وہ لاہور کہیں کھو گیا

June 20, 2021

(گزشتہ سے پیوستہ)

ہم پچھلے کئی روز سے موجودہ میاں میر چھائونی (لاہور کینٹ) اور ماضی کے لاہور کینٹ کا موازنہ کرتے ہوئے یہ سوچ رہے تھے کہ ہم نے فورٹریس اسٹیڈیم، گلوب سینما (اب مال آف لاہور)، ELGIN روڈ (سرور روڈ) پولو گرائونڈ اور کئی دوسری سڑکوں پر کئی پرانی اور قدیم بیرکیں دیکھی تھیں جن پر 1902، 1920اور مختلف سن تحریر تھے۔ ہم ان میں گئے بھی تھے۔ کچھ میں کیپٹن رینک کے فوجی افسر اپنی فیملیز کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ اب بھی ایک آدھ ٹوٹی پھوٹی بیرک نما کوٹھی بنارس روڈ پر موجود ہے جسے ہم دیکھ کر آئے ہیں۔ یہ ساری پرانی اور یادگار بیرکیں گرا دی گئیں۔ اسی طرح سرور روڈ پر تھانےکے نزدیک پانی کی پرانی بہت بڑی بڑی 6عدد ٹینکیاں تھیں ان کو بھی گرا دیا گیا اور پلاٹ بنا دیئے گئے۔ آج کا لاہور کینٹ انگریز کے زمانے کی میاں میر چھائونی سے بہت مختلف اور خوبصورت تھا۔ اب تو لاہور کینٹ ایک کمرشل علاقہ بن چکا ہے۔

بنارس روڈ کے سامنے ناگی روڈ ہے‘ اس کا اصل نام DIAGONALروڈ ہے۔ یہاں دو تین چونڈہ لین بھی ہیں۔ آئندہ کچھ سڑکوں کا ذکر کریں گے۔ میاں میر چھائونی میں کبھی سویلین کی آمد و رفت عام نہیں تھی خصوصاً کیمرہ لے کر آج بھی آپ چھائونی میں نہیں آ سکتے۔ آج بھی بعض علاقوں میں جانے کی سب کواجازت نہیں۔ دوسرے چھائونی میں کبھی اس طرح کے ناکے نہیں ہوتے تھے اور یہاں پر ٹریفک ملٹری پولیس کے سپاہی کنٹرول کیا کرتے تھے۔ آج بھی فوج کے کسی وی وی آئی پی کی آمد پر ملٹری پولیس ٹریفک کا انتظام سنبھال لیتی ہے۔ ملٹری پولیس کے پاس بڑی بڑی موٹرسائیکلیں ہوتی تھیں۔ لاہور میں میاں میر چھائونی کے علاوہ چرچ روڈ اور میسن روڈ پر بھی فوجی یونٹ اور لال رنگ کا قلعہ تھا۔ میسن روڈ والے یونٹ میں فائرنگ رینج بھی تھی۔ اب یہ دونوں بیرکیں یہاں نہیں رہیں۔ میسن روڈ والا ایک لال قلعہ تو ہم نے کئی مرتبہ دیکھا اب یہاں کچھ نہیں۔

میاں میر چھائونی (لاہور کینٹ) میں چار علاقے بڑے اہم ہیں۔ آر اے بازار (رائل آرٹلری بازار) والٹن روڈ، والٹن ایئر پورٹ، والٹن ریلوے اسٹیشن ، صدر اور وائرلیس کالونی۔ والٹن ایئرپورٹ لاہور کا پہلا ایئرپورٹ ہےجو اب بھی کئی فلائنگ کلبوں کے زیر استعمال ہے۔ لاہور کے اس تاریخی ایئرپورٹ کو ختم کر کے کاروباری حب بنانے کا منصوبہ ہے۔ لاہور کا یہ پہلا اور پرانا ہوائی اڈہ آج سے ایک سو تین برس قبل بھابڑہ گائوں میں قائم کیا گیا تھا بعد میں یہ بھابڑہ اسکیم گلبرگ بن گئی تھی۔ والٹن ایئرپورٹ کو ایک راستہ والٹن اور دوسرا گلبرگ اور گلاب دیوی اسپتال کی طرف سے بھی جاتا ہے۔ یہ بڑا تاریخی ایئرپورٹ ہے ۔ اس ایئرپورٹ کو نہ صرف برِصغیر میں بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی اہم مقام حاصل رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم اسی ہوائی اڈے پر اترے تھے۔ آج ہم اس تاریخی ہوائی اڈے کو ختم کرنے کے درپے ہیں حالانکہ دوسری جنگ عظیم، اس کے بعد 1965اور پھر 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں اس ایئرپورٹ سے بھی پاکستان ایئرفورس کے جہاز اڑان بھرتے رہے ہیں۔

