پی ٹی آئی کا مستقبل

June 20, 2021

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی نصف سے زیادہ آئینی مدت مکمل ہو چکی ہے۔ قومی اسمبلی میں جو ہنگامہ آرائیاں ہونارہ گئی تھیں‘ وہ بھی الحمد للہ پوری دنیا سمیت پاکستانی قوم نے دیکھ لیں ۔فردوس عاشق اعوان کے جارحانہ انداز کو بھی کھل کر سب نے انجوائے کیا ۔ اگر موجودہ حکومت کے ہزار دنوں کی کارگزار یوں پر تبصرے کئے جائیں تو موجودہ حکومت کے مشیر،وزیر اور سفیر قوم کے زخموں پر نمک ہی چھڑک رہے ہیں اور خان صاحب کی خوبیاں گنوانے میںکوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ چینی، آٹا اسکینڈل اور پیٹرول اسکینڈل سب بجٹ کی آڑ میں دھل گئے اور ہمارے نئے وزیرِ خزانہ شوکت ترین تازہ دم بجٹ پیش کر کے خان صاحب کی سلیکشن کی داد وصول کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔یہ مثال دنیا بھر میں نہیں ملے گی اور وہ یہ کہ تمام بڑے بڑے قد آور افراد جیل یاترا تو کر آئے مگر سزا اور ریکوری ایک ٹکے کی بھی نہ ہوسکی۔ سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کو عدلیہ نے نیب کے پیش کر دہ کمزور دلائل سے مجبور ہو کر ایک ایک کر کےرہا کرنا شروع کردیا۔ عمران خان کا دعویٰ کہ میں ان کو نہیں چھوڑوں گا اور نہ این آر او دونگا،سب کی دھجیاں قومی اسمبلی میں لاکر بکھیر دیں۔ 10کے دس ضمنی انتخابات سے سبق حاصل کرنے کی بجائے اپنی خود ساختہ کامیابیوں کے ڈنکے بجا دیے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی اپنی کامیابیوں کے دعوے کر کر کے لاہوریوں کو سناتے نہیں تھکتے ۔بیسیوں لوگوں کو دوستی کی آڑ میں بڑے عہدوں پر لگایا ،وزارتوں سے نوازا ،مشیران کی کھیپ بھر کر تمام سابقہ حکمرانوں کے ریکارڈ توڑدئیے، اپنے کسی لے پالک چہیتے کی نیب سےانکوائری تک نہیں ہونے دی ۔ حتیٰ کہ جو پہلے سے انکوائریاں ہو رہی تھیں وہ تک رکوا دیں یا ختم کروادیں۔درجنوں کرپشن کے لگے داغ والوں کو اپنی پارٹی میں پناہ دی اور دوسری پارٹیوں کے ہزاروں افراد کو نیب کے حوالے کر کے جیل بھجوا دیا۔ یہ یکطرفہ احتساب ہزار دنوںکی کارکردگی کی داستان بیان کرتا ہے۔جو صفر جمع صفر ہے۔ وعدوں اور نعروں پر عمل تو دور کی بات کرپشن، مہنگائی، بیروزگاری پرقابو نہیں پاسکےاور جب 5سالہ مدت اگر پوری ہو گئی تو تب آٹا، چینی، پیٹرول، گیس، ادویات،بی آر ٹی، مالم جبہ، بلین ٹری اور رنگ روڈ جیسے کیس نہیں کھلیں گے؟ فیصل واوڈا کی نااہلی کا کیس بھی ابھی تک رکا ہوا ہے ،وہ بھی فارن نیشنلٹی کا ہے۔سینکڑوں وزرا و مشیر کیا ۔ موجودہ حکومت نے صرف ایک مدت میں ہی قوم کی چیخیں نکلوادیں ، عوام سوچتے ہیں ایسی ایماندار قیادت سے کرپٹ حکومتیں بہتر ہیں، بھلے وہ اپنی جیبیں بھریں کم از کم عوام کو تو نہیںلوٹیں گی ۔اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی جس تیزی سے ابھری تھی‘ اسی تیزی سے ختم ہو جائے گی۔ اللہ اللہ خیر صلہ ۔

دوسری جانب مالی سال کا بجٹ جمعہ 11جون 2021 ء کو پیش کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کے عوام بالخصوص غریب طبقہ آنے والے بجٹ میں ریلیف کا منتظر تھاکیونکہ گزشتہ دو تین برسوں میں پے درپے ہونے والی مہنگائی سے عوام اتنے بد حال اور مفلس ہوچکے ہیں کہ اپنے خاندان کو مرضی کا کھانا بھی نہیں کھلا سکتے۔ آٹا، سبزی، گھی اور چینی خریدنے کے بعد جیب خالی ہوجاتی ہے اور جیب خالی ہو تو آدمی بیوی بچوں سے ہنس کر بات بھی نہیں کرسکتا۔ خان صاحب فرماتے ہیں کہ بیرونی ممالک سے بہت سا پیسہ آ رہا ہے۔ مگر عوام جانتے ہیں کہ کورونا کی وجہ سے عرب ممالک میں ملازمت کرنے والے ملازمت سے محروم ہوگئے تھے، سال ڈیڑھ سال بعد انہیں دوبارہ نوکری ملی ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ گھر والوں کو بھیج رہے ہیں، تاکہ بے روزگاری کے دور میں جو قرض لیا گیا تھا اسے ادا کرسکیں۔ حکومتی کارکردگی سے عوام کو دلچسپی نہیں ‘ انہیں اس سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ خزانے میں کتنا اضافہ ہوا ہے یا کتنی کمی ہوئی‘ انہیں صرف اور صرف اپنی معاشی حالت سے دلچسپی ہے۔ وہ خوشحال ہوتے ہیں تو ملک کو بھی خوشحال اور دولت مند سمجھتے ہیں۔ ملک بد حال اور افلاس زدہ ہو تو ملک کی بد حالی اور غربت کا ذمے دار حکمرانوں کو سمجھا جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزراء ملک کی معیشت کو کس حوالے سے مضبوط اور بہتر قرار دے رہے ہیں؟عوام بھوک سے تنگ آ کر خود کشی کررہے ہیں‘ ماں باپ بچوں کو نہر میں پھینک کر موت کے حوالے کررہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت والدین کی دلی کیفیت کیا ہوگی، ان کے جذبات کیا ہوں گے؟ دوسری جانب عوام کی بد حالی اور تنگ دستی کی یہ حالت ہے کہ وہ اب میاں نواز شریف کے گن گا رہے ہیں اور ان کے اقتدار کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں تو کہیں ان کی نظر میں سابق صدر آصف علی زرداری بھی عمران خان سے بہتر ہیں‘ یہ معاملات عمران خان کو سوچنے اور غور کرنے کی دعوت دے رہے ہیں ۔