اور اب بلوچستان اسمبلی!

June 20, 2021

قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے ابتدائی تین دنوں میں جو طوفان بدتمیزی برپا رہا‘ ابھی ایک مدت تک اُن ہی کے ناخوشگوار اثرات سے چھٹکارا مشکل نظر آرہا تھا کہ گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے موقع پر ایسامعرکہ کارزار برپا ہوا جس نے ہر باشعور پاکستانی کو سخت تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ بجٹ اجلاس سے کئی دن پہلے ہی سے حالات سخت کشیدہ تھے۔ اپوزیشن ارکان کا موقف تھا کہ ترقیاتی بجٹ میں ان کے حلقوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے اور وہ اس پر سراپا احتجاج تھے جبکہ میڈیا رپورٹوں کے مطابق بجٹ اجلاس سے پہلے اپوزیشن اراکین نے اسمبلی کے گیٹ کو تالے لگادیے، وزیر اعلیٰ جام کمال خان اور حکومتی اراکین کو اسمبلی میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی گئی تو پولیس حرکت میں آگئی۔ ہنگامہ آرائی اور پولیس کی شیلنگ کے نتیجے میں تین اراکین اسمبلی زخمی ہوئے جبکہ وزیراعلیٰ جام کمال پر جوتا بھی اچھالااور گملا بھی مارا گیا جس سے وہ زخمی ہوگئے۔تاہم اسی ہنگامہ آرائی کے دوران صوبائی وزیر خزانہ نے آئندہ مالی سال کے لیے 584ارب روپے کا ٹیکس فری بجٹ پیش کردیا۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی مد میں 10 فیصد اضافے اور15فیصد ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس کابھی اعلان کیا گیا، بجٹ میں مختلف سرکاری محکموں میں 5ہزار 854نئی آسامیاں بھی تخلیق کی گئی ہیں۔بجٹ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت میں وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے دنگے فساداور توڑ پھوڑ پر حیرت ہوئی،اس کام میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں، اپوزیشن شاید یہ بھول گئی کہ اسمبلی ایک مقدس جگہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آج کی صورتحال پر بہت سنگین مقدمات بھی بن سکتے ہیں، اس بات کی تحقیقات کی جائے گی کہ کس نے منتخب ادارے کو نقصان پہنچایا۔و زیراعلیٰ نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے ہمیشہ اپوزیشن جماعتوںکے ساتھ رعایت برتی اور ان کے مسائل سنے اور ان کی تجاویز کو اہمیت دی ہے جس کی بناء پرہنگامہ آرائی کا کوئی جواز نہیں تھا۔ لہٰذا گالم گلوچ، توڑ پھوڑ اور بلیک میلنگ کرنے والوں سے اب کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ بجٹ کو عوام دوست قرار دیتے ہوئے انہوں نے اسے خوشحالی کے ایک نئے دور کا نقیب ٹھہرایا۔ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے ہر شخص کے پاس علاج کے لئے اب 10لاکھ روپے ہوں گے ،یہ ہمارے لئے نہیں بلکہ بلوچستان کے عوام کے لئے ہے لیکن اپوزیشن نے میں نہ مانوں کی رٹ لگا رکھی ہے، بجٹ میں جتنی بھی اسکیمیں ہیں وہ اپوزیشن کے حلقوں میں بھی ترقی کے لئے ہیں۔ حکومت نے تمام حلقوں کی ضروریات کے مطابق منصوبوں کو پی ایس ڈی پی میں شامل کیاہے۔ دوسری جانب اپوزیشن نے وزیر اعلیٰ کے موقف کو سراسر خلاف حقیقت قرار دیتے ہوئے بجٹ کو مسترد کرنے اور احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کردیا ہے جس کی وجہ سے سیاسی عمل تعطل کا شکار ہوگیا ہے۔اس صورت حال کا زیادہ دیر تک برقرار رہناجتنے سنگین نتائج کا سبب بن سکتا ہے، کسی بھی باشعور شخص کے لیے ان کا ادراک مشکل نہیں۔ قومی اسمبلی کے فوراً بعد ملک کی ایک صوبائی اسمبلی میں ویسے ہی واقعات کا اعادہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت حالات سے کوئی سبق سیکھنے اور اپنے رویوں کو بہتر بنانے کی ضرورت سے قطعی بے نیاز ہے۔ یہ طرز عمل عوام کو سیاسی عمل سے مکمل طور پر مایوس کرسکتا اور غیرجمہوری قوتوں کے لیے راستہ ہموار کرسکتا ہے جبکہ اس کے نتیجے میں ملکی سلامتی کو شدید خطرات کا لاحق ہوجانا بالکل قرین قیاس ہے ۔لہٰذا حکومت اور اپوزیشن کو وفاق اور صوبوں سمیت ہر سطح پر افہام و تفہیم سے اختلافات کا حل تلاش کرنے کے جمہوری کلچر کو کسی مزید تاخیر کے بغیر اپنانا ہوگا وگرنہ نتائج پوری قوم اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کیلئے مہلک ہوں گے۔