والٹن ایئرپورٹ، والٹن ریلوے اسٹیشن اور والٹن روڈ سر کرنل کیوسک والٹن کے نام پر ہیں مگر نہ تو والٹن روڈ پر اور نہ ہی کہیں اور سر کرنل کیوسک والٹن کے بارے میں کوئی تحریر ہے۔ سر کرنل کیوسک والٹن ویسے تو والٹن ریلوے ٹریننگ اسکول کے بانی تھے، ان کا تعلق ریلوے سے تھے مگر ہندوستان کے وزیر بلدیات سر گو کول چند نارنگ کی درخواست پر سر کرنل کیوسک والٹن نے فلائنگ کلب کو ترقی دینے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ اس سارے علاقے کو کبھی والٹن ایئر فیلڈ بھی کہا جاتا تھا،کسی زمانے میں یہ علاقہ پورا ایک جنگل تھا اور محکمہ جنگلات ہی کی زمین تھی۔ یہ کتنا تاریخی رن وے ہے کہ برصغیر کی پہلی خاتون پائلٹ سرلاٹھا کرال نے صرف 21برس کی عمر میں ہوا بازی کا لائسنس حاصل کر کے جہاز اڑایا تھا۔ اس خاتون پائلٹ نے اپنی پروازوں کے ایک ہزار گھنٹے بھی پورے کئے تھے۔ یہ ایئر پورٹ 158ایکٹر یا بارہ سو کنال رقبے پر ہے جس کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ آج اس 103سالہ برصغیر کے قدیم ترین ہوائی اڈے کو ختم کیا جا رہا ہے یعنی لاہور سے ایک اور تاریخی باب ختم کر دیا جائے گا۔ ایک طرف تو ہماری حکومت یہ کہتی ہے کہ ایک ارب درخت لگانے ہیں جبکہ دوسری طرف اس تاریخی ایئر پورٹ کے اردگرد جو دس ہزار کے قریب درخت اور کئی نرسریاں ہیں ان کو ختم کر کے بزنس حب بنایا جا رہا ہے۔ کیا اس باغات کے شہر کو اب صرف اینٹ، پتھر اور اونچے اونچے پلازوں کا شہر بنانا ہے بلکہ بنا دیا ہے۔ ابھی کتنا اس شہر کا حسن برباد کرنا ہے؟ یہ دس ہزار درخت روزانہ کتنے ٹن آکسیجن یہاں کی قریبی آبادیوں کے لاکھوں افراد کو فراہم کرتے ہیں ، کبھی اس پربھی سوچا ہے۔

ارے ﷲ کے بندو! یہ تاریخی ہوائی اڈہ جہاں پاکستان بننے کے بعد بانی پاکستان قائد اعظم جہاز سے اترے اور اس ہوائی اڈے پر موجود ہزاروں مہاجرین سے خطاب کیا، پتہ نہیں کیوں شہباز شریف اپنے دور میں اور اب موجودہ حکومت اس تاریخی ہوائی اڈے کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ کس کس کو نوازنا ہے؟ کس کس کو پلاٹ دینے ہیں؟ کس کس کو یہاں لانا ہے؟ ایک سابق بیورو کریٹ کو یہ ذمہ داری سونپی جا چکی ہے۔ یہاں پر سات سے زائد فلائنگ کلب بھی ہیں، پھر مستقبل کے کئی پائلٹ یہاں تربیت حاصل کرتے ہیں جبکہ اس ہوائی اڈے کی تاریخی اہمیت بھی ہے۔( جاری ہے)