امید پر چھائے مایوسی کے بادل

June 19, 2021

ہم اس وقت افغانستان اور خطے میں امن کی واپسی کی امید لگائے انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیںجب افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاکے نتیجے میں ممکنہ طورپر تشدد بڑھنے کے خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں۔ایسے حالات میں فریقین کو انتہائی سمجھداری،دور بینی اور مخلصانہ ذہن کے ساتھ بات چیت کا ایسا راستہ اختیار کرنا چاہئے کہ درپیش ممکنہ چیلنجز سے کامیابی کے ساتھ نمٹاجا سکے۔

اس مقصد کے حصول کے لئے پاکستان، افغانستان اور دوحہ سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں، سفارتکاروں، سابق سفرا، ارکان پارلیمنٹ، سماجی شخصیات، معاشی ماہرین، علمائے کرام اور امن مذاکرات میں شامل فریقین کو اسلام آبادمیں منعقد ہونے والے ’’ٹریک۔ٹو‘‘ پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا گیاتاکہ یہ لوگ خطے میں پنپنے والی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لے سکیں اور آنے والے دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں نئے حالات کی سمت کا تعین کر سکیں۔ میں ابتدا میں ہی یہ کہتا چلوں کہ کانفرنس کے دوران اس بات کا زور دے کر اظہار کیاگیا کہ امن کے حصول کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اس کے ساتھ ہی فریقین نے اپنی اپنی سوچ کے مطابق بنیادی حقائق بیان کئے اور مفروضے پیش کئے جن میں سے بیشتر باہم متضاد نوعیت کے تھے۔’’مستقبل میں امن، شراکت داری اورترقی کی جانب پیشقدمی‘‘ کے تحت ہونے والی’’ ٹریک II‘‘کانفرنس میں چار ورکنگ سیشنز کا انعقاد ہوا جن میں افغانستان میں امن عمل سے جڑی امیدیں اور رکاوٹیں، افغانستان میں مستقبل میں خواتین کے کردار، معاشرتی نمو ، استحکام، پائیدار ترقی کے لئے معاشی شراکت داری اور پارلیمانی تعاون اور جمہوریت کے استحکام کے زمرے میں دوطرفہ تعلقات کو مضبوط ومستحکم کرنے سمیت امریکی افواج کے ا نخلا کے بعد پیدا ہونے والے ممکنہ حالات اور اس کے اثرات پر مندوبین نے اپنی اپنی سوچ کے مطابق کھل کر اظہار کیا۔

