پی ایس ایل6 اختتامی مراحل میں، فاتح کون فیصلہ جمعرات کو

June 22, 2021

ابوظبی کی سخت گرمی میں پاکستان سپر لیگ کے میچ اب اختتام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔پی ایس ایل سکس کا فاتح کون ہوگا اس کا فیصلہ جمعرات کی شب ہوجائے گا اور جمعے کو پاکستانی کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے لئے اڑان بھرے گی۔جہاں بابر اعظم کی قیادت میں پاکستان ٹیم کو ایک مشکل ٹیم کے خلاف اپنے کھلاڑیوں کو آزمانے کا موقع ملے گا۔یقینی طور پر انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کی کارکردگی پاکستان ٹیم کے لئے اہم ہوگی۔پی ایس ایل کی کارکردگی پر اگر سلیکٹرز کو پاکستان ٹیم کا انتخاب کرنا پڑتا تو کئی کھلاڑی شائد فلائٹ میں نشست حاصل کرنے میں ناکام رہتے۔

پاکستانی ٹیم کے بڑے بڑے کھلاڑی جن میں فخر زمان،محمدحفیظ،اعظم خان، حارث روف،شاداب خان قابل ذکر ہیںپی ایس ایل میں کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔پاکستان سپر لیگ سکس میںشاہ نواز دھانی کی کارکردگی غیر معمولی رہی۔دانش عزیز،صہیب مقصود اور شان مسعود کی کارکردگی نے ثابت کیا کہ سلیکٹرز نے شائد ان کا نام ٹیم میں شامل نہ کرکے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے۔پی ایس ایل کے آخری چند میچوں میں مزید اچھی کارکردگی سامنے آسکتی ہے۔

شاہ نواز کے علاوہ کئی اورنوجوان فاسٹ بولروں کی کارکردگی اچھی نظر آئی اور یہ نوجوان پاکستان ٹیم میں کھیلنےوالوں کے لئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔اس ٹورنامنٹ میں شائد بیٹنگ میں کوئی بڑا نام سامنے نہیں آیا لیکن بولنگ میں کئی باصلاحیت کھلاڑی ایسے ہیں جو بڑے ناموں والے فاسٹ بولروں کی جگہ لینے کے لئے کوششوں میں مصروف ہیں۔

سارے سال خبروں میں رہنے والی لاہور قلندرز کی ٹیم مایوس کن انداز میں پلے آف سے باہر ہوگئی۔پانچ میچ جیتنے کے باوجودنیٹ رن ریٹ قلندرز کے لئے ناکافی تھا۔ سپر لیگ کے چھٹے ایڈیشن کے پہلے راؤنڈ کے انتہائی اہم میچ میں کراچی کنگز نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو 14 رنز سے شکست دے کر پلے آف مرحلے کے لیے کوالیفائی کر لیا ہے۔اس طرح پاکستان سپر لیگ کے چھ سیزن کی تاریخ میں پانچویں مرتبہ لاہور قلندرز پلے آف مرحلے کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔

خیال رہے کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز پہلے ہی پلے آف مرحلے سے باہر ہو چکی تھی۔ قلندرز نے گذشتہ سال فائنل کھیلا تھا۔کراچی کنگز کے میچ میں کراچی کے دانش عزیز اپنی دھواں دار بیٹنگ اور کوئٹہ کے عارش علی ڈیبیو پر چار وکٹوں کے باعث نمایاں رہے۔ تاہم کراچی کی جیت کے باعث لاہور ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی۔میچ کے ہیرو کراچی کےدانش عزیز ثابت ہوئے جنھوں نے 13 گیندوں پر 45 رنز کی دھوں دار اننگز کھیل کر کراچی کنگز کو ایک مستحکم مجموعی اسکور تک رسائی دلوائی تھی۔

