حقیر ہم بھی نہیں

June 20, 2021

عربی زبان کے ایک بڑے صاحب قلم کی ایک تحریر کا ترجمہ دیکھا ۔جو کسی حد تک سمجھ میں بھی آیا وہ درج کرتا ہوں ۔

انسان چار قسم کے ہیں

پہلا وہ جو جانتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ بس وہ جانتا ہے ۔

یہ عا لم ہے اس سے سوال کیا کرو....!

دوسرا وہ جو جانتا ہے مگر وہ نہیں جانتا کہ وہ بھی جانتا ہے ۔یہ بھولا ہوا ہے اسے یاد دلائو ۔

تیسرا،وہ جونہیں جانتا اور وہ جانتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں جانتا ۔یہ جاہل ہے اسے علم سکھلائو ۔

چوتھا وہ ہے جو نہیں جانتا اور وہ نہیں جانتا کہ وہ نہیں جانتا ...یہ احمق ہے اس سے دور رہو۔

میں اپنا شمار کس طرح کی مخلوق میں کروں مجھے کچھ بھی معلوم نہیں مگر میں نہیں جانتا اور لاحاصل سے حاصل ضرور چاہتا ہوں۔

حالیہ دنوں میں ایک صاحبِ شوق ممبر قومی اسمبلی نے بڑے تیقن سے فرمایا کہ بدکلامی ان کی تہذیب کی پہچان ہے اور ان کو اپنی زبان پر بڑا مان بھی ہے ۔اگر کوئی ان سے مکالمہ کرے تو ان کو یہ بھی پسند نہیں‘یہ سیاست ہے‘ ڈرامہ ہے‘ کھیل ہے اور جمہوریت کا ترانہ ہے۔آج کل ہماری قومی اسمبلی میں نجیب الطرفین اشرافیہ کے بڑے لوگ بڑی چھوٹی باتیں کرتے نظر آتے ہیں ان کو یقین ہے کہ وہ عوام میں مقبول و مشہور ہیں۔جمہوریت اس لئے قابل اعتبار نہیں کہ جھوٹ اگر بہت یقین سے بولا جائے تو سب شانت رہتے ہیں۔جھوٹ پسند بھی کیا جاتا ہے اور اس کو بڑے مثبت انداز میں پھیلایا بھی جاتا ہے۔ دیکھیں ہماری ایک سیاسی جماعت کا نعرہ اور منشور ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے ‘‘ اب ذرا سوچیں کہ انتقام کیا ہے ۔کیا انتقام کے فعل کو پسند کیا جاتا ہے ہمارے ہاں یہ بھی بہت مقبول جملہ ہے، انتقامی سیاست کی جارہی ہے یہ سب کچھ ہماری جمہوریت کا حسن بھی ہے مگر کمال کا حسن ہے جو ذرہ بھر بھی حسین نہیں ہے ۔

عبدل قادر بیدل غالب کے زمانہ کے بڑے استاد شاعر تھے اور زیادہ شاعری فارسی میں کی۔ اس زمانہ کے بادشاہِ وقت اورنگزیب عالمگیر ان کی شاعری کے بڑے مداح بھی تھے ۔اس وقت اردو اپنی پہچان کروا رہی تھی ۔ غالب نے جو کچھ فارسی میں لکھا اس کو ہمارے دوست ملک فارس جواب اپنی پہچان ایران کے لفظ سے کراتا ہے، کے اہلِ سخن غالب کے مداح اور ناقد بھی رہے ہیں مگر جناب غالب کی فارسی ترکیب کا بیان اردو میں اپنی پہچان نہیں کراسکا ‘ جو علیحدہ علمی اور ادبی بحث ہے ۔ تاہم غالب کی اردو شاعری کی مقبولیت آج بھی بام عروج پر ہے جناب عبدالقادر بیدل کے بارے میں اسد اللہ غالب کا ایک شعر ہے جو تحسین بھی ہے اور تعریف بھی

