فلسطین، براستہ اردن اور مصر

June 20, 2021

یہ ایک انتہائی کٹھن اور غیر محفوظ سفر تھا۔ فلسطین و اسرائیل کے مابین حالیہ خونیں جھڑپ ابھی چند روز قبل ہی ایک معاہدے کے نتیجہ میں ختم ہوئی تھی۔ ان حالات میں فلسطین اسرائیل یا ملحقہ علاقوں کا سفر یقیناً پر خطر تھا۔ برطانیہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد کے مطابق غزہ میں بمباری کے باعث ہونے والی تباہی کسی سونامی سے کم نہیں کیونکہ انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کا بھی بے انتہا نقصان ہوا تھا 300سے زیادہ فلسطینی شہید ہوئے او رہزاروں کی تعداد میں زخمی یا شدید زخمی ہوئے۔ عبدالرزاق ساجد چاہتے تھے کہ غزہ کے لوگوں کیلئے امداد ہر صورت پہنچنی چاہئے خواہ جس قدر بھی خطرات ہوں کیونکہ غزہ اور دیگر علاقوں کے وہ لوگ جو فلسطین کے اندر ہیں یا جو مصر اور اردن کی سرحد پر مہاجر کیمپوں میں موجود ہیں انہیں کھانے پینے کی اشیاء، ادویات اور مالی مدد کی فوری ضرورت ہے۔ہم دو صحافی اور ’’اے ڈبلیو ٹی ‘‘ کی ٹیم 29مئی کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ پہنچی تاکہ غزہ کے وہ افراد جو غزہ کے اندر یا مصر اور غزہ کی سرحد پر کیمپوں میں موجود ہیں ان تک پہنچا جائے کیونکہ اقوام متحدہ کے مطابق حالیہ تنا زع کی وجہ سے غزہ میں 16ہزار سے زیادہ گھر، 58اسکول، 10اسپتال اور 20کلینکس تباہ ہوئے اور بے شمار ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں ۔

غزہ کی سرحد پر اسرائیل نے سرحدی باڑ لگا رکھی ہے، رفاح کے مقام پر یہ سرحدی علاقہ واقع ہے غزہ کی یہ واحد سرحد ہے جو مصر سے ملتی ہے باقی تین اطراف سے یہ علاقہ اسرائیل سے منسلک ہے۔ بے حد کوششوں کے باوجودہمیں غزہ جانے کی اجازت نہ ملی لیکن جس قدر ہوسکا ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ ‘‘ کی طرف سے یہاں بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاء تقسیم کی گئیں، مصر اور لبنان کے درمیان کا یہ سارا علاقہ مئی 1948 میں قیام اسرائیل سے قبل فلسطین کہلاتا تھا جس کا دارالحکومت بیت المقدس تھا جسے مسلمان قبلہ اول کہتے ہیں اور یہی شہر یہودیوں اور عیسائیوں کے نزدیک بھی مقدس ہے جس پر 1968میں اسرائیل نے قبضہ کیا ۔ہم لوگ کسی بھی صورت غزہ یا فلسطین کے کسی علاقہ میں جاکر وہاں کے حالات اپنی آنکھوں سے دیکھنا اور ان کی ہر ممکن غذائی اور مالی ضروریات پورا کرنا چاہتے تھے۔ عبدالرزاق ساجد تہیہ کئے ہوئے تھے کہ وہ ان عمر رسیدہ، جوانوں اور بچوں تک پہنچیں گے جن کے گھروں کے ساتھ ساتھ ان کے خواب بھی ٹوٹ گئے تھے جو اپنوں کی اموات کے بعد دنیا میں تنہا ہو چکے تھے جو انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے ۔قاہرہ میں تقریباً ایک ہفتہ غزہ جانے کی جستجو میں ہم سب نے یہ بات شدت سے محسوس کی کہ مصری مسلمان فلسطینیوں کے متعلق کوئی زیادہ متفکر نہیں تھے فراعین کی اس سرزمین پر مصری مسلمانوں کے عمومی رویے بھی سرد اور سپاٹ تھے یہ مصری اب اپنے فلسطینی بھائی بہنوں کی کسمپرسی پر باآواز بلند زبان نہیں کھولتے ۔

قاہرہ مصر میںبعض روایات کے مطابق حضرت امام حسین ؓکا سر مبارک دفن ہےاور ایسی روایات بھی ہیں کہ یہاں حضرت بی بی زینب سمیت بے شمار صحابہ کرام کے مزارات بھی ہیں اور اسلامی تاریخ کی بہت سی یادگاریں بھی، دریائے نیل بھی اپنی ہزاروں سال کی تاریخ کےساتھ یہاں رواں دواں ہے لیکن یوں لگا کہ مصری، اسلامی سے زیادہ اپنے فراعین کی یادگاروں پر فخر کرتے ہیں ۔

مصر کے بعد ہماری اگلی منزل اردن تھی جہاں ہمیں پتا چلا کہ ہزاروں کی تعداد میں غزہ اور فلسطین کے دیگر علاقوں سے لٹے پٹے مہاجرین خیمہ بستیوں میں آباد ہیں اردن کے دارالحکومت عمان کے شمال میں چٹیل پہاڑوں کے درمیان یہ عارضی پھٹے پرانے کپڑوں اور پلاسٹک کے ناکارہ ٹکڑوں سے بنائی گئی جھونپڑیاں موجود ہیں جہاں فلسطینی مرد و خواتین اور بچے انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ ‘‘ کی جانب سے سینکڑوں کی تعداد میں‘ کھانے پینے کی بنیادی اشیاء کے باکس، نقد رقم اور ادویات تقسیم کی گئیں لیکن مذکورہ تنظیم کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد چاہتے تھے کہ ہر صورت الاقصیٰ جایا جائے اور حالیہ جھڑپوں کے دوران مسجد الاقصیٰ اور اطراف کے علاقہ میں ہونے والی تباہی اور ان مسلمانوں کیلئے بھی ہر ممکن اقدامات کئے جائیں لیکن وہاں جانا انتہائی مشکل کام تھا کیونکہ اگر ہم وہاں جاتے تو دو ہفتے قرنطینہ بھگتناپڑتا لیکن ان کی لگن سچی اور ارادے مضبوط تھے اور کچھ غیبی مدد بھی شامل حال تھی اسرائیل کی حکومت اور بیت المقدس میں موجود بعض خیر خواہوں کی کوششوں سے بالآخر ہمیں صرف دو روز کی انٹری ملی جس میں ہزاروں پائونڈ کی مالی امداد اور بہت بڑی تعداد میں کھانے پینے کی بنیادی اشیا ءکے باکسز جو یروشلم سے ہی بنوائے گئے تقسیم کئے گئے ۔ مسجد الاقصیٰ کے امام و ڈائریکٹر شیخ عمر الکسوانی بتا رہےتھے کہ حالیہ بمباری سے مسجد الاقصیٰ کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ تقریباً 2لاکھ پائونڈ لگایا گیا ہے، یہی بات اردن کی وزارت اوقاف کے عہدیداروں نے ہمیں بتائی تھی جب ہم عمان میں تھے۔ عبدالرزاق ساجد نے امام الاقصیٰ اور اردن کی وزارت اوقاف کو یقین دلایا ہے کہ ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ ‘‘ متاثرین کی مدد کے ساتھ ساتھ مسجد اقصیٰ کی مرمت کیلئے بھی ہر ممکن تعاون کرے گا لیکن اس ضمن میں اشد ضرورت اس امر کی ہے کہ ’’او آئی سی ‘‘ عرب لیگ اور دیگر صاحبِ ثروت ممالک، افراد اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں