چند سوالات

June 23, 2021

کچھ سوالات اور تبصرے ہیں۔ ہر ایک اپنی جگہ انتہائی خوفناک۔ جتنا انسان سوچتاہے، اتنا ہی حیرت میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔

کسی عالی دماغ نے کہا تھا: دوہی صورتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ انسان اس دنیا میں اکیلا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ہم تنہا نہیں۔ دونوں صورتیں ایک ہی جتنی خوفناک ہیں۔ اور کوئی سیارہ آبا د نہیں تو پریشان کن سوال یہ ہے کہ ہم کہاں سے آگئے؟ اگر کوئی اور زمین بھی آباد ہے تو کسی دن کوئی ذی روح وہاں سے ڈھونڈتا ہوایہاں آئے گا۔

دنیا میں دو ہی قسم کے انسان پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جن کا خیال یہ ہے کہ یہ دنیا اپنے آپ وجود میں آئی ہے۔ ان کی بات اگر مان لی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ زندگی جیسی بھی گزرے اس سے فرق نہیں پڑتا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ یہ سب اتفاق نہیں۔ ایک دن ہمیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور ہمارے اعمال کے بارے میں ہم سےسوال ہو گا۔یہ صورت بہت تشویشناک ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ میری طرح ننانوے فیصد لوگ بظاہر تو خدا پہ ایمان رکھتے ہیں لیکن ان کے قول و فعل میں وہ کہیںبھی نظر نہیں آتا۔وقتی نادانی ایک الگ چیز ہے، اگر علمی طور پر ہمیں خدا پر یقین ہوتا تو عمر بھر ڈٹ کے کرپشن کوئی نہ کرتا۔ پروفیسر احمد رفیق اختر یہ کہتے ہیں کہ جب میں نے قرآن کا پوری طرح جائزہ لے لیا اورواقعی مجھے خدا کے وجود پر یقین آگیا تو کئی دن کے لئے میرا نروس بریک ڈائون ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر واقعی یقین آجائے تو انسان عمر بھر کے لئے تبدیل ہو جاتاہے۔ پھرہم کیوں تبدیل نہیں ہو رہے ؟

ایک سوال یہ ہے : ایک شخص صو م و صلوٰۃ کا پابند ہے مگر اپنے ذاتی مفاد کی خاطر پوری زندگی بسر کر دیتاہے۔ دوسرا شخص خدا پہ ایمان ہی نہیں رکھتا لیکن وہ لاکھوں، کروڑوں انسانوں کے لئے آسانی کا باعث بنتاہے۔ مثلاً ایک نئی ایجاد کرنے والا یا ہزاروں لوگوں کو روزانہ کھانا کھلانے والا۔ جنت کا حق دار کون ہے ؟ سیکولر حضرات مدر ٹریسا کی مثال دیتے ہیں۔ دوسری طرف یہ آیت ہے ’’ان الدین عند ﷲ الاسلام ‘‘ آخری نبیؐ کے مبعوث ہونے کے بعد اگر کوئی شخص اسلام قبول نہیں کرتاتودنیا میں اس کی نیکیاں اسے کچھ فائدہ نہ دیں گی۔ اس پر وہ یہ کہتے ہیں کہ جو لوگ ملاوٹ کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، دھوکہ دیتے ہیں مگر زبانی کلامی ﷲ پر ایمان رکھتے ہیں، وہ تو جائیں جنت میں۔ دوسری طرف بھوکی ننگی انسانیت کاپیٹ بھرنے والے دوزخ میں جائیں، کیا یہ بات عجیب نہیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ کرپشن کرنے والے تو رہے ایک طرف، کبھی ریاکاروں کے بارے میں پڑھیے۔ وہ لوگ، جو بظاہر نیک ہوں گے لیکن ان کی نیکیوں، ان کی سخاوت اور شجاعت کا اصل مقصد لوگوں کی تحسین حاصل کرنا ہوگا یعنی حبِ جاہ۔ حشر کے دن بظاہر کچھ بہت نیک لوگوں کو جہنم لے جانے کا حکم ہو گا۔ یہ ریاکار ہوں گے، جنہیں دنیا میں ان کی کوشش کا صلہ لوگوں کی تحسین کے صلے میں مل چکا ہوگا۔ آخرت میں انہیں اس کی کوئی جزا نہیں ملے گی۔

کبھی آپ اپنے آپ پر بھی غور کریں کہ آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اگر آپ سچے دل سے غور کریں تو آپ کی زندگی کا کوئی نہ کوئی ایسا مقصد ضرور ہوگا جو باقی تمام مقاصد پہ حاوی ہوگا۔ آپ کی زندگی لاشعوری طور پر اس ایک مقصد کے گرد گھوم رہی ہوگی اور دوسری تمام چیزوں کی حیثیت ثانوی ہوگی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک شخص جتنی دیر غصے میں ہوتاہے تو اس کے تمام کام اس غصے کی کیفیت میں ہی انجام پاتے ہیں۔ آپ کو محسوس ہوگا کہ لاشعوری طور پر آپ کی زندگی کاکوئی نہ کوئی ایک مقصد دوسرے تمام مقاصد پہ حاوی ہوگا۔ آپ لاشعوری طور پر اس ایک مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اپنی تمام کوشش صرف کر رہے ہوں گے۔ مثلاً اکثر لوگوں کی زندگی کا مقصد اپنی دولت میں اضافہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی کوئی ڈبل شاہ نمودار ہوتاہے، یہ لوگ لالچ میں پاگل ہو کر اپنی ساری جمع پونجی اس کے سامنے پھینک دیتے ہیں۔ اکثر لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اپنی اولاد کی فلاح و بہبود ہے۔ غریب ہی نہیں، امرا بھی آخری سانس تک اولاد کا بھلا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ جب کبھی کوئی شخص کسی عورت کے عشق میں مبتلا ہوتا ہے تو باقی تمام مقاصد اس کے نزدیک بے کار ہو جاتے ہیں۔ دولت حاصل کرنے میں بھی اسے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ امیر کبیر شخص محبوب کی خاطر گلیوں میں رلتے پھرتے ہیں۔

ہم اس چیز کو سمجھتے نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک ’’نشئی‘‘ ہے۔ کسی کو حب جاہ نے اتنا پاگل کر دیا ہے کہ وہ ہر وقت منٹو بننے کی کوشش میں لگا رہتاہے۔ فیس بک پر بہت سارے منٹو کے انڈے بچے نکل آئے ہیں۔ ہر وقت لوگ ایک خاص ذہنی حالت میں رہنے لگے ہیں۔ اپنے اس اوّلین مقصد کو حاصل کرنے کے لئے غالباًتمام لوگ دیوانے ہو چکے ہیں۔ اس سب سے بڑے مقصد کو کہتے ہیں ’’اولین ترجیح‘‘۔ ﷲ بھی جب تک ایک انسان کی اوّلین ترجیح نہ بن جائے تو وہ اسے کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ مٹی کے اس بدن میں اتنی کمزوریاں، لذتیں اور خواہشات پائی جاتی ہیں کہ خدا کو مدد کے لئے پکارے بغیر انسان خدا کو اپنی اوّلین ترجیح نہیںبھی نہیں بنا سکتا، کجا یہ کہ وہ واقعتاً اسے حاصل کر لے۔