طرز بیدل میں ریختہ لکھنا

اسد ﷲ خاں قیامت لکھنا

اب تو قیامت جاری ہے اور اس کا خوف کسی کو نہیں۔ کیا زمانہ آ گیا ہے جانتے بہت ہیں مگر علم کسی کو نہیں۔ ہمارے ماضی میں کتنے راہبر اور رہنما نظر آتے ہیں راہبر تو قائد اعظم محمد علی جناح تھے اور ان کو اندازہ تھا کہ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ مگر ان کے پاس وقت کم تھا وطن بنا دیا اور ملک کی بنیاد رکھ دی ۔پھر ہوا کیا کہ ابتدا کے چند سال جمہوریت کا کھیل کسی قانون اور قائدے کے بغیر ہی کھیلا گیا اور جمہوریت کی بدنامی بھی بہت ہوئی ۔فرنگی نے کوئی ایسا نظام نہیں بنایا جس سے تقسیم ہندآسان ہو جاتی تقسیم ایک ایسا عمل ہے کہ نیت ٹھیک ہو تو فائدہ ہی فائدہ اور اگر نیت میں کھوٹ ہو نقصان ہی نقصان۔نقصان ہی نقصان‘ہندوستان کی تقسیم تو ہوئی مگر جذبے میں کھوٹ تھا اور وہ کھوٹ ابھی تک بھارت کی نیت میں ہے اور آپ ہمالیہ پر نہ بھروسہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی اچھے کی امید رکھ سکتے ہیں اور ہمارا کوئی نیتا حقیقت حال بتانے کو تیار نہیں ۔

ضرور دھوکے میں منزل سے دور آ پہنچے

جھجھک رہا ہے بہت راہبر بتانے میں

آج کل ہم سیاسی انتظار کے دور سے گزر رہے ہیں اور جب سیاسی لوگوں کی نمودونمائش کے باعث سیاست اور ریاست خطرے سے دوچار ہوتی ہے تو فوراً نامعلوم ذرائع سے ایک ترکیب اخباروں کی زینت بنتی ہے اور سب لوگ ادھر ادھر دیکھنے لگ جاتے ہیں کہ عسکری ادارے کچھ کرنے جا رہے ہیں پتا نہیں یہ خوش فہمی یا غلط فہمی، عسکری مہربان تو اس ملک کی جمہوریت کے خیر خواہ اور دوست ہیں ۔ورنہ ہماری سیاسی اشرافیہ نے تو کئی بار ان کو اکسایا کہ آپ ہی کچھ کریں، شکر ہے ان کا من صاف ہی رہا اصل میں ہمارے عسکری مہربان سب کا سوچتے ہیں ہمارے دوست ممالک بھی ان سے اکثر بڑی امیدیں لگا لیتے ہیں اور جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ افغانستان میں دنیا کے بڑے ممالک ناکام ہونے کے بعد محفوظ راستہ کے لئے پاکستان اور افواج پاکستان کے طالبِ مدد ہیں مگر ان کو پاکستان کے عوام کی خوشحالی پسند نہیں ۔ہمارے دوستوں کے اہم بین الاقوامی ادارے پاکستان کی معیشت پر اپنا رسوخ رکھنے کے لئے صف بندی کرتے رہتے ہیں ۔اس وقت تمام سیاسی جماعتیں ملک میں تبدیلی کے لئے لگن کی مشق سے گزر رہی ہیں اور دوسری طرف عمران خان بھی تبدیلی کی ہوا کو شفاف بنانے کے مشن پر کمربستہ ہیںمگر دوستوں اور خیر خواہوں کو شکایت ہے کہ وہ لوگ صاحب اختیار ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ

منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

عمران کے دوست چلہ بھی کاٹ رہے ہیں‘ دعا بھی کر رہے ہیں مگر اثر نظر نہیں آ رہا۔ شاید سب کے عمل میں خرابی ہے اور سب ہی معلوم کے چکر میں نامعلوم کا وظیفہ کر رہے ہیں سب کچھ بدلنے کے لئے سب اکٹھے تو تھے مگر غالباًنیت کے کارن ناکام و نامرادہیں۔ عمران کے پاس کھونے کو کچھ نہیں اور آپ کے پاس بنانے کو کچھ نہیں بس وطن پرستوں پر یلغار ہے ۔وطن پرستوں کو کہہ رہے ہو وطن دشمن ‘ خدا کا خوف کرو۔