بلوچستان، جمہوری رویہ اپنایا جائے

June 23, 2021

وہ چلن جو قومی اسمبلی اور بعد ازاں دیگر اسمبلیوں میںبجٹ سیشن سے پہلے ،اس کے دوران یا بعد میں دکھائی دیا نہ تو جمہوریت کہلائے گا نہ ہی اسے مہذب قرار دیا جاسکتا ہے۔اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن ہے لیکن یہ اختلاف اگرگالم گلوچ اور جوُتم پیزار تک جا پہنچےتو یہ جمہوری روایات کے منافی ہے۔ جمہوریت کوبچانا اور فروغ دینا کسی اور کا نہیں سیاستدانوں کا ہی کام ہے جو اس عمل کی بنیادی اکائی ہیں۔قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاسوں میں دکھائی دینے والے بد تہذیبی کے مناظر ہی ذہن سے محو نہ ہوئے تھے کہ یہ سلسلہ دراز اور مزید گنجلک ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔گزشتہ روز قائدِ حزب اختلاف سمیت بلوچستان اسمبلی کے متعدد ارکان پولیس اسٹیشن میں پیش ہو گئے جن کے خلاف بجٹ سیشن سے قبل اسمبلی اور قانون سازوں پر حملہ کرنے کے الزام میں حکومتی اراکین نے ایف آئی آر درج کرائی تھی۔تاہم پولیس عہدیداروں کا کہنا تھا کہ اصول و ضوابط کی روشنی میںکسی بھی رکنِ اسمبلی کی گرفتاری سےقبل اسپیکرکی اجازت درکار ہوتی ہے، متعلقہ اراکینِ صوبائی اسمبلی کواس قانون سے آگاہ کیا گیا تھا اور وہ اپنی مرضی سے تھانے میں موجود تھے۔گزشتہ ہفتے اپوزیشن اراکینِ اسمبلی اور ان کے حامیوں نے نئے مالی سال کے صوبائی بجٹ میں ان کے حلقوں کو نظرانداز کرنے پر بجٹ تقریر روکنے کیلئے راستہ بند کر کے بلوچستان اسمبلی کے احاطے تک رسائی روک دی تھی۔اس سب ہنگامہ آرائی سے جمہوریت کو فروغ ملا یا وہ ہدفِ ملامت بنی؟اپوزیشن پارلیمان میں مہذب انداز میں اپنے تحفظات سامنے لاتی تو بعید نہ تھا کہ حکومت اس کی بات نہ سنتی۔سیاستدانوں کو ،خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میںاپنا رویہ تبدیل کرنا ہو گا ، اِنہیں قواعد و ضوابط کے مطابق کسی بھی معاملے پر جو اسمبلیوں میں زیر بحث آئے، عوامی مفادات مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی تجاویز پیش کرنی چاہئیں اور ہنگامہ آرائی سے بچنا چاہئے۔