پھر غربت اور سرمائے کی عالمی جنگ

June 22, 2021

(گزشتہ سے پیوستہ)

قارئین کرام! 19جون کے ’’آئین نو‘‘ میں واضح کیا گیا کہ کس طرح جلد جلد عالمی اہمیت کی حامل خبروں کے تناظر میں ’’پھر سے غربت اور سرمائے کی انوکھی عالمی جنگ کا آغاز ہو چکا۔ ان ہی حالات حاضرہ میں عالمی سیاست کی تفریق نو بھی واضح ہو گئی ہے‘‘۔تہذیب انسانی کے عروج پر جو بہت کچھ بہتر ہوا، ریورس ہو گیا اور ہو رہا ہے۔آج بنے عالمی منظر کے مختصر ترین عرصے میں اتنی بڑی اور حیرت انگیز تبدیلی (PARADIGME SHIFT)جتنا پیچیدہ ہے اتنا ہی دلچسپ اور باعث تشویش بھی۔اس کے اتنے ہی دوررس نتائج تو نکلیں گے ہی ، لیکن اب نکلتے بھی حیرت کا سامان لئے مستقبل قریب میں نکلنے والے نتائج کی نشاندہی کر رہے ہیں ۔ان بڑی سیاسی معاشی عالمی تبدیلیوں کے متوازی ایسے قدرتی حالات بھی پیدا ہو رہے ہیں جو کسی فریق کی قدرتی تائیدوحمایت کے زمرے میں آتے ہیں تو کسی اور فریق کے خلاف ان کے قدرتی چال ہونے کا گمان ہوتا ہے ۔سوویت کشورکشائی 1917-91،امیر و غریب سے بالا، مساوات پر مبنی غیر طبقاتی معاشرے ( کلاس لیس سوسائٹی) کے قیام کی ترغیب کے زور پر ریاستی استبداد قائم ہوئی تھی۔ بالشویک انقلابی عزائم کے مطابق اس نے روس سے نکل کر پوری دنیا کو اسی رنگ میں رنگنا تھا، جیسا کہ 1922کی ماسکو انٹرنیشنل کانفرنس میں عزم باندھا گیا، جو آنے والے سالوں میں سوویت خارجہ پالیسی کا کارنر سٹون ثابت ہوا ۔ انقلاب سنبھلنے پھر دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ماسکو کو اس کا عملاً موقع ملا تو شمال میں برفتان کی نیچرل ہارڈ شپ نے اور جنوب میں بحرہ عرب کے گرم پانیوں تک رسائی میں پاکستان کے امریکی اتحادی ہونے کی عالمی سیاست ، روسی انقلاب کو دنیا تک پہنچانے کے عزائم میں حائل ہو گئی ۔ امریکی زیر اثر ترکی کا استنبول نیٹو کا بحری ہیڈ کوارٹر بن گیا اس عظیم عسکری اتحاد میں امریکہ کے بعد دوسری بڑی فوج ترکی کی ہے گویا دونوں اہم اسلامی ملک نان بلیوراشتراکی طاقت کے خلاف نئی بلیور سپرپاور اور امریکن اینگلو بلاک کے زبردست اسٹرٹیجکل پارٹنر بن گئے ۔ ٹرکی نیٹو کا اور پاکستان سیٹو سینٹو کے سرگرم اور آپریشنل فرنٹ لائن پارٹنر بنائے گئے۔ یوں روسی کشور کشائی اپنی اندرونی تمام تر طاقت کے ساتھ جکڑی گئی اور کلاس لیس سوسائٹی کے خواب خرگوش کی تعبیر کے اقدامات پر سرخ جنت کا جبرو استبداد، خوف، ہراسگی اور انکار خدا کی جبراً و عملاً پیروی کا دبائو حاوی ہو گیا۔ روس کی تحلیل تک سوویت سلطنت کے مختلف علاقوں میں زندگی کا معیار متضاد رہا۔اظہار رائے کی آزادی سے یکسر محرومی نے جبر سے قائم روسی کشور کشائی کو مقابلے کی عسکری طاقت سمیت اشتراکی پنجرے میں محدود تر اور دنیا کو بڑی حد تک کمیونزم کے امکانی غلبے سے محفوظ رکھا، اس اسٹیٹس کو میں روس کو پروپیگنڈے، جارحانہ سفارتکاری اور کمیونزم کی مہنگی لیکن محدود اثر کی سیاسی و نظریاتی تبلیغ پر انحصار کرنا پڑا ۔یہ ہی وہ سرد جنگ تھی جس میں بھاری اخراجات سے سیاسی و مذہبی آزادی کو غصب کرکے اپنی ریاستی حدود میں بھی کلاس لیس سوسائٹی تشکیل نہ دے سکا، دنیا میں اس کو ممکن بنانے کا خواب تو سرد جنگ کے پہلے ہی سال میں چکنا چور ہو گیا، تاہم ممکنہ سرگرم سفارتکاری اور عالمی سطح پر خفیہ سرگرمیوں سے سوویت یونین مختلف خطوں میں اپنی زیر اثر تنظیمیں، خال خال حکومتیں بھی بنانے میں بھی کامیاب رہی،جسے امریکن اینگلو بلاک نے سرد جنگ میں اس کی محدود کامیابیاں سمجھ کر ہضم کئے رکھا۔ اس ساری عالمی سیاست میں ماسکو کو بڑی کامیابی بھارت کو امریکی اثر سے بچائے اور اپنی طرف مائل رکھنے کی صورت میں حاصل ہوئی۔ایران کا اسلامی انقلاب 1979اس سال کابل کی دائود حکومت کا اسلام آباد اور ریاض سے بہتر دو طرفہ تعلقات کی طرف مائل ہونا، اس سے قبل پاکستان میں مارشل لا کا نفاذ اور واشنگٹن کا ’’اسلامک بم‘‘ پروگرام ترک کرنے کا دبائو لیکن بھٹو حکومت کے بعد بھی فوجی حکومت کی مزاحمت نے ماسکو کے لئے قدرے سازگار صورت بنا دی افغان فوج میں اپنے گہرے اثر کا فائدہ اٹھا کر وہ دائود حکومت کا تختہ الٹا کر کابل میں مرضی کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ۔کابل سے انقلاب ثود 1978برپا ہوا اس کی سب سے بڑی ترغیب بھی خاتمہ غربت اور افغانستان کو جدید بنانا تھا ۔ایران و پاکستان سے بڑھتی امریکی دوری نے بالآخر کریملن کے عزائم کو عمل میں ڈھالنے کا پہلا قدم اٹھانے کی دیدہ دلیری پیدا کر دی، جس کی عملی شکل کابل میں ترکی حکومت کے مقابل مکمل کٹھ پتلی امین حفیظ حکومت کا قیام اور ساتھ ہی افغانستان میں ایک لاکھ مکمل مسلح روسی فوج کے جارحانہ داخل ہونے کی صورت میں آئی۔اس سے قبل کہ کارٹر حکومت اسلام آباد سے اپنے روایتی تعلقات کی بحالی کا بڑا یوٹرن لیتی ،ضیاء حکومت نے مزاحمتی افغان عوام کی حمایت اور کابل کی پپٹ گورنمنٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے روسی جارحیت کی مذمت کرتے دنیا پر اتنا واضح کر دیا کہ ’’کمیونزم پاکستان کے دروازے کھٹکھٹا رہا ہے‘‘ اور جیسے تیسے افغان جہاد کا کھلا معاون بن گیا۔

