ڈالر اور مہنگائی

June 20, 2021

دسمبر 1998ء کی بات ہے ایٹمی دھماکوں کے بعد آئی ایم ایف نے پاکستان کی امداد کا پرو گرام بند کر دیا تھا۔ پاکستان پر ہر طرف سے دبائو ڈالا جا رہا تھا ڈالر کی قیمت 46روپے سے بڑھ کر 69روپے ہو گئی تھی خدشے کا اظہار کیا جارہا تھا کہ آئندہ چند دنوں میں ڈالر 100روپے تک پہنچ جائے گا وزیر اعظم نواز شریف کی پریشانی دیکھی نہیں جا رہی تھی قومی اسمبلی میں اپوزیشن برملا کہہ رہی تھی اب ڈالر کی قیمت میں اضافہ کو کوئی نہیں روک سکے گا وزیر اعظم نے ملکی معیشت کی بگڑتی صورت حال کے پیش نظر اپنی اکنامک ٹیم میں تبدیلی کر دی سینیٹر محمد اسحق ڈار کو وزارت خزانہ کا قلمدان سونپ کر انہیں آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے واشنگٹن بھجوا دیا سینیٹر محمد اسحق ڈار عالمی سطح پر ’’سخت مذاکرات کار‘‘ کی شہرت رکھتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ نے پاکستان کی امداد کو ڈالر کے مقابلے میں 8روپے قیمت کم کرنے سے مشروط کر دیا تو سینیٹر محمد اسحق ڈار نے یہ کہہ کر کہ ’’ اس سے میرے ملک پر نہ صرف قرض بڑھ جائے گا بلکہ ملک کو مالی نقصان بھی پہنچے گا‘‘ قرض لینے سے انکار کر دیا پھر اسی آئی ایم ایف نے پاکستان کو آسان شرائط پر قرض دینے پر آمادگی کا اظہار کر دیا۔ دوسرا واقعہ 2016ء کے اوائل کا ہے جب پاکستان کی معاشی ٹیم آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے دوبئی گئی تو وہاں بھی آئی ایم ایف نے ڈالر کے مقابلے میں 8روپے قیمت کم کرنے کی شرط عائد کر دی جب پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پروگرام پر اتفاق رائے ہو گیا تو رات کے پچھلے پہر مذاکرات کی ناکامی پر سینیٹر محمد اسحق ڈار نے اگلے روز پریس کانفرنس میں آئی ایم ایف سے نکلنے کا عندیہ دے کر اپنی ذاتی رہائش گاہ پر چلے گئے۔ آئی ایم ایف حکام میں کھلبلی مچ گئی واشنگٹن سے آئی ایم ایف کے حکام کے فون آنا شروع ہو گئے جس کے بعد آئی ایم ایف اپنی شرائط سے دستبردار ہو گیا سینیٹر اسحق ڈار اس لئے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم کرنے پر تیار نہیں ہوئے کہ وہ جانتے تھے کہ جوں ہی ڈالر مہنگا ہوا، اس کے نہ صرف ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے بلکہ ملک میں مہنگائی کی لہر میں شدت پیدا ہو جائے گی یہی وجہ ہے کہ جب تک وزارت خزانہ کا قلمدان ان کے پاس رہا انہوں نے ’’ڈالر ‘‘ کو قابو میں رکھنے کے لیے سخت اقدامات کئے۔ سینیٹر محمد اسحق ڈار ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم رکھنے کے لئے ایف آئی اے کی خدمات بھی حاصل کرتے رہے راتوں رات ڈالر کی قیمت بڑھا کر تجوریاں بھرنے والوں کو نکیل ڈالے رکھی پچھلے تین سال کے دوران ڈالر کی اڑان میں جو تیزی دیکھنے میں آئی ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی اور اس کا یہ اثر ہوا کہ ڈالر سے درآمد کی جانے والی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں آج مہنگائی کا ’’جن ‘‘ ڈالر کی اڑان کی وجہ سے بوتل سے باہر آگیا ہے کپتان ہزار بار مہنگائی بڑھنے پر نہ گھبرانے کی تلقین کریں مہنگائی پر کنٹرول کرنا ان کے بس کی بات نہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے روپے کو ’’بے قدرا‘‘ کر دیا جب ہم اپنی کرنسی کا تقابل افغانستان، بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر پڑوسی ممالک سے کرتے ہیں تو دل ڈوبنے لگتا ہے کاش! حکومت آئی ایم ایف کی ٹیم بٹھانے کی بجائے آئی ایم ایف کے پروگرام سے نکلنے کی جستجو کرتی ہے ہم نے آئی ایم ایف کے پروگرام کے حصول کے لئے بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کی کمٹمنٹ کر رکھی ہے فی الحال وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف سے بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے سے معذرت کر لی ہے لیکن یہ انکار کب تک ممکن ہے دوسری طرف پٹرول لیوی بڑھائی جا رہی ہے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا موجودہ حکومت پچھلے تین سال سے ’’چور چور ڈاکو ڈاکو‘‘ کا راگ الاپ کر اپنی ہر کمزوری ماضی کی حکومتوں کے سر تھوپنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اب تو عوام بھی حکومت کا یہ راگ سن سن کر اکتا گئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بجٹ سیمینار میں سینیٹر محمد اسحق ڈار نے کیا تقریر کر دی شوکت ترین خسرو بختیار اور حماد اظہر نے ان کا جواب دینے کے لئے اسی روز پریس کانفرنس کر ڈالی شوکت ترین جو خود ایک بڑے بنکار ہیں نے کہا ہے کہ سینیٹر محمد اسحق ڈار کی معاشی غلطیوں کی سزا عمران خان بھگت رہے ہیں اکتوبر 2019سے لے کر مئی 2021ء تک مہنگائی ’’ڈبل ڈیجٹ ‘‘ رہی اب حکومت کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس میں کچھ کمی آئی ہے اور یہ شرح 8اور 9فیصد کے درمیان ہے لیکن حکومت کے فراہم کردہ اعدادو شمار پر کسی کو اعتبار نہیں پاکستان میں غریب افراد کی تعداد میں دو کروڑ کا اضافہ ہو گیا ہے مہنگائی کے بارے میں غریب آدمی ہی بتا سکتا ہے جسے دو وقت کی روٹی نصیب نہیں اور وہ پیاز اور چٹنی سے روٹی کھانے پر مجبور ہے۔ اس وقت خطے میں بھارت میں ڈالر 72،73روپے، افغانستان میں 78افغانی اور بنگلہ دیش میں 84ٹکہ میں ہے مجھے یاد ہے افغانی کرنسی اس قدر بے توقیر ہوگئی تھی کہ کوئی شخص افغانی کرنسی لینے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا چند ڈالرز یا روپوں کے بدلے افغانی کرنسی سے بھری پوری بوری مل جاتی تھی بد قسمتی سے سے آج ہماری کرنسی کا یہ حال ہو گیا ہے 10روپے نے ایک روپے کی جگہ لے لی ہے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے خزانہ کو بتایا ہے ’’ آئی ایم ایف کہتا ہے ہماری بات مانو ورنہ پیسے نہیں ملیں گے آئی ایم ایف کے مطالبات تسلیم کرلیں تو مہنگائی بڑھے گی‘‘ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں قرض پروگرام کی اگلی قسط موخر ہو سکتی ہے۔ کاش! موجودہ حکومت آئی ایم ایف کی ’’ڈکٹیشن ‘‘ کے سامنے ڈٹ جائے اور پاکستانی کرنسی کی قیمت کو خطے کے ممالک کے برابر لانے کے لئے شعوری اقدامات کرے تو پاکستان میں مہنگائی کا جن خود بخود بوتل میں بند ہو جائے گا ۔