سندھ میں سلگتی چنگاریاں شعلے نہ بن جائیں

June 20, 2021

انفنسٹن اسٹریٹ پر حمید کاشمیری کی کتابوں کی دکان پر کھڑے پیر حسام الدین راشدی یاد آرہے ہیں۔ سندھی کے عظیم ادب کو اُردو کا پیرہن پہناتے آفاق صدیقی کی آواز کانوں میں رس گھول رہی ہے۔ میر خلیل الرحمن کے دفتر میں بے تکلف ماحول میں بیٹھے قاضی محمد اکبر کی پُر اعتماد آنکھیں ذہن کے پردے پر جھلملارہی ہیں۔ ہندوستان سے گھر بار چھوڑ کر آنے والے لاکھوں انسانوں کے لیے کالونی آباد کرنے والے نفیس متین پیر الٰہی بخش کی صورت یادوں کا مرکز بن رہی ہے۔ قائد اعظم کے مزار کے قریب میر علی احمد تالپور کی رہائش گاہ پر لائبریری میں سندھی۔ مہاجر نوجوان فرانسیسی انقلاب کے مراحل پر بات کرتے سنائی دے رہے ہیں۔

سندھ دھرتی اور سندھو ندی کے کتنے احسانات ہیں ہم سب پر۔فرزندان زمین پر بھی۔ ہندوستان سے اور پاکستان کے دوسرے حصّوں سے آنے والوں پر بھی۔ ہم سب سندھ کے مقروض ہیں۔ اپنے اپنے طور پر سب نے کوشش کی ہے کہ وہ اس میں سے کچھ قرض اتار سکے۔ لیکن یہ احسانات بہت عظیم ہیں اور مسلسل ہیں ۔ آج بھی جاری ہیں۔ میں ساٹھ کی دہائی سے سندھ میں آباد نوجوانوں کی آنکھوں میں محرومیاں دیکھ رہا ہوں۔ 1970کے انتخابات نے ہر لسانی اور نسلی گروپ کو ایک امید اور ایک یقین دلایا تھا۔ میں ایک صحافی کی حیثیت سے صدر ذوالفقار علی بھٹو کے سندھ کے اس طوفانی دورے میں ساتھ تھا۔ جو لسانی فسادات کی آگ بجھانے کے لیے کیا گیا۔ ہر شہر میں وہ اُردو بولنے والوں سے بھی مل رہے تھے۔ سندھی بولنے والوں سے بھی۔ سندھی اور اُردو کے عظیم شاعر شیخ محمد ایاز یاد آرہے ہیں۔ سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت میں ان کی عظیم خدمات۔ 1977 کے الیکشن میں کراچی میں پی پی پی نے کتنے خلوص سے حکیم محمد سعید۔ جمیل الدین عالی ۔ ڈاکٹر فرید الدین بقائی۔ اور نامور اُردو داں شخصیات کو ٹکٹ دیے۔

پھر 5جولائی 1977کو جب جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ اس سخت ترین مارشل لا کی مزاحمت میں سب پیش پیش تھے۔ بہت طویل جدو جہد ہے۔ کتنی چمکتی جوانیاں کراچی۔ حیدر آباد۔ سکھر کی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے گزریں۔تحریک بحالیٔ جمہوریت ۔ ایم آر ڈی۔ بڑے بڑے زمیندار۔ اپنے کارکنوں ہاریوں کیساتھ خود گرفتاریوں کیلئے پیش ہورہے تھے۔ دوسرے صوبوں میں یہ تحریک جلد دم توڑ گئی۔ سندھ میں اور بالخصوص ہالہ میں تو آخر تک چلتی رہی۔ کیا مخدوم طالب المولیٰ۔ مخدوم امین فہیم کو فراموش کیا جاسکتا ہے۔

جب 1947میں ہندوستان سے قافلے سندھ پہنچ رہے تھے۔ تو انہیں سندھ کے بڑے بڑے خاندان اپنے گھر۔ اپنے دفتر پیش کررہے تھے۔ کون بھول سکتا ہے جناب جی ایم سید کو۔ ان کی لائبریری کو۔ ان کے خلوص کو۔ حیدر آباد کے قاضی خاندان کو۔ تالپوروں کو۔ آفندیوں کو۔ ایم آر ڈی پھر اخبارات کی بحالی کے لیے صحافیوں کی تحریک سندھ کی جیلوںمیں سب ساتھ ساتھ تھے۔ اُردو بولنے والے ۔ پشتو بولنے والے۔ ہم کیسے فراموش کرسکتے ہیں۔ رسول بخش پلیجو کو فاضل راہو کو۔ جن کی عوامی تحریک کے کارکن سینکڑوں کی تعداد میں صحافیوں کے ساتھ گرفتار ہوئے۔کیسے بھول جائوں کہ مخدوم خلیق الزماں نے خیرپور جیل میں صحافیوں کے مسلمہ قائد منہاج برنا کا کیسے خیال رکھا۔

