صدیوں سے لکھی جانے والی آتم کتھا

June 22, 2021

ایک صوفی کی آتم کتھا بیان کرنے سے پہلے میں آپ کو کرشن چندر کے جگ مشہور ناول ’’غدار‘‘ سے ایک اقتباس سنانا چاہتا ہوں۔ تقسیم ہند کے آس پاس ہونےوالے خون ریز فسادات کے پس منظرمیں لکھے گئے ادب میں ناول ’’غدار‘‘ اعلیٰ مقام رکھتا ہے۔ اس ناول کی برصغیر میں لاکھوں کاپیاں بک چکی ہیں۔ ناول سردست میرے سامنے نہیں ہے۔ اس لئے اقتباس میں ہو بہو وہی پیراگراف عین اسی طرح لکھنے سے قاصرہوں۔ مگر پیراگراف کا پیرا یہ وہی ہے۔ فسادات کی آگ نے برصغیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ محبتیں، چاہتیں، دوستیاں، رشتے ناتے جل کر خاکستر ہو رہے تھے۔ ایسے میں ناول کا ہیرو بیجناتھ لاہور سے امرت سر جانےکے لئے دریا میں کود پڑتا ہے۔ دریا کے بیچوں بیچ بیجناتھ محسوس کرتا ہے کہ اس کا کتا تیرتے ہوئے اس کے پیچھے آرہا تھا۔ بیجناتھ پلٹ کر اپنے کتے سےکہتا ہے کہ تو نہ ہندو ہے، تو نہ مسلمان ہے۔ پھر تو کس سے جان بچانے کے لئے بھاگ رہا ہے؟ تو واپس چلا جا ۔ کوئی تجھے کچھ نہیں کہے گا۔

اب آپ ایک صوفی کی آتم کتھا، آٹو بائیوگرافی سنیے۔ یہ چھ صفحوں پرمشتمل آتم کتھا نہیں ہے۔ یہ چھ سو صفحوں پر مشتمل آتم کتھا نہیں ہے۔ یہ چھ ہزار صفحوں پر لکھی ہوئی آتم کتھا نہیں ہے۔ اس آتم کتھا کی ابتدا تب سے ہوئی تھی جب پہلے صوفی نے جنم لیا تھا۔ یہ لگا تار لکھی جانےوالی آتم کتھا ہے۔ یہ آتم کتھا تب تک لکھی جائے گی جب تک ایک صوفی جنم لیتا رہے گا۔ اورکسی قدیم یا جدید باب میں سر عام وحدت الوجود Union With Universal Truth کی تصدیق کرتا رہے گا۔آپ کو ایک اہم بات بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ میں پیدائشی جھوٹا ضرور ہوں، مگر میں کسی سے کچھ نہیں چھپاتا۔ میرا صوفیوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ایک مرتبہ موج مستی کی کیفیت میں جنرل پرویز مشرف نے پاکستان صوفی کونسل بنانے کا فیصلہ سنا دیا تھا۔ خود پاکستان صوفی کونسل کے تاحیات صدر بن بیٹھے تھے، اور چوہدری شجاعت حسین کو صوفی کونسل کا سیکرٹری جنرل لگا دیا تھا۔ من موجیوں کے دیکھا دیکھی، میں بھی صوفی کونسل کا ممبر بنا تھا اورزندگی میں پہلی مرتبہ صوفی کہلانے میں آیا تھا۔ مجھے اچھا لگا تھا۔ ہم کھاتے تھے، پیتے تھے اور رنگ رلیاں مناتے تھے۔ اگر صوفی ایسےہوتے ہیںتو پھر میں زندگی بھرصوفی بننے کو تیار بیٹھا تھا۔ مگر میری بدقسمتی تھی کہ ایک روز ہم نے عروج کازوال دیکھا، نہ رہے جنرل پرویز مشرف اور نہ رہی پاکستان صوفی کونسل۔ ہم کچھ دیر کےمن موجی صوفی تتر بتر ہو گئے۔ ایک اعتراف کر دوں۔ ضروری سمجھتا ہوں۔ جنرل پرویز مشرف کے صوفی کونسل میں من موجی صوفی بننے کی ایسی لت پڑی کہ میں اور صوفی کونسل کے دیگر من موجی صوفی آج تک صوفی کہلوانے میںآتے ہیں۔ ہم من موجی صوفی تگڑم قسم کے صوفی ہوتے ہیں۔ ہم تگڑم صوفیوں کی ایک بڑی پہچان یہ ہے کہ جو ناقص دیوارہم خود بناتے ہیں، وہ دیوار جب گرنے لگتی ہے تب اس دیوار کو آخری دھکا ہم خود دیتےہیں۔ ہم تگڑم صوفیوں کی ایک اہم پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ ہم پرانے رشتے ناتے توڑنے اورنئے رشتے ناتے جوڑنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ آپ کو سن کر خوشی ہو گی کہ پاکستان میں من موجی صوفیوں کی بھر پور طریقہ سے افزائش ہو رہی ہے۔ من موجی صوفیوں کی تعداد بتدریج بڑھتی جارہی ہے۔ اگر آپ چاہیں، تو آپ بھی من موجی صوفیوں کی صف میں شامل ہو سکتےہیں۔ اس کے لئے آپ کو کسی قسم کی تپسیا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس کھائیں، پئیں، اور موج کریں اور ببانگ دہل اپنے آپ کو صوفی کہلوائیں۔ مگر صدیوں سے آتم کتھا لکھنےوالے خود کو صوفی ظاہر نہیں کرتے۔ جب آپ صوفی ہوتے ہیں تب آپ کو کسی قسم کا سوانگ رچانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ہم جھوٹوں کا ظرف ہے کہ جو صوفی ہوتےہیں۔ ان کاموازنہ ہم اپنے من موجی صوفیوں سےنہیں کرتے۔ ہم جھوٹوں کی بات یاد رکھیں کہ آپ پیدائشی، فطر تاً صوفی ہوتے ہیں۔ آپ صوفی بن نہیں سکتے۔ آپ کھانے پینے والے من موجی صوفی تو بن سکتے ہیں۔ مگر آپ صدیوں سے لکھی جانےوالی آتم کتھا کے صوفی مصنف نہیں بن سکتے۔ سیدھی سی بات ہے۔ آپ صوفی ہوتےہیں یا پھر آپ صوفی نہیں ہوتے۔ آپ کسی بھی قیمت پرصوفی بن نہیں سکتے۔ آپ صوفی ازم Mysticism کے بارے میں ایک ہزار ایک کتاب پڑھ لیں۔ آپ صوفی مت پر لیکچر تو دے سکیں گے ، مگر آپ صوفی نہیں بنیں گے۔ وجہ؟ صوفی ہوتے ہیں۔ صوفی بنتے نہیں۔ صوفی ہونا اور صوفی مت کے بارے میں علم رکھنا دو الگ الگ حقیقتیں ہیں۔ کسی روز الگ تھلگ اس موضوع پر بات چیت ہو گئی۔

ہم تگڑم قسم کےصوفی بڑے ہی استاد قسم کےآدمی ہوتے ہیں۔ ہم ساس کو بہو اور بہو کو ساس بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ چونکہ ہم کاپی کلچر میں پل کر جوان، ادھیڑ اور بوڑھےکھوسٹ ہوئے ہیں۔ اس لیے تانک جھانک سے باز نہیں آتے۔ صدیوں سے لکھی جانےوالی ایک صوفی کی آتم کتھا تک میری رسائی نہیں ہے۔ تانک جھانک کے دوران جو سطر، جوپیرا گراف پڑھنے کومل جائے ، آپ سب کو سناتا ہوں۔