سپر لیگ میں پاکستان کرکٹ ٹیم اور کوئٹہ کےفاسٹ بولر نسیم شاہ دو اوورز کرانے کے بعد تیسرا اوور نہ کراسکے اور پنڈلی پکڑ کر باہر چلے گئے۔نسیم شاہ کی جگہ سرفراز احمد نے ویلڈر موتھ کو بولنگ دی جس پر دانش عزیز نے چار چھکوں کی مدد سے33رنز بناکر پی ایس ایل میں ایک اوور میں سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ بنادیا۔ ان سے قبل پشاور زلمی کے ڈین کرسٹین نےایک اوور میں 32رنز دیئے تھے۔دانش عزیز نے چھکوں کی بارش کرکے میچ میں کراچی کنگز کو واپس لے آئے۔نسیم شاہ کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

پاکستان کی قومی ٹیم میں حال ہی میں شامل ہونے والے اعظم خان کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی اور انھوں نےکراچی کنگز کے خلاف پھر ایک اچھا موقع کھو کر 12 گیندوں پر صرف 15 رنز بنائے۔اعظم خان کو قومی ٹیم شامل کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی تھی کہ وہ پاکستان کے لیے لوئر آرڈر میں جارحانہ کھیل پیش کر سکیں گے۔تاہم اب تک اس ٹورنامنٹ کے متحدہ عرب امارات میں ہونے والے میچوں میں اعظم خان کی کارکردگی خاطر خواہ نہیں رہی۔ انہوں نے پانچ میچوں میں صرف 76 رنز بنائے۔

سابق چیمپین کوئٹہ کا پی ایس ایل ریکارڈ شاندار رہاہے لیکن کوئٹہ کی ٹیم ٹورنامنٹ میں بدترین کارکردگی دکھا کر دس میں سے آٹھ میچ ہار گئی۔کپتان سرفراز احمد نے دس میچوں میں321رنز بنائے لیکن ایسی ٹیم تشکیل دی گئی جس کا بیلنس کسی کلب ٹیم کی طرح دکھائی دیا۔کوئٹہ گلیڈ ایٹرز کے کپتان سرفراز احمد کا کہنا ہے کہ پورے ٹورنامنٹ میں بیٹنگ نے مایوس کیا۔اپنے پرستاروں سے معذرت چاہتے ہیں اس سال اچھا شو نہیں دکھا سکے۔ٹورنامنٹ میں ہمیں اوپنگ اور مڈل آرڈر میں مسئلہ رہا ، اگلے پی ایس ایل میں اچھی ٹیم سلیکٹ کرنے کی کوشش کریں گے۔پاکستان میں کرکٹ کے حلقوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ اگر ٹیم پی ایس ایل کی کارکردگی پر منتخب ہوتی تو شائد بہت سارے لڑکوں کو انگلینڈ جانے کے بجائے گھر جانا پڑتا۔

ہیڈ کوچ مصباح الحق مانتے ہیں کہ آئیڈیل تو یہی تھا کہ ان فارم بیٹسمینوں کو دیکھ کر انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے دوروں کے لئے ٹیموں کا اعلان کیا جاتا لیکن لاجسٹک اور کوویڈ کی وبا کی وجہ سے کچھ ایسے مسائل ہیں کہ ایسا ممکن نہ ہو سکا، اگر لاجسٹک اور وبا کے دوسرے مسائل ہمیں اجازت دیتے ہیں تو دیکھیں گے کہ ان فارم بیٹسمینوں کو کیسے اور کب واپس لایا جا سکتا ہے، ہمیں کہاں اور کس کھلاڑی کی ضرورت ہے ضرور دیکھیں گے لیکن جو کھلاڑی منتخب ہوئے ہیں وہ باصلاحیت ہیں انہیں اعتماد دینے کی ضرورت ہے، ان دنوں وہ ضرور آؤٹ آف فارم ہیں لیکن وہ باصلاحیت ہیں ہماری کوشش ہو گی کہ انگلینڈ میں انٹر اسکواڈ میچز اور ٹریننگ میں ان کے ساتھ کام کریں اور انہیں اعتماد دیں اورخامیوں کودور کریں۔

