لاہور، لاہور ہے!

June 19, 2021

لاہور کے شادی گھر

یوں تو لاہور میں بہت سے شادی گھر ہیں تاہم اُن میں مشہور ترین شادی گھر لاہور کے فائیو اسٹار ہوٹل ہیں، دوپہر اور رات کے اوقات میں یہاں بہت رش ہوتا ہے، اور کورونا کی پابندیوں میں نرمی کے بعد سے یہ سلسلہ پھر سے جاری ہے۔ یہاں باراتیوں کے علاوہ بھی دوسرے لوگ زرق برق کپڑے پہنے آتے ہیں اور کھانا کھا کر چلے جاتے ہیں۔ لڑکے والے سمجھتے ہیں یہ لڑکی والوں کے مہمان تھے اور لڑکی والے انہیں باراتی سمجھ کر اُن کی آئو بھگت کرتے ہیں۔ داتا دربار کے بعد یہ دوسری جگہ ہے جس کے لنگر سے روزانہ بیسیوں ’’مساکین‘‘ اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ اِن ’’شادی گھروں‘‘ میں ریستوران، ڈائننگ ہال اور رہائشی کمرے بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ کہلاتے تو ہوٹل ہیں تاہم عملی طور پر بطور شادی گھر ہی استعمال ہوتے ہیں۔

اخبارات

اخبارات کی تعداد اور اُن کی سرکولیشن کے لحاظ سے لاہور پاکستان کے تمام شہروں سے آگے ہے۔ لاہور سے جو اخبارات نکلتے ہیں اُن میں اہم سے اہم خبر کی سنگل کالمی پہلی سطر صفحہ اول اور باقی خبر بطور بقیہ اندرونی صفحات میں شائع ہوتی ہے چنانچہ قاری سارا وقت پہلے اور ساتویں صفحے کا پینڈا طے کرنے میں مشغول رہتا ہے اور یوں اخبار والے، خبر میں چھپی خفیہ قسم کی خبر سے اس کا دھیان ہٹانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لاہور سے شائع ہونے والے اخباروں میں کالی ریورسیں بہت نکالی جاتی تھیں۔ ریورسوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ کسی اخبار کو پیلی صحافت کا طعنہ دینا ممکن نہیں تھا،چنانچہ اسے کالی صحافت کہا جاتا تھا۔اخباروں کی شہ سرخیاں ’’دمادم مست قلندر’’، ’’جیڑا آ گیا میدان میں، ہے جمالو‘‘اور ’’اوئے تیری لاش نوں مچھیاں ای کھان گِیاں‘‘ قسم کی ہوتی ہیں جو بہت پسند کی جاتی ہیں۔ پولیس، کسٹم، ایف آئی اے، انکم ٹیکس، ایکسائز اور فضلِ ربی والے دوسرے محکموں کی طرح اخبار میں کام کرنے والوں کی تنخواہیں بھی بہت کم ہوتی ہیں البتہ کچھ عرصے سے بلیک منی کو وائٹ کرنے کے لئے بھی اخبارات نکالے جارہے ہیں جس سے ڈیسک پر کام کرنے والے کارکنوں کو پھر بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔

مذہبی جماعتیں

لاہور میں تمام مذہبی جماعتوں کے دفاتر موجود ہیں۔ اِن جماعتوں کا عہدیدار کوئی بھی باریش شخص ہو سکتا ہے۔ مذہبی جماعتیں لوگوں کی مذہبی تربیت کی طرف بہت توجہ دیتی ہیں چنانچہ مختلف اسٹیکرز چھپوا کر کاروں پر ان کے مالکوں سے پوچھے بغیر چسپاں کر دیئے جاتے ہیں، ان اسٹیکروں پر یا رسول اللہ، یا علی مدد یا اللہ مدد لکھا ہوتا ہے۔ دراصل ان اسٹیکروں سے مختلف فرقوں کی تبلیغ کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے۔ مذہبی جماعتیں مذہب کے فروغ کے علاوہ باقی تمام خدمات انجام دیتی ہیں۔

