تنخواہ دار ملازم اور خدا

June 20, 2021

بڑے بوڑھوں سے سنا تھا۔’’ایک بہت بڑے سادھو تھے۔ اس سےاس کے بیٹے نے سوال کیا کہ آپ سے بڑا سادھو بھی کوئی دنیا میں ہے۔ انھوں نے جواب دیا ہاں، راجہ سارنگ مجھ سے بڑا سادھو ہے۔ یہ سن کر وہ بیٹا بہت حیران ہوا کہ کہاں میرے باپ جیسا مہان سادھو جس نے دنیا تیاگ دی اور کہاں راجہ سارنگ۔ اس نے کہا کہ میں راجہ سارنگ سے فیض اٹھانا چاہتا ہوں، اس کے والد نے راجہ سارنگ کے نام خط لکھ دیا اور وہ راجہ سارنگ کے دربار جا پہنچا۔ وہاں راجہ نے بڑے تپاک سے اس کا استقبال کیا اور اس کو بہت عزت سے دربا میں بٹھایا۔ وہ بہت حیران تھا، اتنے ٹھاٹھ والا دربار اور اس میں پھر راگ رنگ کی محفل شروع ہوگئی نوخیز لڑکیوں نے ناچنا شروع کر دیا۔ وہ لڑکا بہت پریشان ہوا کہ یہ ہے وہ شخص جسے اس کا مہان والد اپنے سے بڑا سادھو قرار دیتا ہے۔ راجہ سارنگ نے کہا کہ تمہاری تعلیم کل شروع ہوگی۔ دوسرے دن شہر میں تہوار تھا، راجہ نے ایک بڑا پیالا دودھ سے بھر کر اس لڑکے کو دیا اور اس سے کہا کہ دودھ کا پیالا لے جائو‘ جا کر سارا شہر گھومو اور دو سپاہی اس کے ساتھ روانہ کئے کہ اسے فلاں فلاں جگہ ضرور لے کر جانا۔ یہ وہ جگہیں تھیں جہاں اس دن خاص پروگرام ہونے تھے اور خاص رونق ہونی تھی۔ جب وہ جانے لگا تو راجہ نے اپنے پاس بلایا اور کہا دیکھو کہ یہ دھیان رکھے کہ اس کے ہاتھ میں دودھ نہ بہے، اس نے سپاہیوں کو ہدایت کی کہ جہاں دودھ بہے اس کا سر قلم کر دیا جائے۔ وہ لڑکا سارا شہر گھوما اور ہر جگہ سے ہو کر شام کو آیا۔ تو راجہ نے پوچھا کہ کیسی رونق تھی اور کیسے پروگرام تھے۔ لڑکے نے کہا کہ پہلے یہ دودھ دیکھ لیں کہ پورا ہے۔ اور بولا آپ نے یہ دودھ اور شرط لگا کر ایسا کام کیا تھا کہ میں ہر رونق والی جگہ گیا مگر میں نے پورا دھیان اس دودھ کی طرف ہی دیا۔ راجہ مسکرا کر بولا کل تم نے سوچا تھا کہ میں اس دنیا کے کاموں میں اتنا ڈوبا ہوا ہوں تو سادھو کیسے ہو سکتا ہوں تو میرے بیٹے جس شخص کو معلوم ہو کہ معمولی سی حرکت سے اس کا دودھ بہہ جائے گا وہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی پوری طرح محتاط رہے گا اور کوئی غلط حرکت نہیں کر سکے گا۔

خدا آدمی کو یاد رہے تو زندگی کے ہر معاملے میں آدمی بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتاہے ۔ یہ قدم عثمان بزدار کا ہو یا عمران خان کا۔ میں دونوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ دونوں پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں اور ان لوگوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں جن پر اللہ نے اپنا انعام کیا ہے۔ دونوں میں خوفِ خدا موجود ہے۔ بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا:

ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا، وہ ہو کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکاء

جیسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی، جیسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا

