات میں فیصلہ سازی کی سہولت رہی ۔ اسی طرح ماسک، کٹس اور آکسیجن سلنڈر باہمی معاہدے کے تحت بیجنگ اور کولمبو کے مابین تعلقات کی بحالی کا باعث بنے۔ لیکن سری لنکا کے اندر سے بہت سی آوازیں بلندہوتی رہیں کہ یہ عطیات بلا قیمت نہیں ہیں۔ سری لنکا بیلٹ اینڈ روڈ میری ٹائم پروجیکٹ کا ایک حصہ ہے مستقبل میں، چین سری لنکا حکومت سے وبائی مرض کے متوقع خاتمے سے پیشتر ہی اپنے مفادات کے متعلق مطالبات پورا کروانے کی پوزیشن میں آ جائے گا۔ افغانستان میں انتقامی جذبات کے ساتھ طالبان پھر زور پکڑ رہے ہیں۔ امریکی فوج کا نومبرتک انخلاہو رہا ہے جبکہ چین پہلے ہی اپنا راستہ ہموار کر چکا ہے۔کورونا میں بنگلہ دیش کی طرح افغانستان کے لئے ابتدائی مدد ہندوستان سے آئی تھی لیکن اب طبی سامان اور ویکسی نیشن کا سب سے بڑا برآمد کنندہ چین ہے۔ سائنو فارم کی چارلاکھ خوراکوں کا عطیہ کابل پہنچا ، کابل میں نجی کمپنیاں پہلے ہی چینی کمپنیوں کو ویکسین فراہمی کے لئے آرڈر دے چکی تھیں۔ افغانستان وسطی ایشیا اور خطے میں استحکام کا بنیادی مرکز ہے خطے میں چینی اثر و رسوخ کے لئے دو طرفہ تعلقات ناگزیر ہیں۔

پاکستان چین تعلقات دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ گرم جوش ہیں۔ چین میں یہ ویکسین شروع ہوتے ہی پاکستان میں سائنو فارم اور سائنو ویک ویکسین کی آزمائش شروع ہو گئی۔ تینوں بڑے شہروں لاہور، اسلام آباد اور کراچی نے آزمائشی خوراکیں وصول کیں، نتائج سامنے آنے کے بعد ڈبلیو ایچ او کی منظوری سے قبل ہی حکومت پاکستان نے عام لوگوں کی ویکسی نیشن شروع کر دی۔ سی پیک پر پہلے ہی تیزی سے کام چل رہا ہے پاکستان میں پی ٹی آئی حکومت نے معیشت کو سی پیک اور بی آر آئی منصوبوں کے ساتھ جوڑ دیاہے جس کا چینی حکام نے خیرمقدم کیا ہے۔ویکسی نیشن کی ایک بڑی مہم نے پاک چین تعلقات کو مزید تقویت بخشی ہے ۔کم آمدن والے ممالک کو جدید ترین طبی سہولتوںاور انفراسٹرکچرل منصوبوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے چین سے ہاتھ ملانے کی ترغیب ملی ہے۔ اب سیرل پاکستان’’ پاک ویک‘‘ کے نام سے پاکستان میں سائنو ویک تیار کررہی ہے جو چینی امداد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ پاکستان جنوبی ایشیا میں چینی اثر و رسوخ کا بنیادی محرک ہے اور چینی سفارت کاری ہر گزرتے دن اسے مضبوط کررہی ہے۔ امریکی اور یورپی اقوام ذاتی مفادات کی بدترین تحفظ پسندی میں مشغول ہیں جبکہ چین اپنی ویکسین ڈپلومیسی کے ذریعے کم آمدن والی ترقی پذیر معیشتوں کے لیے ویکسین سپلائر بن کر غالب آ رہا ہے۔ چین ایک طرح سے ترقی پذیر دنیا کا چیمپئن ہے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھارہا ہے۔ چینی حکومت نے ’’ویکسین ڈپلومیسی‘‘ کی اصطلاح کو بے بنیاد قرار دیا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی صحافی یا تجزیہ کار اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ صرف اپنے مفادات کے محافظ ممالک کے ایجنڈوں کے مقابلے میں انتہائی مطلوب اقدام ہے۔

چینی ویکسین ابMENA (مشرقِ وسطیٰ شمالی افریقی) ممالک میں جانے لگی ہے۔ نئی قومیں سائنو فارم اور سائنو ویک کی خریداری کے ذریعے بڑھتے ہوئے کورونا انفیکشن کی روک تھام کے لئے واحد قابل عمل آپشن استعمال کر رہی ہیں۔ مغربی ممالک ابھی تک اس چینی برتری کا مقابلہ نہیں کرپا رہے۔ چین عالمی رہنما اور غریب ممالک کا نجات دہندہ بن گیاہے ۔ اس کے مخالفین میںبے چینی پائی جارہی ہے۔ ہر لحاظ سے چینی ویکسین ڈپلومیسی کارگر ہو رہی ہے ۔ اگرچہ مغربی ممالک اس کو قرضوں کے جال یا سفارتی حربے سے تعبیر کر رہے ہیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ چینی ویکسین وہاں وہاں جانیں بچا رہی ہے جہاں اقوام متحدہ یا مغربی ممالک پہنچ ہی نہیں پا ئے۔ چین اپنی موجودگی کو محسوس کروارہا ہے۔ وبائی مرض بیجنگ کی کامیابی کی ایک اور کہانی لکھ رہا ہے۔

(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)