امریکی ٹی وی کو وزیراعظم کا انٹرویو

June 23, 2021

امریکی ٹیلی ویژن ایچ بی او کے نمائندے سے وزیراعظم عمران خان کا انٹرویو جو گزشتہ روز نشر ہوا، پاکستان کے ایٹمی پروگرام، تنازعہ جموں و کشمیر، افغانستان اور اسلامو فوبیا جیسے معاملات پر پاکستان کے دو ٹوک اور جرأت مندانہ مؤقف کی عکاسی کر رہا تھا۔ وزیراعظم نے بالکل درست کہا کہ کشمیر پر مغرب کا رویہ منافقانہ ہے۔ منافقت کی ایک جھلک امریکی صحافی کے سوالوں سے بھی ظاہر ہوتی تھی جس نے چین کے صوبے سنگ کیانک کے متعلق تو سوال بار بار دہرایا لیکن اقوامِ متحدہ کی واضح قراردادوں کے علی الرغم مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ بھارتی تسلط، آزادی کی جدوجہد کرنے والے کشمیری عوام پر بھارتی فوج کے بڑھتے ہوئے مظالم اور خود بھارتی آئین میں دی گئی ضمانتوں کے باوجود مقبوضہ علاقے کو بھارت میں ضم کرنے کے غیرآئینی اور غیراخلاقی اقدامات کے متعلق ایک لفظ نہیں بولا اور اگر بولا تو پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر معترضانہ سوال اٹھایا کہ آپ کا یہ پروگرام سمٹنے کی بجائے پھیلا کیوں جا رہا ہے؟ اس پر وزیراعظم کو کہنا پڑا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام صرف اپنے دفاع کیلئے ہے۔ اگر جموں و کشمیر کا تنازعہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل ہو جائے تو پاکستان اور بھارت مہذب ہمسایوں کی طرح رہیں گے اور انہیں ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ مغرب بھارتی فوج کے ہاتھوں ہزاروں کشمیریوں کی شہادت کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو نظر انداز کر رہا ہے۔ امریکہ اگر پورے عزم کے ساتھ ارادہ کرلے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکی صدر سے اگر ملاقات ہوئی تو تنازعہ کشمیر ہماری بات چیت کے ایجنڈے میں سرفہرست ہو گا۔ سنگ کیانگ کے بارے میں جہاں ایغور ترک مسلمانوں کی اکثریت ہے اور مغربی ممالک ان کے حقوق کی آڑ میں چین کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ کرتے ہیں، امریکی صحافی نے کرید کرید کر سوالات کئے تو وزیراعظم نے کہا کہ چین ہمارا ہر مشکل کا ساتھی ہے اور ایسے معاملات پر ہم بند کمرے میں بات کرتے رہتے ہیں۔ نجانے مغرب میں اس معاملے کو اتنا بڑھا چڑھا کر کیوں پیش کیا جاتا ہے؟ وزیراعظم نے پاک امریکہ تعلقات، افغانستان کی صورتحال اور اسلامو فوبیا کے حوالے سے بھی امریکی صحافی کے کئی چبھتے ہوئے سوالات کے تحمل سے جواب دیے۔ افغان بحران کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ امریکہ نے فوجی انخلا سے قبل اس کا سیاسی حل نہ نکالا تو وہاں زبردست خانہ جنگی ہوگی اور طالبان فتح حاصل کرنے پر تل گئے تو بہت خونریزی ہو گی جس کا سب سے زیادہ اثر پاکستان پر پڑے گا۔ اسی تناظر میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پچھلی مرتبہ ہم بہت جانی اور مالی نقصان اٹھا چکے ہیں۔ اب ہم پاکستان کی سرزمین سے افغانستان میں کسی قسم کی کارروائی یا فوجی اڈے بنانے کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے۔ ہم امن کے شراکت دار ہیں جنگ کے نہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے مسلم دنیا کے رہنمائوں کو کھلا خط کیوں لکھا کہ وہ اسلامو فوبیا کے خلاف متحد ہو جائیں؟ وزیراعظم نے کہا کہ اسلامو فوبیا کی بڑی وجہ اسلام اور مغربی معاشروں کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے۔ نائن الیون کے بعد اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح گھڑی گئی جس نے مغرب میں لوگوں کو گمراہ کیا۔ اور دنیا میں ایک ارب 30کروڑ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ عمران خان نے کورونا وبا پر قابو پانے میں اپنی کامیابیوں کا بھی ذکر کیا اور اس حوالے سے اپوزیشن پر تنقید کرنا بھی نہیں بھولے۔ تاہم قومی اہمیت کے بڑے مسائل پر ان کا مؤقف پوری قوم کے جذبات کا ترجمان قرار دیا جا سکتا ہے۔