پاکستان اور آئی ایم ایف

June 22, 2021

بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کیلئے 6ارب ڈالر کی توسیعی فنڈز سہولت (ای ایف ایف) کا چند ماہ کیلئے اس بنا پر ملتوی کرنا کہ اس کا متعلقہ عملہ قرضے کی شرائط کے نفاذ سے مطمئن نہیں ہے، جہاں ملکی معیشت کیلئے کچھ مسائل پیدا کر سکتا ہے وہاں حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی اور اس کے نتیجے میں سیاسی کشیدگی مزید بڑھانے کا سبب بن گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضے کے حوالے سے پاکستان اور عالمی ادارے کے نمائندے نچلی سطح کے معاہدے کا چھٹا جائزہ لے رہے تھے کہ باہمی اتفاق رائے پیدا نہ کر سکے، اس لئے معاملے پر مزید بحث ستمبر تک ملتوی کر دی گئی۔ اعلیٰ سرکاری ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ آئی ایم ایف بورڈ کو اس سال جولائی تک چھٹے جائزے کی منظوری لینا تھی لیکن ایک دوسرے کے نقطہ نظر سے اختلاف کم نہ ہونے کے باعث فیصلہ کیا گیا کہ جائزے کی تکمیل ستمبر تک مؤخر کر دی جائے۔ پاکستان میں آئی ایم ایف کے ریذیڈنٹ چیف سے جب اس بارے میں تحریری سوالات کی صورت میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم ای ایف ایف پروگرام کے تحت پالیسیوں کے نفاذ، ساختی اصلاحات اور معاشرتی اخراجات میں اضافے کے ذریعے پائیدار ترقی اور استحکام کی غرض سے قرض حاصل کرنے کیلئے پاکستان کی مدد جاری رکھنے کو تیار ہیں۔ مبصرین کے مطابق ان کے اس جواب سے یہ اشارہ ملا کہ چونکہ ای ایف ایف کے تحت جاری چھٹا جائزہ مکمل نہیں ہو سکا اس لئے آئی ایم ایف نے اس بات کا پتہ لگانے کیلئے ’دیکھو اور انتظار کرو‘کی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے کہ حکومت 2021-22کیلئے اپنے اعلان کردہ بجٹ پر کتنا ’ڈیلیور‘ کر سکتی ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے نمائندوں کا اجلاس بے نتیجہ رہنے کے اپوزیشن کیمپ نے اپنے نتائج نکالے ہیں۔ چنانچہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے فنڈز روک لئے ہیں اور ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی قرضے دینا بند کر دیے ہیں۔ ان کے خیال میں حکومت امریکہ کے ذریعے آئی ایم ایف سے اپنی شرائط منوانے کی کوشش کر رہی ہے جو قوم کیلئے اچھا نہیں ہوگا۔ ان کا اشارہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تزویراتی مسائل کی طرف تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ معاشی امور میں سٹرٹیجک معاملات کو شامل نہ کیا جائے۔ وزرات خزانہ کے ترجمان نے سابق وزیر خزانہ کے بیانیے کو رد کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام برقرار ہے اور توقع ہے کہ اس کا نیا مشن پورے سال کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے اگست میں پاکستان آئے گا۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے مارچ تک آئی ایم ایف کے تمام اہداف حاصل کر لئے ہیں جو بہترین کارکردگی کا مظاہرہ ہے۔ ورلڈ بینک نے بھی قرضے بند نہیں کئے۔ اس نے ایک روز قبل ہی ایک بڑے قرضے کی منظوری دی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی بیان بازی سے قطع نظر اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومت معاشی بحالی کیلئے وزیراعظم عمران خان کے وژن کے مطابق تمام ضروری اقدامات کر رہی ہے۔ ان میں بیرونی قرضوں کا حصول بھی شامل ہے لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دوست ممالک یا بین الاقوامی ادارے غیر مشروط قرضے نہیں دیتے۔ ان کے بدلے کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف امریکہ کے زیر اثر ایک طاقتور ادارہ ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو اپنے حلقہ اثر میں رکھنے کیلئے وہ من مانی شرائط منوانے کیلئے بدنامی کی حد تک مشہور ہے۔ حکومت کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ قومی مفادکے منافی اس کی کوئی شرط قبول نہ کرے اور معاشی اصلاحات کیلئے اس کے تقاضے پورے کرتے وقت ملکی مفادات کو اولیت دی جائے۔