کراچی میں منشیات کی وبا

June 23, 2021

کراچی جو پاکستان کا سب بڑا شہر ہے، مختلف ادوار میں مختلف چیلنجز سے نبرد آزما رہا ہے، اس شہر میں جہاں قائداعظم آسودہ خاک ہیں، یہ اِن دنوں منشیات کی وبا کا سامنا کر رہاہے۔ یوں تو کورونا وبا نے بھی اس شہر کو بہت متاثر کیا، سینکڑوں لوگ اس وبا کی وجہ سے داعی اجل کو لبیک کہہ گئے، ہزاروں گھرانوں کے چولہے بجھ گئے لیکن تمام تر جانی و مالی نقصان کے باوجود چونکہ یہ ایک عالگیر وبا کا اثر تھا، اس لئے اس کے نقصانات کو حکومتی، معاشرتی یا سماجی کمزوریوں یا کوتاہیوں سے نہیں جوڑا گیا، البتہ روزگار و کاروبار، معاشی نقصانات کے حوالے سے حکومت پر الزامات لگائے جاتے رہے کہ ان نقصانات کو بہتر حکمتِ عملی کے تحت کم کیا جا سکتا تھا، اِن میں سے اکثر الزامات سے راقم کا اتفاق بھی رہا اور ان سطور میں تواتر کے ساتھ ان کا ذکر بھی کیا جاتا رہا لیکن مجموعی طور پر اسے معاشرتی یا حکومتی انحطاط سے تعبیر نہیں کیا گیا۔ تاہم پورے ملک اور بالخصوص کراچی میں منشیات فروش جس طرح اپنا تسلط قائم کررہے ہیں اور جس کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل چرس، افیون، ہیروئن، بھنگ، آئس، کوکین، ایس ایل ڈی، گانجا، الکوحل، گٹکا، گلو(صمدبانڈ) سمیت منشیات کی 21سے زائد اقسام میں مبتلا ہوکر تباہی کا شکار ہو رہی ہے، اس سے خوفناک سماجی بحران جنم لے رہا ہے،جس سے حکومت کو کسی بھی طور بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ملک میں 24اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ منشیات کی ترسیل اور فروخت روکیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود بالخصوص، ہیروئن و چرس کس طرح کراچی پہنچ جاتی ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ منشیات لاکھوں زندگیوں کو تباہ کر چکی ہیں لیکن یہ اسلامی جمہوریہ جو اب ریاستِ مدینہ کہلاتی ہے، اس انسانی المیے کو سنجیدگی سے نہیں دیکھ رہی۔ یہی وجہ ہے کہ منشیات کی لت نے ہمارے معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔ ہماری نوجوان نسل منشیات اور اس کی وجہ سے دیگر علتوں میں مبتلا ہو کر نہ صرف اپنی زندگی تباہ کر رہی ہے بلکہ اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں کے لئے بھی اذیت اور ذلت و رسوائی کا سبب بن رہی ہے۔ نشہ جسمکو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی سلب کر کے رکھ دیتا ہے، اس لئے مستقبل کے ضامن یہ نوجوان جرائم کا راستہ اختیار کررہے ہیں، ان میں ایک بڑی تعداد نشے کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے منشیات فروشوں کی آلہ کار بھی بن جاتی ہے۔ 1979تک پاکستان میں ہیروئن کا نام کسی نے بھی نہیں سنا تھا لیکن 80کی دہائی میں نام نہاد امریکی جہاد کے نتیجے میں جہاں کلاشنکوف کلچر پاکستان میں متعارف ہوا، وہاں ہیروئن کی لعنت نے بھی اسلام کے اس قلعے میں ڈیرے ڈال دیے۔ اس نشے نے لاکھوں خاندانوں کو تباہ کرکے پاکستان میں کئی کروڑ پتی و ارب پتی پیدا کئے، ان میں سیاست سمیت اکثر آج بھی پاکستان میں معتبر ہیں۔ ایک عرصے سے ہیروئن سے بھی زیادہ برق رفتاری سے ایک اور نشے نے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جسے کرسٹل میتھ یا آئس کہا جاتا ہے، یہ نشہ ’’میتھ ایمفٹامین“ نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے، جو چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر کرسٹل کی قسم کی سفید شے ہے جسے باریک شیشے سے گزار کر حرارت دی جاتی ہے۔ اس مقصد کیلئے عام طور پر بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اسے جسم میں اُتارنے کا ایک ذریعہ انجکشن بھی ہے۔ یہ نشہ کراچی میں کس قدر بھاری مقدار میں موجود ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی میں سرکاری اہلکار بعض ایسی لیبارٹریز پر چھاپے مار چکے ہیں جہاں کرسٹل تیار کی جاتی تھی۔ یعنی یہ نشہ اگرچہ اسمگل ہوکر بھی یہاں آتا ہے لیکن اس شہر میں اسکی لیبارٹریاں بھی قائم ہیں۔ایک زمانے میں منشیات کی فروخت کےلئے کراچی کے مخصوص علاقے معروف تھے، اب یہ ہر جگہ دستیاب ہیں، یہاں تک کہ وزیراعلیٰ ہائوس کے قریبی علاقے بھی اس کے گڑھ بن چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ ہائوس کے قریبی علاقوں ہجرت کالونی اور سلطان آباد کے سنگم پر جو علاقہ سمندر کہلاتا ہے وہاں راقم نے خود مشاہدہ کیا کہ کئی نوجوان نشے میں دھت پڑے ہوئے تھے، اب تو ان علاقوں کے علاوہ دیگر علاقوں سے بھی نوجوان یہاں آتے ہیں اور باآسانی انہیں آئس، ہیروئن اور دیگر نشے مل جاتے ہیں، سول لائن اور داکس تھانوں کی حدود میں منشیات فروش دندناتے رہتے ہیں، جب جب اہلِ محلہ ان کیخلاف نکلتے ہیں اور ایس ایس پی کیماڑی مخلصانہ طور پر کارروائی کرتے ہیں تو ان تھانوں کی پولیس ایسی کارروائی میں تعاون نہیں کرتی، یوں وقتی طور پر بند ہونے کے بعد یہ سلسلہ پھر شروع ہو جاتا ہے۔ قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ نوجوان نسل کی تباہی پر جہاں حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی وہاں سیاسی جماعتیں بہ وجوہ اس کا ذکر نہیں کرتیں، علما بھی نالوں، سڑکوں، فٹ پاتھوں پر نشے سے چور زندہ لاشوں کو دیکھتے ہیں لیکن کبھی اس مسئلے کو اپنے خطبے، وعظ یا تبلیغ کا حصہ نہیں بناتے۔ کاش حکومت اور مذہبی و سیاسی زعما ذاتی، مسلکی و جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کراس انسانی المیے پر بھی توجہ دیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)