بلوچستان کی ترقی: وزیر اعلیٰ، بیوروکریسی کا کردار

June 21, 2021

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ لیکن آبادی دیگر تین صوبوں کی نسبت انتہائی کم ہے۔ جیو سٹرٹیجک لو کیشن کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ سب سے اہم صوبہ ہے۔ غیر ملکی ایجنسیوں نے ایک عرصہ تک پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں کیلئے اسے اپنا بیس کیمپ بنائے رکھا۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ بارڈر منسلک ہونے کی وجہ سے دہشت گرد بلوچستان میں داخل ہو کر سندھ اور پنجاب میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے رہے جن کی وجہ سے پاکستان کو بڑا نقصان پہنچا۔ سرحد پار سے دراندازی کا سلسلہ 1948سے شروع ہوا جو 1958-59، 1962-63، 1973-77اور پھر سب سے زیادہ 2003میں بڑھ گیا جو آج تک وقفے وقفے سے جاری ہے لیکن اس میں پہلے کی نسبت کافی حد تک کمی واقع ہوئی۔ وزیراعلیٰ جام کمال اور سابق چیف سیکرٹری بلوچستان کیپٹن (ر) فضیل اصغر نے بلوچستان میں سیکورٹی صورتحال کو بہتر بنانے اور ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں جتنی دلچسپی لی، تاریخ میں اِس کی مثال کم ہی دیکھنے میں ملتی ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب کیپٹن (ر) فضیل اصغر نے 29اگست 2019کو بطور چیف سیکرٹری چارج سنبھالا تو بارڈر کی دوسری طرف افغانستان اور بلوچستان کی اندرونی سیکورٹی صورتحال کو بہتر بنانا ان کی اولین ترجیحات میں شامل تھا۔ وزیراعلیٰ جام کمال کے ساتھ اچھے ورکنگ ریلیشن شپ کی وجہ سے بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کوسٹ لائن کے ہر 50کلو میٹر پر 15چیک پوسٹیں بنائی گئیں اور قانون نافد کرنے والے اداروں کی پٹرولنگ شروع کر ائی گئی۔ کوسٹل ہائی وے پر مسافروں اور سیاحوں کیلئے باتھ رومز اور کنٹینرز میں کسی بھی ہنگامی صورتحال کے پیش نظر ابتدائی طبی امداد کیلئے ہیلتھ یونٹس قائم کئے گئے جن پر 70کروڑ روپے لاگت آئی۔ بلوچستان کی سیکورٹی میں اہم کردار ایف سی اور کائونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی ) کا ہے جبکہ پاک فوج کی سدرن کمانڈ بھی ان اداروں کے شانہ بشانہ ہے۔ سیکورٹی کو بہتر بنانے کیلئے سی ٹی ڈی کو پنجاب کی لائن پر لانے کیلئے نہ صرف نئی گاڑیاں جدید انٹیلی جنس آلات اور اسلحہ فراہم کیا گیا بلکہ فورس میں اضافے اور ہیومن ریسورس ٹریننگ کو بہتر بنایا گیا۔ انٹیلی جنس بیورو اور سی ٹی ڈی کے ساتھ ساتھ سیف سٹی پراجیکٹ جو کھٹائی میں پڑا تھا، کو فعال کیا گیا۔ وزیراعلیٰ اور افسر شاہی کے ایک صفحے پر ہونے کی وجہ سے بلوچستان میں لائیو سٹاک ایکسپو کروائی گئی۔ بلوچستان میں 51فیصد لائیو سٹاک ہے جو پورے پاکستان کا 49فیصد بنتا ہے۔ صدر عارف علوی جب لائیو سٹاک ایکسپو کا افتتاح کرنے آئے تو وہپنجاب سے بلائے گئے ماہرین کی طرف سے جدید سائنسی طریقوں کے ذریعے کی گئی بریڈنگ اور بین الاقوامی معیار کے سلاٹر ہائوس کو دیکھ کر تعریف کئے بنا نہ رہ سکے۔ کھجوروں کی پراسیسنگ کے پلانٹ لگائے گئے اور سپلائی چین مینجمنٹ کو بہتر بنایا گیا۔ بلوچستان کی سیاسی قیادت اور بیورو کریسی کے باہمی ربط کی وجہ سے سیاحت کے شعبوں میں بھی کئی سنگ میل عبور کئےگئے۔ سیکورٹی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کے قیام سے لیکر اب تک بلوچستان میں سیاحت پر کبھی توجہ نہیں دی گئی تھی۔ اس صوبہ کی 750کلو میٹر طویل کوسٹل بیلٹ پر کوئی ٹورسٹ ریزارٹ نہ تھا۔سابق چیف سیکرٹری فضیل اصغر نے وزیراعلیٰ کی ہدایت پر جب کراچی سے گوادر تک کا سروے کروایا تو پتہ چلا کہ گڈانی میں ہر روز سینکڑوں سیاح سمندر کنارے آتے ہیں لیکن انکے بیٹھنے کیلئے ایک بنچ بھی موجود نہ تھا۔ پچھلے 74برسوں میں کسی حکومت نے بھی اس پر کبھی توجہ ہی نہیں دی تھی لہٰذا سلیکشن آف ٹورسٹ سائیٹس کی گئی اور گڈانی، کنڈملیر، پسنی، اور ماڑہ ، گوادر اور جیونی جو سن سیٹ پوائنٹ کے طور پر مشہور ہے، میں ٹورسٹ ریزارٹس ڈیزائن کرکے ان کی تعمیر شروع کروائی گئی۔ وزیراعلیٰ جام کمال بڑے ویژن کے حامل ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ سمندر کنارے پارکس بنانے پر کام شروع کروایا۔ بیوروکریسی کی طرف سے صوبے کی ترقی کیلئے دیے گئے تمام آئیڈیاز کو وزیراعلیٰ نے پولیٹکل اونر شپ دی جس میں پاک فوج کی مدد بھی شامل حال رہی۔ کوئٹہ سے سبی جاتے ہوئے 2گھنٹے کی مسافت پر ایک مقام پیر غائب آتا ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں ایک پہاڑ کے درمیان 6فٹ مربع کا ایک سوراخ ہے جس میں سے سینکڑوں سال سے پانی اتنی تیزی سے نکل رہا ہے جو 20کلو میٹر دور تک میدانی علاقے کو سیراب کرتا ہے جس کے بعد یہ پانی غائب ہو جاتا ہےاس جگہ کو بھی سیاحتی مقام ڈکلیئر کیا گیا۔ سابق کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل وسیم اشرف اور سابق آئی جی ایف سی جنرل فیاض احمد نے بلوچستان حکومت کے ان منصوبوں میں بھرپور مدد اور زیارت کو ڈویلپ کرنے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ موجودہ کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز بھی سیکورٹی چیلنجر سے نمٹنے کیلئے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لا رہے ہیں۔ بلوچستان میں سمندر کے کنارے ایک صحرا ہے جسے میانی ہور کہتے ہیں یہاں ڈولفن ہوتی ہیں جنہیں دیکھنے کیلئے لوگ کراچی سے آتے ہیں۔ اس مقام پر بھی دبئی کی طرز پر ڈیزرٹ سفاری اور ٹورسٹ ہٹس بنانے کا کام شروع کروادیا گیا۔ اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں پر ایک ریستوران ہے جہاں لوگ فیملیز کے ہمراہ آتے ہیں اور کھانا کھانے کے بعد قدرتی حسن سے محظوظ بھی ہوتے ہیں۔ اسی ریستوران کو دیکھتے ہوئے حنا لیک پر واقع ایک پہاڑ، جو سطح سمندر سے 65سو فٹ بلند ہے، پر اُسی نام سے ہی ایک زبردست اور خوبصورت ریستوران بنایا گیاہے۔ کوئٹہ کے شہریوں کے لئے اس سے قبل کوئی ایسا بیٹھنے کا مقام نہ تھا جہاں لوگ فیملیز کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا سکیں۔ اس ریستوران پر کھانا کھاتے ہوئے پورے کوئٹہ شہر کا نظارہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ جام کمال اورسابق چیف سیکرٹری کے آئیڈیل ورکنگ ریلیشن شپ کی وجہ سے کوئٹہ کی سڑکوں کی خوبصورتی، پی ایس ڈی پی پروجیکٹس منظور کرانے اور 100فیصد شفافیت کیلئے میکانزم بنانے، نئے صوبائی سیکرٹریٹ کا سنگ بنیاد رکھنے، سول سیکرٹریٹ بلڈنگ کی اپ گریڈیشن، کوئٹہ میں سول سیکرٹریٹ کے چھوٹے ملازمین کیلئے اپارٹمنٹس تیار کرنے جیسے اربوں روپے کے منصوبے اور پہلی بلوچستان ریونیو اتھارٹی کی آمدن 3.7ارب سے بڑھا کر 13.8ارب تک لے جانا ممکن ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر سیاسی قیادت اور افسر شاہی ملکر یکسوئی کے ساتھ کام کریں تو بلوچستان جیسا ترقی پذیر صوبہ بھی ایک روشن مثال بن سکتا ہے۔