آصف علی اور افتخار احمد پہلے بھی پرفارم کرکے آئے تھے۔ فرنچائز کرکٹ اورانٹرنیشنل کرکٹ میں فرق ہوتا ہے، ضروری نہیں جو پی ایس ایل کی کنڈیشنز میں پرفارم نہیں کررہا وہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیزجا کربھی کارکردگی نہ دکھائے ،اس وقت جو لڑکے ٹیم میں ہیں ان سے اچھی کارکردگی لینے کی کوشش کریں گے۔مصباح الحق نے واضح کیا کہ حارث سہیل، سعود شکیل اورعبداللہ شفیق کو کیمپ میں ون ڈے میچز کھلاکر تیار کررہے ہیں۔ تینوں بیٹسمین کیمپ میں اچھا کھیل رہے ہیں۔ کوشش کررہے ہیں کہ حارث سہیل ، سعود شکیل اور عبداللہ شفیق ون ڈے کے لئے تیار بھی ہوں۔اسی دوران فاسٹ بولر محمد عامر کے انکشاف نے سب کو حیران کردیا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو کی فاسٹ بولر محمد عامر کے ساتھ دو ملاقاتوں کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق نے کہا ہے کہ محمد عامرکی کارکردگی ان کے ٹیم سے ڈراپ ہونے کی وجہ تھی۔عامرنے خود انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ اگرمحمد عامرریٹائرمنٹ واپس لیتے ہیں اوران کی کارکردگی اچھی ہوتو ان کی سلیکشن کے بارے میں مجھے کوئی مسئلہ نہیں،ان کے لیے دروازے کھلے ہیں۔

مصباح نے کہا کہ محمد عامر کے بارے میں پہلے بھی کہہ چکا اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ محمد عامر پرفارمنس اور انجریز کی وجہ سے ڈراپ ہوئے، میرا ان سے کوئی ذاتی مسئلہ نہیں ہے وہ میری کپتانی اور کوچنگ میں واپس آئے، محمد عامر نے ریٹائرمنٹ لی ہوئی ہے، اگر وہ ریٹائرمنٹ واپس لیتے ہیں اور اچھا پرفارم کرتے ہیں تو کیوں نہیں واپس آ سکتے۔واضع رہے کہ پی سی بی کا دعوی ہے کہ عامر کو ٹیم میں واپسی کے لیے کسی قسم کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی ۔یہ معمول کی ملاقات تھی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ سی ای او وسیم خان کی محمد عامر سے ملاقات ساڑھے چار ماہ قبل روٹین کے تحت ہوئی تھی لیکن مصباح الحق اور وقار یونس کو بائی پاس کرکے محمد عامر کو پاکستان ٹیم میں واپسی کی کوئی یقین دہا نی نہیں کرائی گئی ۔محمد عامر کو پاکستان ٹیم میں واپس آنے کے لئے طریقہ کار کو فالو کرنا ہوگا اس وقت محمد عامر انٹر نیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہیں اس لئے پاکستان ٹیم میں واپسی کے لئے کوئی گارنٹی نہیں دی گئی، عامر کو اپنے کیئر یئر کا فیصلہ خود کرنا ہے محمد عامر کی ٹیم میں واپسی اس کی کارکردگی سے مشروط ہےاگر وہ واپس آتے ہیں تو ان کو کارکردگی دکھانا ہوگیا انہیں کوئی کمٹمنٹ کرانے کا تاثر درست نہیں ہے۔ لیکن ولایت سے آئے ہوئے وسیم خان نے جس طرح محمد عامر سے جاکر ملاقات کی ہے اس سے کرکٹ کے حلقوں میں اچھا تاثر سامنے نہیں آیا۔عامر سمیت کرکٹ کے معاملات کو بہتر انداز میں ڈیل کرنے کی ضرورت ہے۔ایسے بیانات سے پی سی بی اور پاکستان کرکٹ کے لئے اچھا تاثر قائم نہیں ہورہا ہے۔