مذاکرات میں شرکت کرنے والے مندوبین کا تعلق پاکستان، افغانستان اور دوحہ سے تھا۔ دوحہ کے وفد میں چار خواتین فوزیہ کوفی، فاطمہ گیلانی، حبیبہ سورابی اور شریفہ زرمتی شامل تھیں جو اس افغان حکومتی وفد کا حصہ ہیںجو دوحہ میںطالبان کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان کے وفد میں خواتین ارکان پارلیمان حنا ربانی کھر ، شندانہ گلزار خان ، نفیسہ خٹک اور عندلیب عباس کے ساتھ سابق سفراء فوزیہ نسرین ، تسنیم اسلم اور رفعت مسعود شامل تھیں جبکہ افغانستان سے تعلق رکھنے والی خواتین مندوبین میں حسینہ سید ، حسیبہ عفت اور سحرہ کریمی شامل تھیںجنہوں نے مرد مندوبین کے ساتھ مل کر ان تمام حالات کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جو پائیدار امن کا راستہ ہموار کر سکتے ہیں ۔خیال کی بھول بھلیاں عبور کرنا مشکل ہوسکتا ہے لیکن بات چیت کے دوران ایک چیز ابھر کر سامنے آئی کہ تمام افغان مندوبین پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کوبہتر بنانے کے خواہاں ہیں ۔ ماضی کی تاریخ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اب بھی خدشات موجود ہیں جو اعتماد کی کمی کو فروغ دیتے رہتے ہیں لیکن اس کا ازالہ کرنے کی بھی خواہش موجود ہے کہ اس کے مستقل حل کا فارمولہ پیش کیا جانا چاہئے تاکہ کاروباری اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے سازگار ماحول پیدا ہو سکے اور ایک دوسرے کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں ۔ دونوں ہمسایہ ممالک کو اپنی اپنی حدود میں بھی امن کے قیام کے لئے مل جل کر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے افتتاحی خطاب میں مذاکرات کی سمت کے تعین پر روشنی ڈالی جو مثبت تنقید کے ساتھ ساتھ دوطرفہ تعلقات کی تشخیص کرنے میں بھی صاف ستھرے اور عملی لحاظ سے ممکنہ اقدامات پر مبنی ہو۔ انہوں نے مستقبل کی شراکت کے لئے معاہدے کی وضاحت کے خدو خال پیش کئے جو دونوں ممالک کو قریب لانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ وزیر خارجہ نے متنبہ کیا کہ افغان امن عمل میں کسی بھی خرابی یا ناکامی کی ذمہ داری پاکستان کسی طورپر قبول نہیں کرے گا بلکہ کسی بھی سطح پر ہونے والی ناکامی کی ذمہ داری افغانستان میں موجود تمام فریقین پر عائد ہوگی اور معاملات بگڑنے پر پاکستان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہئے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ پاکستان میں ’’طالبانائزیشن‘‘ کبھی نہیں ہوگی اور نہ ہی ہمارے لئے کوئی پسندیدہ فریق ہے۔ ہم طالبان کے نہ توحامی ہیں اور نہ ہی ان کی نمائندگی کرتے ہیں، طالبان افغانی ہیں اور افغانستان ان کا ملک ہے۔ انہوں نے افغان قیادت اور طالبان سے اپنے مؤقف میں لچک کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اب ان کے پاس وقت ختم ہو رہا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ وزیر اعظم عمران خان وہ پہلے رہنما تھے جنہوں نے برسوں قبل متنبہ کیا تھا کہ افغانستان میں تنازعہ کا کوئی فوجی حل نہیں ، انہیں ایسا موقف اختیار کرنے پر ’’طالبان خان‘‘ کے خطاب سے بھی موسوم کیا گیا لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ عمران خان کا موقف درست تھا جس پر آج پوری دنیا متفق ہے۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر بھی تبادلہ خیال ہوا ہے کیونکہ پوری دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ انتہائی جدید ،مسلح اورمہلک ترین ٹیکنالوجی سے لیس افواج بھی افغانستان میں امن قائم کرنے میںکامیاب نہیں ہو سکیں۔ اس موقع پر مندوبین کی جانب سے کئے گئے اظہار خیال میں دونوں فریقین کی طرف سے ایسے اقدامات پر زور دیا گیا جو افغانستان میں امن کے قیام میں مثبت پاکستانی کردار کی یقین دہانی کراتے ہیں۔ فریقین کے درمیان اس بات پر اتفاق پایا گیا کہ یہی وقت کا تقاضا بھی ہے کیونکہ غیر ملکی افواج کا 4 جولائی تک مکمل انخلاہوجائے گا لہٰذا اس سے قبل کہ امن عمل کی کاوشیں ایک بار پھر ضائع ہو جائیں اور تشدد، خونریزی ایک بار پھر سر اٹھانے لگے ، خطے کے وسیع تر مفاد میں فریقین کے درمیان کسی امن معاہدے پر اتفاق ہو جانا چاہئے۔

وزیر خارجہ نے پرزور انداز میں واضح کیا کہ پاکستان افغان معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا تاہم متحارب دھڑوں میں امن قائم کرانے کے لئے تمام اقدامات کی حمایت کرے گا۔ہم کسی پر دبائو ڈالیں گے اور نہ ہی معاملات میں مداخلت کریں گے، پاکستان صرف اور صرف افغانستان میں مستقل امن کے قیام کے لئے ایک مثبت کردار ادا کرتا رہے گا۔

(صاحب تحریر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)