نیا بجٹ، حکومت سے زیادہ اپوزیشن کا امتحان

June 19, 2021

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے پی ٹی آئی حکومت کا مالی سال 21/22کا بجٹ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کے روایتی ہنگامہ خیز ماحول میں پیش کیا، ان کے تقریر کے انداز سے 30-35سال پہلے والے شوکت ترین کی جھلک نظر آ رہی تھی جب پاکستان کے شوکت ترین اور شوکت عزیز سٹی بینک کے برانڈز تھے اور سٹی بینک کو پاکستان کی بینکاری کی ان شخصیات پر فخر تھا۔ شوکت عزیز بھی پاکستان میں اپنا وقت گزار کر گئے۔ ایک زمانے میں ان کی خواہش اور کوشش تھی کہ وہ اسٹیٹ بینک کےگورنر کے منصب پر پہنچ جائیں پھر اللّٰہ تعالیٰ نے ان پر کرم کیا اور وہ پاکستان کے وزیر خزانہ اور پھر پانچ سال وزیراعظم بھی رہے۔ ان کے مقابلے میں شوکت ترین نے کبھی ایسے کسی عزم کا اظہار نہیں کیا لیکن بطور وزیر خزانہ ان کی تقریر کے بعد کبھی نہ کبھی ان کا نام نگران وزیراعظم کے طور پر سامنے آ سکتا ہے اس لئے کہ جس اعلیٰ حکمت عملی سے انہوں نے IMFاور دیگر عالمی اداروں کو ناراض کئے بغیر پاکستان کا نیا بجٹ پیش کیا ہے اسے PTIحکومت کا 2023کے انتخابات یا 2022کی دوسری سہ ماہی یا تیسری سہ ماہی میں متوقع قبل از وقت انتخابات کے پلان کے پس منظر میں انتخابی بجٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ بجٹ کی تیاری میں ہماری اس بیوروکریسی نے کمال سمجھداری سے متوازن اور کم سے کم متنازعہ بجٹ تیار کیا ہے جس میں کیڑے نکالنے یابڑے تنقیدی پوائنٹس نکالنے کیلئے اپوزیشن کو خاصی محنت کرنا پڑے گی اس لئے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے لئے یہ بجٹ واقعی بڑا چیلنج تھا اس لئے کہ اس سے پہلے حکومتی دعوئوں کے برعکس اپوزیشن بڑے مضبوط دلائل کے ساتھ ان کی نفی کر رہی تھی۔ اب قومی اسمبلی میں حکومت سے زیادہ اپوزیشن کا امتحان ہے کہ وہ بجٹ کے کن پہلوئوں کو پکڑتی ہے جن کی بنیاد پر ان کے اپنے بیانات کے مطابق نااہل حکومت عوام کی بھلائی کا کوئی کام کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پچھلے ایک عرصہ سے یہ راگ الاپا جا رہا تھا، اب PTIحکومت نے بڑی ہوشیاری سے ایک ایسا بجٹ پیش کرنے کی کوشش کی ہے جسے سمجھتے سمجھتے نئے مالی سال کے بجٹ کا وقت آ جائے گا۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا متوازن بجٹ پیش کرنے کے بعد PTIحکومت کوئی نیا منی بجٹ (کم از کم دو سے تین)نہیں لائے گی تو اس کا جواب ہماری ناقص رائے میں منفی میں ملے گا اس لئے کہ انتخابی ضروریات اور تقاضوں کے بجٹ اور حقیقی اقتصادی مسائل کے پس منظر میں بنائے گئے بجٹ میں خاصا فرق ہوتا ہے۔ موجودہ بجٹ کے اعلانات میں زیادہ تاثر انتخابی بجٹ کا ملتا ہے جس سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت وقت سے پہلے ہی عام انتخابات کا اعلان کر دے اس بارے میں اگلے چند ماہ اہم ترین ہوں گے اس کے ساتھ ساتھ اب دیکھنا ہے کہ یہIMFکے حکام اس بجٹ کو کیسے دیکھتے ہیں ان کا چند ہفتوں میں پاکستان آنے والا وفد کیا رائے قائم کرتا ہے اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے اس وقت وزیر خزانہ شوکت ترین کو بہرحال مبارکباد دینی چاہئے کہ وہ IMFاور بیوروکریسی کے دبائو کے باوجود ایک متوازن بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اب بال وزیراعظم عمران خان کے کورٹ میں ہے کہ وہ اس بجٹ پر عمل کیسے کرتے ہیں اور دوسری طرف اپوزیشن کا بھی امتحان ہے کہ وہ بجٹ میں کون کون سے منفی پوائنٹس نکال کر عوام کو حقائق سے کس طرح آگاہ کرتی ہے؟ اس سارے کھیل میں 25اور 28جون کے درمیان بجٹ پاس بھی کروا لیا جائے گا اور پچھلے سال کی طرح چند دن گرما گرم احتجاج اور تقاریر کے بعد اچانک ہی کچھ ہو جائے گا اور حکومت بجٹ پاس کرانے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