سندھ کے عوام کی سامراجی قوتوں کیخلاف جنگیں

June 22, 2021

میں دراصل سندھ کی صدیوں پر محیط تاریخ کے بارے میں کچھ حقائق پیش کرنا چاہتا ہوں،میرے ’’سندھ امن کی دھرتی‘‘ کے عنوان سے تین چار کالم شائع ہوئے ہیں، میں سندھ کی جو تاریخ لکھنا چاہتا تھا اس کا پہلا باب یہی ہوسکتا تھا کہ سندھ امن کی دھرتی تھی اور ہے،سندھ نے نہ کسی علاقے پر جارحیت کی اور نہ نفرت کا اظہار کیا۔ یہ تو سندھ کی تاریخ کا ایک پہلو ہے جبکہ سندھ ایک یونیک قسم کی سرزمین ثابت ہوئی ہے۔ میں نے پچھلے کالموں میں ’’سندھ امن کی دھرتی‘‘ کا عنوان سندھ کے ممتاز قومی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کے ایک شعر سے متاثر ہوکر اپنایا تھا‘ میں ایک بار پھر یہ شعر مختصر طور پر یہاں دہراناچاہتا ہوں جس میں کہا گیا ہے ’’ہوچو نئی‘ توں م چئہ واتئوں ورائے‘‘ ’’اگ اگرائی جو کرے خطا سو کھائے‘‘۔ اس کا اردو ترجمہ ہے کہ ’’وہ تجھے کچھ بھی کہے تو اپنے منہ سے اسے کوئی جواب نہ دو‘‘ ’’جو پہل کریگا،سزا اسی کو آئے گی‘‘۔ موجودہ کالم کا عنوان بھی میں نے شاہ عبدالطیف بھٹائی کے ایک اور شعر سے متاثر ہوکر منتخب کیا ہے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی کا یہ شعر کہتا ہے کہ ’’ہن بھالا‘ وڑھ بھاکریئن‘ آڈی ڈھال م ڈھال‘ متھان تیغ ترار‘ مارتہ متاروتئیں‘‘۔ اس کا اردو ترجمہ ہے ’’جب آپ پر جنگ مسلط کی جائے تو نیزوں سے دشمن کو مارو، ضرورت پڑے تو بازئوں سے بھی لڑو،اوپر سے تیز تلوار سے حملہ کرو تاکہ تجھے طاقتور تسلیم کیا جائے‘‘۔ جن لوگوں نے سندھ کی تاریخ کا کسی حد تک مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ جب بھی کسی سامراجی قوت نے سندھ کے کسی علاقے پر جنگ مسلط کی تو سندھ نے اس سے تب تک جنگ جاری رکھی جب تک یا تو وہ سامراجی قوت شکست کھاکر ملک سے بھاگ نہیں گئی یا پھر سندھ کی اس وقت کی قوت کے سامنے اس نے ہتھیارنہیں ڈالے۔ میرے آج کے اس کالم کا تعلق بھی ایک سامراجی قوت کے ساتھ سندھ کے عوام کی خونریز جنگ ہے۔یہ طاقت اور کوئی نہیں بلکہ یہ ہندوستان پر قبضہ کرنے والا انگریز سامراج تھا۔ انگریز سامراج کے خلاف یہ جنگ سندھ کے روحانی رہنما جن کو پیر پگارا کہا جاتا ہے کی قیادت میں ان کے مرید ’’حروں‘‘ نے لڑی۔ اس ایشو پر سندھ میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اس وقت میرے پاس فقط دو کتابیں ہیں،ایک کتاب کا عنوان ’’حر تحریک‘‘ ہے‘ یہ کتاب پروفیسر محمد عمر چنڈ نے لکھی ہے،اس کتاب کے سرورق پر لکھا گیا ہے ’’انگریز سامراجیت کے خلاف حروں کی سو سالہ جنگ‘‘۔ اس سلسلے میں جو دوسری کتاب ہے وہ سندھ کے ممتاز دانشور محمد عثمان ڈیپلائی کی لکھی ہوئی ہے۔ ڈیپلائی صاحب نے حر تحریک کا انتہائی نزدیک سے جائزہ لیا ، اس کے بعد انہوں نے اس ایشو پر ’’سانگھڑ‘‘ نام سے ناول لکھا ۔ ناول کے آخر میں ڈیپلائی صاحب نے ایک اہم نوٹ لکھا ہے جس کے کچھ اہم نکات میں یہاں پیش کررہا ہوں : ’’یہ ناول سندھ کی اس زبردست انقلابی تحریک کے حالات پر مشتمل ہے جو 1938 سے لیکر 1947 تک نہایت زور و شور سے چلتی رہی۔اس جنگ میں انگریز سامراج اور ان کے ایجنٹوں کی طرف سے اندازاً بیس ہزار سندھی مارے گئے،اندازاً ایک لاکھ سندھیوں کو قید کیا گیا،پانچ لاکھ کے قریب سندھی دربدر ہوئے،ان کی اندازاً ایک ارب مالیت کی املاک کو لوٹا گیا مگر بہادر سندھیوں نے بھی ان کی اس جارحیت کا جواب ’’وطن یا کفن‘‘ کا نعرہ لگاکر دیا۔ انگریز کے بھی ملٹری اور پولیس سے تعلق رکھنے والے سیکڑوںافراد مارے گئے یا زخمی کیے گئے اور ساتھ ہی کافی مال غنیمت بھی ہاتھ آیا۔اس تحریک کو تیسری حر تحریک کہا جاتا ہے۔یہ تحریک ’’مجاہد اعظم‘‘ امام الاحرار حضرت پیر سید حاجی صبغت اللہ شاہؒ کی قیادت میں شروع ہوئی۔ اس جہاد میں سندھ کی بہادر عورتوں نے جو حصہ لیا اور جس طرح ’’مردودوں‘‘ کو جہنم رسید کیا اس کے بارے میں مفصل تذکرے اس کتاب میں خاص طور پر کئے گئے ہیں۔ اس ناول میں آپ کو انگریز سامراج کے آخری دس سال میں اس سامراجی حکومت کا صحیح نقشہ نظر آئے گا کہ سندھ چھوڑنے والے دنوں میں ان کے دور حکومت میں کیسی افراتفری، وحشت اور کیسی اندھیر نگری کا راج تھا۔

