خطے کی بدلتی صورت حال اور پاکستان

June 22, 2021

وزیراعظم عمران خان نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان کسی بھی صورت امریکہ کو اڈے نہیں دے گا۔ وزیراعظم کا یہ بیان پاکستان کے موقف کا اظہار ہےاورظاہر ہے کہ ان کے اس پالیسی بیان کو پاکستان کےاہم ترین اداروں کی تائید حاصل ہوگی۔ اس طرح کے بیانات جن کا تعلق بین الاقوامی اہم معاملات سے ہو وہ یکدم اور جذبات میں نہیں دیئے جاتے۔ یقیناً کافی غوروخوض کے بعد وزیراعظم پاکستان نے یہ بیان دیا ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ پاکستان کا یہ موقف ازخود اور یکطرفہ طور پر سامنے نہیں آیا بلکہ یہ بیان افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا شروع ہونے کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوج کے انخلا کے ابتدا سے ہی پاکستان سے یہ مطالبہ شروع کردیا تھا کہ افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد وہاں پر نظر رکھنے اور بوقت ضرورت جنگی جہازوں اور ڈرون حملوں کے لئے پاکستان، امریکہ کو حسب سابق ہوائی اڈے فراہم کرے۔ اس سلسلے میں متعدد بار امریکی اہم عہدیداروں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں۔ اب پاکستان نے حتمی طور پر اس بارے میں اپنے موقف کا واضح اور دوٹوک اظہار کیا ہے۔ اس کے باوجود بعض افراد کی طرف سے شکوک و شبہات کا اظہار کیاجاناانتہائی نامناسب ہے بلکہ یہ پاکستان کے واضح موقف کو مشکوک بناتا ہے جو کسی بھی طرح ملکی مفاد میں نہیں ۔ اس لئے ملکی اور قومی مفاد کے معاملات پر سیاست چمکانے، کسی کو خوش کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ ملکی اور قومی ایشوز پر توحکومت اور اپوزیشن کو اتحاد اور یگانگت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ معاملہ پر تمام اپوزیشن رہنمائوں کے اجلاس کا انعقاد کرے اورا س حوالہ سے تمام حقائق اور خطے کی صورتحال اپوزیشن رہنمائوں کے سامنے رکھتے ہوئے ان کو اعتماد میں لے۔ ملکی اور قومی معاملات پر تمام سیاسی اختلافات اور انائوں کو پس پشت ڈال کر یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہی ملک و قوم سے محبت اور خیر خواہی ہے۔پاکستان کے اردگرد بلکہ پورے خطے میں حالات کی تبدیلی جاری ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلیاں اس بات کی غماز ہیں کہ مستقبل قریب میں اس خطہ اور یہاں کے حالات کا نقشہ کچھ اور ہوگا اس میں کوئی شک نہیں مستقبل میں اس خطہ کے لئے پاکستان کا کلیدی کردار ہوگا اور اس وجہ سے کچھ مشکلات بھی درپیش ہوسکتی ہیں جس کے لئے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے دفاعی اور اہم ادارے ان حالات سے نہ صرف باخبر ہیں بلکہ بدلتی صورت حال اور تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں اور مضمرات و نتائج پر بھی اُن کی گہری نظر ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ان تبدیلیوں کو سنجیدہ نہیںلے رہیںصرف سیاسی مفادات اور اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف ہیں۔ بلکہ بعض ایسے بیانات بھی سامنے آئے ہیں جو ملکی و قومی مفادات کے یکسر خلاف ہوتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ بعض سیاسی رہنما محب وطن نہیں ہیں یا ان کو ملکی اور قومی وقار و سلامتی عزیز نہیں ہے۔ لیکن وہ ہر ملکی و قومی مفاد کے فیصلوں اور تجاویز کو سیاست کےترازو میں تولتے ہیں اور ایک دوسرے پر تنقید اور اختلاف برائے اختلاف کو اہمیت دیتے ہیں جو کسی طور درست نہیں ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 24جون کو مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت پر فیصلے کیلئے کشمیری سیاسی جماعتوں کا اہم اجلاس بلایا ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ کشمیری قائدین توتاحال بھارتی قید میں ہیں پھر اس عجیب و غریب اجلاس اور اس میں کئے جانے والے فیصلوں کی کیا اہمیت ہوگی اور ان فیصلوں سے کشمیری عوام کس بہتری کی امید رکھیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ اس بے معنی اجلاس کا کشمیری عوام کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ صرف مقبوضہ کشمیر کی بطور ریاست بحالی کا اعلان کیا جاسکتا ہے لیکن اس بات کا امکان نظر نہیں آتا کہ مقبوضہ کشمیر کی ختم کی گئی خصوصی حیثیت کو بحال کیا جائےگا۔ اس لئے یہ اجلاس محض ایک ڈرامہ اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا۔ اگر بھارت اس معاملہ میں مخلص ہے تو فوری طور پر عرصہ دراز سے قید تمام کشمیری رہنمائوں، کارکنوں اور کشمیری نوجوانوں کو رہا کرے اور ان تمام رہنمائوں کو اس اجلاس میں مدعو کرے۔

ایران کے صدارتی انتخابات میں اہم مذہبی و سیاسی رہنما سید ابراہیم رئیسی کامیاب ہوگئے ہیں جو آئندہ ایران کے صدر ہوں گے۔ سید ابراہیم رئیسی انقلاب ایران کے بعد کئی اہم مناصب پر تعینات رہے ہیں۔ ان کا شمار امام خمینی کے بااعتماد ساتھیوں اور سپریم کمانڈر کے قریبی افراد میں ہوتاہے۔ ان کے صدر بننے کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیوں کا امکان ہے۔ جو نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا اوربالخصوص اس خطے میں اہم تبدیلیوں کا باعث ہوں گی۔ یقینی طور پر ان کے دور صدارت میں ایران کی خارجہ پالیسی اور بعض فیصلے صدر روحانی سے نہ صرف بہت مختلف ہوں گے بلکہ بعض ممالک کے بارے میں سخت بھی ہوسکتے ہیں۔

افغانستان کی صورت حال تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ طالبان کا مختلف اضلاع پر قبضہ کرنا اورمزید پیش قدمی جاری ہے۔ بظاہر افغان امن معاہدہ اس حد تک مکمل طور پر معطل ہے کہ اس پر کسی قسم کی نہ پیش رفت ہورہی ہے نہ بات چیت۔ بلکہ یہ کہنا درست ہوگاکہ افغان امن معاہدے کی آڑ میں صرف امریکہ کو فوجی انخلا کے لئے محفوظ حالات دستیاب ہوئےہیں۔ امریکہ کو افغانستان کی بگڑتی صورت حال اور نتائج کا ادراک ہے اس لئے وہ تیزی سےاپنی فوج نکال رہا ہے۔ میں نے کئی ماہ پہلے افغان امن معاہدہ اوروہاں کے آنے والے حالات کا علم الاعداد کی روشنی میں اپنے کالم میں تفصیلی ذکر کیا تھا جس کا عنوان تھا ’’ہنوز دلی دور است۔‘‘اور اب وہی صورتحال سامنےہے اور مستقبل قریب میں بھی وہی نقشہ بنتا نظر آرہا ہے ۔ پاکستان، افغانستان کے آئندہ حالات سے متاثر ہوسکتا ہے جس کے لئے پاکستانی دفاعی ادارے تیار اور کمربستہ ہیں۔