مساجد

استنبول کے بعد لاہور دوسرا شہر ہے جسے مساجد کا شہر کہا جا سکتا ہے۔مسجد کسی بھی خالی پلاٹ پر اس کے مالک کی مرضی کے بغیر بنائی جا سکتی ہے اور جب ایک دفعہ مسجد بن جائے تو کوئی مائی کا لال اس کے جائز یا ناجائز ہونے کے بارے میں لب کشائی نہیں کر سکتا۔ ان مسجدوں میں اہل محلہ کے اعصاب کو مضبوط بنانے کے لئے چاروں طرف لائوڈ اسپیکر لگا دیئے جاتے ہیں تاکہ کسی کافر ملک سے جہاد کی صورت میں عوام بموں کے دھماکوں سے پریشان نہ ہوں۔ ان لائوڈ اسپیکروں سے چندہ بھی طلب کیا جاتا ہےاور چندہ دینے والوں کے ناموں کا اعلان بھی ہوتا ہے۔ جو لوگ چندہ نہیں دیتے باقی تینوں لائوڈ اسپیکروں کا رخ بھی ان کے گھر کی طرف کر دیا جاتا ہے۔

پبلشنگ کے ادارے

لاہور میں بےشمار پبلشنگ کے ادارے ہیں چنانچہ کوئی بھی مصنف باآسانی اپنی کتاب شائع کرا سکتا ہے۔ پبلشر حضرات نے اس کے لئے بہت آسان طریقہ رکھا ہے یعنی مصنف کتاب کی اشاعت کے تمام اخراجات پبلشر کو ادا کر دیتا ہے چنانچہ اس کی کتاب شائع ہو کر مارکیٹ میں آ جاتی ہے۔ یہ پبلشر حضرات مصنف کو باقاعدہ رائلٹی بھی ادا کرتے ہیں اور یہ رائلٹی دس کتابوں کی صورت میں ہوتی ہے جو مصنف کی رقم سے شائع شدہ کتابوں میں سے دس کا پیکٹ بنا کر اسے پیش کر دی جاتی ہے۔

احتجاجی جلوس

لاہور میں احتجاجی جلوس بہت نکلتے ہیں، ان جلوسوں کیلئے حکومت نے شاہراہ قائداعظم کو مخصوص کیا ہوا ہے جہاں چند تاجر حضرات ’’ناجائز‘‘طور پر اپنی دکانیں سجائے بیٹھے ہیں اور ان جلوسوں کے موقع پر عموماً ان کی دکانیں لوٹ لی جاتی ہیں یا جلا دی جاتی ہیں۔ جلوس کے شرکاء قومی سلامتی کے تحفظ کے لئے بھی اگر کوئی جلوس نکالیں تو قومی املاک کو ضرور نذر آتش کرتے ہیں۔شاہراہ قائداعظم پر جب کوئی احتجاجی جلوس نمودار ہوتا ہے، ٹریفک پولیس، ٹریفک کا رخ اردگرد کی گلیوں میں موڑ دیتی ہے اور اس کے بعد بیلٹ ڈھیلی کر کے ٹوپی اتار کر بھنگیوں کی توپ پر بیٹھ جاتی ہے اور سگریٹ کے کش لگانے لگتی ہے البتہ امریکہ کے خلاف نکالے جانے والے جلوسوں کو منتشر کرنا بہت آسان ہے، اس کیلئے ٹریفک کو گلیوں میں موڑنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اس موقع پر اگر میگافون کے ذریعے صرف یہ اعلان کر دیا جائے کہ جو حضرات امریکہ کا ویزہ لینے کے خواہشمند ہوں وہ ایک طرف ہو جائیں تو اس کے بعد جلوس میں جو چیز نظر آئے گی اسے آسان اردو میں بھگدڑ ہی کہا جاتا ہے۔