پنجاب میں زیر ِزمین پانی!

June 22, 2021

ماہرین کے مطابق پاکستان میں ضرورت کا 90فیصد پانی کھیتی باڑی اور باقی پینے اور دیگر ضروریات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ 1960ءکی دہائی تک بیشتر میدانی علاقوں میں زیرِزمین سطح آب سیم و تھور کا مسئلہ پیدا ہو جانے کی حد تک بلند تھی۔ دریاؤں کی بہتر صورتحال کی بدولت پنجاب و سندھ میں حسب ضرورت آبپاشی کے لئے پانی میسر تھا۔ تاہم مستقبل میںپیدا ہونے والے ممکنہ مسائل سے متعلق عالمی ماہرین کی بار بار تنبیہ کی باوجود کوئی قابلِ ذکر منصوبہ بندی نہ ہونے کا یہ نتیجہ نکلا کہ آج دریاؤں میں بحرانی کیفیت اور زیر زمین سطح آب انتہائی تشویشناک حد تک گر چکی ہے۔ عالمی بینک کی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 2020ءمیں زیر زمین پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ حالانکہ اس کی مقدار تین بڑے ڈیموں میں مجموعی ذخیرے سے 80گنا زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی، موسمیاتی تغیرات اور زیر زمین پانی کے مسائل سے نمٹنے کے فقدان کے باعث تازہ اور میٹھے پانی کے معیار اور ذخیرے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس صورتحال میں اتوار کے روز وزیراعظم عمران خان نے قوم کو ایک حوصلہ افزا رپورٹ ٹویٹ کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آبی تحفظ کی ری سائیکلنگ پالیسی، ایکوفر چارجنگ، زیرزمین بارشی پانی کے ذخیرے، ٹائم ڈویل پمپنگ اور دیگر اہداف کی بدولت پنجاب میں زیر زمین پانی کی سطح گرنے کا عمل رک گیا ہے۔ وزیراعظم کے اس پیغام کے باوجود حقیقتاً بحیثیت مجموعی ملک بھر میں زیر زمین پانی کی صورتحال غیریقینی کیفیت کا شکار ہے۔ بلوچستان کی زیادہ تر آبادیوں اور سندھ کے کئی اضلاع میں پانی میسر ہی نہیں۔ وزیراعظم کے اس پیغام کی روشنی میں ضروری ہے کہ وفاقی صوبائی حکومتیں قومی اور انفرادی سطح پر ملک کے طول وعرض میں پانی ذخیرہ کرنے کے قابلِ عمل منصوبے بنائیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998