افغانستان پر کھلی سوویت جارحیت مسلم دنیا کی حکومتوں اور عوام کے لئے (ایٹ لارج) تو جہاد میں شرکت اور اس کی بھرپور معاونت کا موقع بنی لیکن اس پر امریکہ کی رخصت ہوتی کارٹر اور خصوصاً دو ٹرم والی ریگن انتظامیہ کے فیصلے اور حکمت ہر دو بہت حقیقت پسندانہ ثابت ہوئے آنے والی حکومتوں نے اسے نہ پڑھا نہ سمجھا۔سوویت یونین کی شیرازہ بندی اور اس کے پس پردہ سب سے بڑی وجہ بلیور امریکن اینگلو کے اشتراک سے روسی فوجوں کے انخلا تک ماسکو کو اس حالت میں لے آنا سوویت ایمپائر ہی قائم نہ رہ سکی ،جدید تاریخ کا یہ ایسا واقع ہوا کہ یہ انتہائی کارآمد بڑے بڑے اور نتیجہ خیز اسباق سے پر تھا۔ امریکہ کے ’’مرزا یار‘‘ بننے کے خواب کے شرمندہ تعمیر ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے مطلوب درجے پر پرامن خوشحال ہونے کا سارا ساماں تیار ہوگیا۔اگرچہ افغان جہاد میں پاکستان اور افغان عوام کے لئے مثالی کردار کے بغیر اس کےمطلوبہ نتائج کا حصول ممکن ہی نہ تھا لیکن اس کامیابی کے ساتھ ہی امریکن اینگلو بلاک میں جہاد کا نتیجہ نکلتے ہی اس (جہاد) کا زاویہ ’’اسلامی بنیاد پرستی‘‘ میں تبدیل نہ ہوتا اور ایک انجانا خوف یا شرارت پیدا نہ ہوتی تو پاکستان اور افغانستان میں جوبھی کچھ ہوتا وہ کسی طرح بھی امریکی مغربی مفادات کے خلاف نہ ہوتا۔امریکہ فقط ’’مرزا یار‘‘ ہی نہ رہتا دنیا کی واقعی قابل قبول (ایٹ لارج) تنہا عالمی طاقت مانا جاتا۔عالمی امن کے قیام ،تنازعات پرامن طریق سے حل ہوئےبغیر جنگ وجدل، مار دھاڑ اور بلیم گیم کے وہ فراہمی انصاف اور خوشحالی اور مانی جانے والی گائیڈنس کا ذریعہ و مرکز بننا مطلوب ہیں تو ممکنہ حد پر بھائی چارے کی حد تک گلوبل سوسائٹی کے قیام کا آغاز ہو کر، دنیا آج اسے بغیر کسی چیلنج کے مطلوب ورلڈ آرڈر میں اس کے کردار کو بمطابق تسلیم کرتی ،لیکن حیرت ہے کہ امریکہ اس سیدھے، واضح اور ہموار راستے کے برعکس ایک نہیں کئی کئی گم راہوں کا متکبرفاتح بن کر ان پر چل پڑا حتیٰ کہ افغانستان کے چھتے میں ہاتھ ہی نہیں ڈالا بلکہ یہاں نیٹو سمیت تسلسل سے براجمان ہونے کے لئے پوری دنیا کو اور گھمبیر کر دیا۔(جاری ہے)