اس ایشو پر لکھی گئی دوسری کتاب ’’حر تحریک‘‘ کے ناشر علی راز شر نے اس کتاب کے تعارف میں جو نوٹ لکھا ہے اس کے بھی چند نکات میں یہاں پیش کررہا ہوں : ’’سندھ کی دھرتی کی یہ خوبی رہی ہے کہ جو بھی یہاں آیا وہ اس دھرتی کا ہوگیا اور اس میں امن پسندی اور قناعت پسندی آگئی۔ یہی سبب ہے کہ سندھ کے عوام نے کبھی دوسرے ملکوں پر حملہ نہیں کیا۔ اس کے برعکس سندھ کی خوشحالی اور اس کے سرسبزہونے کے باعث ہمیشہ دوسری قوموں نے یہاں پر حملے کیے،پھر وہ ایرانی ہوں یایونانی ،عرب ہوں،انگریز یا ڈچ ہوں، سب نے سندھ پر اپنی قسمتیں آزمائیں اور یہاں کے پرامن انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیلا۔ دوسری طرف سندھ کے بہادر جوانوں نے ہمیشہ ایسی سامراجی قوتوں کا مقابلہ کیا۔ کبھی ہیموں کالانی،کبھی مخدوم بلاول،کبھی شاہ عنایت شہید،کبھی ہوش محمد شیدی اور کبھی پیر پگارا حضرت صبغت ﷲ شاہ راشدی کی قیادت میں، سندھ کے ان سپوتوں نے ہمیشہ ظالم قوتوں سے مقابلہ کیااور ان کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ (جاری ہے)