جب جمہوریت ممنوع تھی۔ قومی سیاسی جماعتیں کالعدم تھیں۔ تو قوم کو لسانی نسلی فرقہ وارانہ بنیادوں پر بانٹا گیا۔ بنیاد پرستی۔ شدت پسندی کو ریاستی سرپرستی میں پروان چڑھایا گیا۔ اجتماعی طور پر سب کو حقوق دینے کی بجائے الگ الگ شناخت سے حقوق مانگنے کی شہ دی گئی۔ مہاجرین کی محرومیوں کے مسائل تھے۔ تو مقامی آبادیوں کے بھی تھے۔ مہاجر قومی موومنٹ کے ذریعے مہاجرین کو ایک شناخت دینے کی کوشش کی گئی۔ کراچی ۔ حیدر آباد۔ میرپور خاص۔ کے آسمان نے ان کا عروج بھی دیکھا ۔ پھر ان میں عسکریت پیدا کی گئی۔ بوری بند لاشیں۔ ہلاکتیں۔ خوف۔ فرمان امروز بنا۔ اس عروج کا زوال بھی سب نے دیکھا۔ ان کا قیام بھی غیر سیاسی غیر فطری انداز میں ہوا ۔ اور ان کا خاتمہ بھی غیر سیاسی۔ غیر فطری۔ سندھ میں ایک بڑی تعداد میں بچے بزرگ خواتین مائیں بیٹیاں اس وقت محرومی کا شکار ہیں۔

اب پھر سندھ میں چنگاریاں سلگ رہی ہیں۔ بہت سنہرا موقع تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس کہ وہ زخم خوردہ مہاجروں کے دل جیت لیتی۔ کراچی حیدر آباد اور دوسرے شہروں میں ایک بڑی لسانی برادری قیادت سے محروم ہوگئی تھی۔ آصف علی زرداری تو مفاہمت کے بادشاہ کہلاتے ہیں۔ ایک مسکراہٹ سے حریف کو رام کرلیتے ہیں۔ انہوں نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ اُردو کے ایک بڑے محافظ زیڈ اے بخاری کی صاحبزادی کی تربیت انہیں حاصل ہے۔

سندھ اور وفاق کی جنگ اقتصادی بھی ہے ۔ سیاسی بھی۔ لیکن یہ اقتصادی اور سیاسی بنیادوں پر لڑے جانے کی بجائے لسانی حوالوں سے لڑی جارہی ہے۔ شاہ لطیفؒ۔ شہباز قلندرؒ۔ سچل سرمستؒ۔ عبداللہ شاہ غازیؒ تو اپنے زائرین اور عقیدتمندوں سے نہیں پوچھتے کہ کہاں پیدا ہوئے۔ باپ کی کہاں کی پیدائش ہے۔ دادا نے کہاں جنم لیا۔ لیکن اب مختلف سرکاری تقرریوں تبادلوں میں یہ خیال رکھا جارہا ہے۔ شہر قائد میں محرومیاں بڑھ رہی ہیں۔ مہاجر اب عسکریت کی طرف نہیں آنا چاہتے۔ نہ ہی سندھ کے بیٹے شدت پسندی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وقت ہے۔ جب قومی سیاسی جماعتوں کو اس خلا کو پُر کرنا چاہئے جو اس وقت سندھ کے شہری علاقوں میں محسوس کیا جارہا ہے۔ خبریں آرہی ہیں کہ پھر لسانی بنیادں پر گروہ بندی کی جارہی ہے۔ جن طبقوں اور برادریوں کے نوجوان لسانی بنیادوں پر محرومی میں مبتلا ہیں ۔ قومی دھارے میں جانے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی نہیں ہورہی ہے۔ وہ بے چین ہورہے ہیں۔ سوشل میڈیا میں بھی کسی حد تک ان احساسات کی ترجمانی ہورہی ہے۔ مگر گلی کوچوں۔ چورنگیوں۔ بیٹھکوں۔ دفتروں۔ بازاروں میں یہ اضطراب عام ہے۔

یہ ذمہ داری سب قومی سیاسی جماعتوں کی ہے مگر سب سے زیادہ پاکستان پیپلز پارٹی کی کہ اسے سندھ کے لوگوں نے سندھ پر حکمرانی کے لیے منتخب کیا ہے۔ وہ کئی عشروں سے سندھ کی حاکم بھی ہے۔ سندھ میں سب رہنے والوں سے انصاف۔ روزگار کی فراہمی۔ ان کے زخموں کا اندمال۔ان کے حقوق کی پاسداری پی پی پی کا فرض بنتی ہے۔ ایک ذمہ دار قومی سیاستی جماعت کا کردار ادا کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کو اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی طرح سب برادریوں کے قائدین سے ملنا چاہئے۔ ان کے محسوسات سے آگاہ ہونا چاہئے۔ سید مراد علی شاہ کو اپنے والد سید عبداللہ شاہ کی طرح سندھ کے ڈاکٹروں۔ انجینئروں۔ ادیبوں۔ ایڈیٹروں ۔ فلاحی اداروں کے منتظمین۔ تاجروں۔ صنعت کاروں سے بلا امتیاز مشاورت کرنی چاہئے۔ وفاق کی یلغار کا مقابلہ بھی اسی صورت ممکن ہے۔ شہری طاقت کو لاوارث نہ چھوڑیں۔ کہیں پھر عسکریت غالب نہ آجائے۔ کہیں سلگتی چنگاریاں بھڑکتے شعلے نہ بن جائیں۔