لیکن پاکستان کے مسائل ہی ایسے ہیں کہ سچ اور کھوٹ کو علیحدہ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ اپوزیشن ایک طرف بجٹ مردہ باد کا نعرہ لگا رہی ہے اور عوام دوسری طرف کچھ اور کہہ ر ہے ہیں۔

میانوالی سے سرائیکی اور اردو زبان کے مقبول شاعر نذیر یاد کا میسج آیا ۔’’آپ نے بجٹ کے حوالے سے جو کالم لکھا ،اس میں ملازمین کی تنخواہوں کا ذکر آسان لفظوں میں کیا جانا بڑاضروری تھا ۔پنجاب میں بجٹ سے پہلے ہی25 فیصد اضافہ اور وفاقی بجٹ میں دس فیصد اضافے کے ساتھ 35 فیصد بڑھائی‘ میری تنخواہ میں تقریبا 9 ہزار کا اضافہ ہوا ہے ۔عثمان بزدار زندہ باد‘‘

خیبر پختون خوا میں تنخواہوں میں 37فیصد مجموعی طور پراضافہ ہوا ہے ۔ اسٹیٹ بنک کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر بلندترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ آئی ایم ایف بجٹ پر ناراض ہے مگرحکومت نے غریبوں پر ٹیکس لگانے سے انکار کردیا ۔دوسری طرف وہی جو کچھ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میںکیا تھا وہی بلوچستان اسمبلی میں دُھرا دیا گیا۔ اپوزیشن نے اسمبلی کے دروازوں پرتالے لگا دئیے ۔ مجبوراً پولیس کو کارروائی کرنا پڑی ۔ وزیر اعلیٰ جام کمال جب اسمبلی میں آئے تو ان پر جوتے اور دوسری اشیا پھینکی گئیں۔

اسمبلیوں میں ہنگامہ آرائی امریکہ سے لےکے یونان تک ہرجگہ دیکھی گئی۔ مجھے اسمبلی کا وہ اجلاس بھی یاد ہے جب یونان میں ایک رکن اسمبلی نے اجلاس کے درمیان اسمبلی میں دھویں کے بم پھینک دیئے تھے۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کو آگ لگا دی گئی۔ جس کا سبب بعد میں شاٹ سرکٹ ہونا بتایا گیا تھا۔ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ بلوچستان کی اسمبلی کے باہر ہوا وہ افسوس ناک ہے۔ مگر اس کے ذمہ دار اسمبلیوں کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نہیں ہیں۔ اس کے ذمہ دار حکومت کے وزیراور ایم این اے بھی نہیں ہو سکتے چو نکہ اجلاس کو چلانا ان کی مجبوری تھی۔ یقیناً اس جھگڑے میں اپوزیشن کا چہرا نمایا ں نظر آیا۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف اپوزیشن نے دوسری بار تحریک عدم اعتماد واپس لی۔ میں نے اس پر بہت غور کیا کہ اپوزیشن کا ٹارگٹ قاسم سوری ہی کیوں ہے۔ تحقیق بہت گہرائی میں پہنچی تو پتا چلا کہ ڈپٹی اسپیکر کوپارلیمانی لاجز اور این ایم اے ہوسٹل کے تمام معاملات دیکھنے ہوتے ہیں۔ روم اور لاجز کی الاٹنمٹ سے لے کر ان کی نگہداشت تک تمام معاملات کی ذمہ داری بھی ڈپٹی اسپیکر کی ہوتی ہے اور ماضی میں لاجز اور ایم این اے ہوسٹل کے معاملات میں بہت گھپلے ہوئے ہیں۔ بہت غیر مطلقہ لوگ وہاں مقیم رہے جن سے قاسم سوری نے ایم این اے کے ہوسٹل کے کمرےخالی کرائے۔ اصل قصہ اتنا ہے کہ اپوزیشن ایک تو ڈپٹی اسپیکر کے اس رویے سے نالاں ہے۔دوسرا وہ اجلاس کے دوران بلاول بھٹو اور شہباز شریف کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں برتتے۔ قاسم خان سوری نے اس معاملے میں بھی حق اور انصاف کا پرچم تھاما ہوا ہے۔